۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
المصطفی

حوزہ / ایران کے شہر قم المقدسہ میں واقع مجتمع آموزش عالی قرآن و حدیث کی جانب سے "ولایت فقیہ کی بحث پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مرجعیت دینی اور مرجعیت سیاسی کی بررسی" کے موضوع پر ایک علمی نشست کا انعقاد کیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نجف اشرف کے عالمِ دین جناب حجۃ الاسلام والمسلمین غریفی نے مجتمع آموزش عالی قرآن و حدیث قم میں واقع شہید عارف الحسینی ہال میں اس مجتمع (کمپلیکس) کے اساتید کے ساتھ "ولایت فقیہ کی بحث پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے مرجعیت دینی اور مرجعیت سیاسی کی بررسی" کے موضوع پر منعقدہ ایک نشست میں شرکت کی۔

انہوں نے معاشرے کے حقوقِ عامہ کے بارے میں بعض آیات الٰہی کو پیش کرتے ہوئے کہا: دین کو سمجھنا اور احکام الٰہی کو جاننا ابتدائی طور پر ایک مشترکہ فریضہ ہے اور یہ ذمہ داری معاشرے کے تمام افراد پر عائد ہوتی ہے۔ جب کوئی مجتہد دین میں تفقہ کے بعد کسی موضوع کو کشف و استنباط کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اسے معاشرے کے سامنے پیش کرے، لہذا اسے اس موضوع کو صرف اپنے لئے سمجھنے کا کوئی حق نہیں ہوتا ہے۔

حوزہ علمیہ نجف کے اس استاد نے معالمِ دینی اور سنتِ نبوی کے بیان کو ایک مرجع اور فقیہ کے اولین فرائض میں سے شمار کرتے ہوئے کہا: دین کی تعلیم صرف عبادی امور تک محدود نہیں ہے، بلکہ ایک عمومی زمرہ کی حیثیت سے یہ مسلمانوں کی زندگیوں سے وابستہ تمام مسائلِ محدثہ کو بھی شامل ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین غریفی نے کہا: موضوع "ولایت" معاشرے کے تمام امور منجملہ فتویٰ کا بیان، قضاوت، امت اسلامیہ کے تمام امور کے حکم اور تدبیر اور مصالح و مفادات کی رعایت، حدود کا قیام اور خطرات کو دور کرنا جیسے تمام امور کو شامل ہے۔

اس نشست کے خطیب نے اسلامی ممالک پر حاکم مرجعیت دینی اور مرجعیت سیاسی کے مختلف نقطۂ نظر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی ممالک میں سیاسی مشروعیت اور اس کا جواز مرجعیتِ دینی اور اسلامی معاشرہ میں دین کی مختلف جہتوں کے مظہر پر توجہ دئے بغیر ممکن نہیں ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین ظریفی نے کہا: آزاداور مختار آدمی ہمیشہ مرجعیتِ فقیہ جامع الشرائط اور مرجعیتِ احزاب (گروہی) میں سے ایک ہی کا انتخاب کرتا ہے۔ مرجعیتِ سیاسی مرجعیتِ مذہبی یا مرجعیتِ جماعتی کے لیے میدانِ عمل کے طور پر ہے۔

انہوں نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے ولی فقیہ کے اختیارات کی حدود کی جانب اشارہ کیا اور مرجعیتِ دینی کو ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ اختصاص دیتے ہوئے کہا: پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مومنین پر اختیار کے حوالے  سے خود ان سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں "خداوند کریم میرا اور مومنین کا مولا ہے اور علی اس کا مولا ہے جس کا میں مولا ہوں"۔

حوزہ علمیہ نجف کے اس استاد کہا: غیبتِ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے دوران مسلمانوں پر ولایتِ فقیہ ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کی طرح ہے۔ فقیہ تمام شئونِ اسلامی منجملہ امر بالمعروف و نہی از منکر، اعمالِ حدود اور تعزیراتِ اسلامی میں ولایت رکھتا ہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین غریفی نے اپنے بیانات کے آخر میں اندیشۂ اسلامی میں ولایتِ عامہ اور ولایتِ حسبہ فقیہ کے درمیان فرق کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اکثر علماءِ اسلام تمام شئونِ اسلامیہ کے حکم اور تدبیر، مصالح و مفادات کی رعایت، حدودِ اسلامی کے قیام میں ولایت فقیہ کے قائل ہیں اور اسے غیبتِ امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے دوران مسلمانوں کی اجتماعی ضروریات کے طور پر جانتے ہیں۔

قابلِ ذکر ہے کہ استاد غریفی "انصار الحجۃ" نامی رسالے کی خصوصی اشاعت کے ساتھ ساتھ مختلف مضامین جیسے " فقہی نقطہ نظر سے قابض صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا حکم" اور "فقہی نقطہ نظر سے ایٹمی توانائی کا حکم" جیسے مقالات کو بھی تحریرکر چکے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .