۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
امام حسین علیہ السلام

حوزہ/ قرآن جو ایک زندہ معجزہ ہے جسکی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے، تو دوسری جانب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ وہ حسین جس نے خدا کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا اسی حسین پر خدا آج ناز کرتے ہوئے اپنی کائنات کو لٹا رہا ہے۔ جس کا ایک مشاہدہ اربعین کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی حسین (ع)  کے نام کو تاابد تک خدا زندہ و بلند رکھا ہوا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی |

تحریر: ارم زہراء

شاعر نے کیا خوب لکھا:

شاہ است حسین بادشاہ است حسین

دین است حسین دین پناہ است حسین

سردار نداد دست در دست یزید

حقا کہ بنا لاالہ است حسین

وہ حسین کہ جس نے اسلام کو پناہ دی،وہ حسین جس نے زمینی خداؤں کی بساط لپیٹ کر لا الہ کے قلعہ کی تعمیر نو کی،اُس وقت جب دین مردہ حالت میں آچکا تھا۔حسین نے مردہ دین کو حیات بخشی اور اپنے خون کے ذریعے اس کو تازگی سے منور کیا۔

وہ حسین جنکی حیات طیبہ کو پچپن سے ہی قرآن کے مطابق اس انداز میں ڈھالا گیا کہ آپ کا ہر عمل الہیٰ آیات کی تجلی بن کر اُفق عالم پر چمکا، اسی بنا پر آپکو عدل و شریک قرآن بھی کہا گیا ہے۔

کیا لکھے یہ عام قلم تیری شان یا حسین ع

لکھ سکتا ہے قرآن تیری شان یا حسین ع

وارث انبیاء صاحب ھل اتٰی امام حسین علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو عام انسان بیان کرنے سے عاجز ہے۔

آپ کی فضیلت کو قرآن یا تو پھر ناطق قرآن ہی بیان کرسکتے ہیں!

مشہور احادیث میں سے ایک حدیث یہ ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"اني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي"

میں تمہارے درمیان دو گرا نمایہ چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک کتاب خدا دوسری میری عترت ۔(1)

اسی عترت کا ایک مصداق امام حسین ہے۔

آپ کی ذات خدا کے نزدیک اتنی بڑی فضیلت کی حامل ہے کہ کلام خدا اور نبی کے فرامین کی شباھت کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

قرآن مجید و احادیث کی حسین کے بارے میں شباہت

ایک طرف خداوند متعال اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرماتا ہے کہ "ھُدَی للمتقین"

یعنی یہ کتاب پرہیز گاروں کی راہنما ہے(2)

تو دوسری جانب نبی خدا ص جو وحی خدا کے بغیر کلام نہیں کرتے آپ ص نے ارشاد فرمایا:

"حسین مصباح الھدیٰ"

حسین ھدایت کا چراغ ہے(3)

ارشاد ہوا "وعلم نجات" قرآن نجات کا پرچم ہے (4)

دوسری جانب ارشاد ہوا کہ

"حسین سفینة النجاة"

حسین نجات کی کشتی ہے(5)

پھر ارشاد ہوا:

"اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ"

قرآن کو ہم نے نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرے گے(6)

قرآن جو ایک زندہ معجزہ ہے جسکی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے، تو دوسری جانب آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ وہ حسین جس نے خدا کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ لٹا دیا اسی حسین پر خدا آج ناز کرتے ہوئے اپنی کائنات کو لٹا رہا ہے۔ جس کا ایک مشاہدہ اربعین کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی حسین (ع) کے نام کو تاابد تک خدا زندہ و بلند رکھا ہوا ہے۔

آج تک کتنے نامی گرامی بادشاہ و حکمران آئے جو قبر حسین کے نشان تک کو مٹانا چاہتے تھے لیکن خود بے نشاں ہوگئے۔

جسے رکھیں خدا زندہ اسے کون مٹا سکتا ہے۔

یہ ہے عظمت حسین خدا کی نظر میں

آب آئیے دیکھتے ہیں کہ جس کی وجہ سے دنیا کو خلق کیا گیا وہ سید المرسلین خاتم النبیین امام حسین کے بارے میں کیا فرما رہے ہے۔آپ ص نے فرمایا:

"حسین ومنی وانا من الحسین"

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے (7)

حدیث کے پہلے سرے کی یہ بات بالکل واضح ہے کہ حسین کا اپنے نانا سے ہونا کس طرح ہے۔

لیکن نانا کا نواسہ سے ہونا کیسے ؟

اب جب نواسہ حسین جیسا ہو جو اپنے نانا کے دین کو بچانے والا، اپنے بابا کی ولایت کو بچانے والا، اپنے بھائی کی امامت کو بچانے والا ، اپنی ماں کی عصمت کو بچانے والا، تمام انبیاء کے مشن کی بقاء کی خاطر جدوجہد کرنے والا، اپنا سب کچھ قربان کرنے والا ہو تو کیا وہ نواسہ نانا سے نہیں ہوسکتا ......!

اس عظیم شخصیت کی جس نے اتنی قربانیوں کے بعد جاکر یہ مرتبہ حاصل کیا اس کی پوری زندگی انسانیت کے لیے نمونہ عمل ہے۔آج ہمیں اپنی زندگی کو ان کے اصولوں کے تحت گزارنا چاہیے تاکہ قرب خدا کو حاصل کرسکے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس عظمتوں سے بھری ہوئی شخصیت کہ جسکے بارے میں نبی خدا اپنی امت سے فرما گئے کہ جو حسین سے محبت کریں گا خدا بھی اس سے محبت کرے گا!

اگر آج ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی محبت کو حاصل کریں اور اسکے مُقرب بندے بنیں تو ضروری ہے کہ آج اس نجات کی کشتی (جسکے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا کہ حسین نجات کی کشتی ہے) میں سوار ہوجائے۔ کشتی نجات آج بھی چل رہی ہے اور امام آج بھی ہمیں آواز دیں رہے ہیں کہ اگر اس نجات کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں؛ تو ظلم کے خلاف خاموشی اختیار نہ کرنا، اگر سوار ہونا چاہتے ہو تو کسی کا حق غضب نہ کرنا، اگر سوار ہونا چاہتے ہیں تو حقوق العباد کو ترک نہ کرنا، اگر سوار ہونا چاہتے ہو تو حقوق الناس سے دست بردار نہ ہونا،اگر ان قوانین پر عمل کرتے ہو تو آؤ نجات کی کشتی میں سوار ہو جاؤ؛ جو تمہاری منتظر ہے اس میں سوار ہو جاؤ اور اللہ کی امان حاصل کرلو !

خدا سے دعا گو ہیں کہ پروردگار عالم ہمیں اس نجات کے راستے کا راہی بنائے آمین

حوالہ جات

(1)کتاب :قصص القرآن

تالیف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازیمترجم:سید صفدر حسین نجفی مرحومپبلیشر: انصاریان پبلیکیشن _قم صفحہ نمبر :849

اول طبع ۱۴۲۵

(2)۔۔۔ سورہ بقرہ آیت 2

(3)۔کتاب: مصباح الھدی

تالیف:آیت اللہ واحد خراسانی

ناشر:مدرسۃ الامام بغیرہ العلوم قم -1393صفحہ نمبر:47

(4)۔۔کتاب : صحیفہ سجادیہ

ترجمہ وحواشی : علامہ مفتی جعفر حسین دعا نمبر:42

پبلیشر: المہدی بک سینٹر

(5)کتاب: مصباح الھدی

تالیف:آیت اللہ واحد خراسانی

ناشر:مدرسۃ الامام بغیرہ العلوم قم -1393

(6۔)۔۔سورہ حجرات آیت نمبر 9

(7)کتاب: امام حسین علیہ السلام کے کرامات سے جھلک

تالیف:استاد رشید زمیزم

مترجم:حسن محمد انصاری

منجانب: میڈیا سیکشن روضہ اقدس حسینی صفحہ نمبر:18

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .