حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،اصفہان/حجۃ الاسلام والمسلمین مہدی ماندگاری نے اصفہان میں مجلس ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جو اپنے وقت کے امام کے نقش قدم پر ثابت قدم رہتے ہیں وہ امان وقت جیسا نظریہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ عاشورہ کا پہلا درس یہ ہے کہ امام حسین (ع) خدا پر بھروسہ اور یقین رکھتے تھے، دوسرا درس یہ ہے کہ حضرت دنیا کو عارضی،آخرت اور موت برحق سمجھتے تھے اور انسان نے فنا ہونا ہے،کیا بہتر نہیں ہے؟ کہ بہترین موت آئے۔
انہوں نے بیان کیا کہ امام حسین (ع) روحانی اسباب پر یقین رکھتے تھے،لہذا اگر ہم اس وقت کے یزید اور یزیدیوں کے خلاف جنگ میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں،یا اگر ہم کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں صحت کے اصولوں کی رعایت کرنے اور ویکسینیشن کے علاوہ روحانی اوزار سے بھی استفادہ کرنا چاہئے۔ان روحانی اوزار اور وجوہات میں نماز ، صبر ، روزہ ، دعا ، ذکر ، قرآن ، توسل اور صدقہ شامل ہے۔
استاد ماندگاری نے بیان کیا کہ امام حسین علیہ السلام 8 آسمانی کیمروں،گواہوں اور ناظرین پر یقین رکھتے تھے،ان میں سے پہلا خدا کی ذات ہے کہ سورۂ مبارکۂ علق کی 14ویں آیۃ میں فرماتا ہے:«أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى».کیا وہ نہیں جانتا کہ خدا اس کے تمام اعمال کو دیکھتا ہے۔؟ دوسرا گواہ جس پر امام علیہ السلام یقین رکھتے تھے وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے۔ سورۂ مبارکۂ الاحزاب کی 45ویں آیۃ میں خدا فرماتا ہے: «يَآ اَيُّـهَا النَّبِىُّ اِنَّـآ اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيْـرًا».اے پیغمبر! ہم نے تجھے گواہ،خوشخبری دینے والا اور انذار کرنے والا بناکر بھیجھا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سورۂ مبارکۂ توبہ کی 105ویں آیۃ کے مطابق تیسرا گواہ جس پر امام حسین علیہ السلام ایمان رکھتے تھے وہ اہل بیت علیہم السلام کی ذات ہے۔ خدا سورۂ مبارکۂ توبہ کی 105ویں میں فرماتا ہے:
«وَقُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَةِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ.»کہہ دو!عمل کرو خدا،اس کا رسول اور مومنین تمہارے عمل کو دیکھتے ہیں اور عنقریب اس کی طرف لوٹ کر جاؤ گے کہ جو پنہاں اور آشکار کو جانتا ہے اور تمہیں اس چیز کی خبر دے گا جو کچھ تم کرتے ہو۔
انہوں نے چوتھے کیمرے(گواہ) کو خدا کے مقرب فرشتوں کو قرار دیا اور کہا کہ سورۂ مبارکۂ مطففین کی 20اور21ویں آیات میں فرمایا:«كِتَابٌ مَّرْقُومٌ.يَشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُونَ.»تحریر ہے لکھی ہوئی اور سرنوشت ہے قطعی۔جس کے شاہد مقرّبین ہیں۔
انہوں نے سورۂ مبارکۂ بقرہ کی 154ویں آیۃ کے مطابق، پانچویں گواہ(کیمرہ) کہ جس پر امام حسین علیہ السلام کو یقین تھا،شہداء سے تعبیر کیا اور کہا کہ اس آیۃ کے مطابق خدا فرماتا ہے:«وَلاَتَقُولُوا لِمَنْ یُقْتَلُ فِی سَبِیلِ اللهِ اٴَمْوَاتٌ بَلْ اٴَحْیَاءٌ وَلَکِنْ لاَتَشْعُرُونَ.»جو راہ خدا میں قتل ہوجاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے۔ہمارے ملک میں ہمارے اعمال پر گواہ کے طور پر 232،000 شہداء ہیں۔
حجۃ الاسلام ماندگاری نے سورۂ مبارکۂ زلزال کی چوتھی آیۃ نمبر کا حوالہ دیتے ہوئے چھٹے کیمرے(گواہ) کو زمین قرار دیا اور نشاندہی کی کہ«يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا» امام حسین (ع) نے کربلا کی زمین کو گواہ بنا کر فرمایا: اے زمین کربلا ، گواہ رہو کہ ان لوگوں نے اپنے نبی کی بیٹی کے بیٹے کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ساتواں گواہ(کیمرہ) وقت ہے،جس کا ذکر سورۂ مبارکۂ بروج کی پہلی آیات میں ہے،کہ کچھ دن اور راتیں، جیسے لیلۃ القدر اور یوم عرفہ خصوصی دنوں میں شامل ہیں،اسی وجہ سے یہ ایام قیامت کے دن گواہ دیں گے کہ ہم نے ان دنوں اور راتوں میں کیا کیا ہے؟
حجۃ الاسلام استاد ماندگاری نے سورۂ مبارکۂ فصلت کی 20 اور 21 ویں آیات اور سورۂ مبارکۂ یاسین کی کچھ آیتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،آٹھویں کیمرے(گواہ) کو اعضاء و جوارح قرار دیا اور بیان کیا کہ
ہمارے ہاتھ اور پاؤں قیامت کے دن گواہی دیں گے کہ ہم نے کیا اعمال انجام دیئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی ان آٹھ کیمروں(گواہوں) کو قبول کرتا ہے،اپنے فرائض اور اعمال کو صحیح اور مکمل طور پر انجام دیتا ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں غلطیاں یا کوتاہیاں نہیں کرتا ہے۔