حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنو/ استقبال ماہ عزا کی مناسبت سے جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب میں بعنوان ’’عزاداری اور ہماری ذمہ داری‘‘ دو روزہ ویبنار کا انعقاد کیاگیا جسکی پہلی دو نشستیں آج یوم عید مباہلہ منعقد ہوئیں۔
مولانا محمد عباس معروفی صاحب مبلغ و استاد جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز کیا ۔ مولانا سید صفدر عباس فاضل جامعہ امامیہ نے بارگاہ اہلبیت ؑ میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
مولانا سید ظفر عباس صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ’’بے شک قتل حسین ؑ سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہو گی جو کبھی سرد نہیں ہو گی‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ دین، عقل، جان، مال اور آبرو کی حفاظت نہ صرف شریعت محمدی بلکہ اس سے پہلے کی بھی شریعتوں میں شامل تھے۔ یزید پلید نے انکار وحی ، شراب نوشی ، قتل و غارت، غصب ، بے حرمتی اور توہین کے ذریعہ شریعت کو ختم کرنا چاہا۔ اسی لئے عزاداری پر تاکید کی گئی ہے تا کہ شریعت کو زندہ اور یزدیت کو بے نقاب کیا جا سکے۔
مولانا محمد رضا صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی حدیث ’’میں کشتہ گریہ ہوں مومن مجھے یاد نہیں کرے گا مگر یہ کہ گریہ کرے۔ ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ عزاداری اہلبیتؑ سے محبت کا تقاضہ ہے۔ عزاداری ہمیں انسان سازی کا سبق دیتی ہے، عزاداری مقصد کربلا کو فروغ دیتی ہے، عزاداری کے ذریعہ حسینی کردار اور یزیدی کردار دنیا کے سامنے عیاں ہوتے ہیں۔ عزاداری ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت سکھاتی ہے، عزاداری وفا اور شجاعت کا درس دیتی ہے۔
مولانا سید ہاشم علی رضوی استاد جامعہ امامیہ نے قرآن کریم کے سورہ حشر کی ساتویں آیت ’’اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ جس طرح معصومین علیہم السلام نے عزاداری کی ہمیں بھی ویسے ہی عزادری کرنی چاہئیے۔ تقرب پروردگار پیش نظر رہے ، آج جو مشکلات درپیش ہیں اس کا سبب سیرت اہلبیتؑ سے دوری ہے ۔
مولانا منظر علی عارفی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ’’بے شک حسینؑ چراغ ہدایت اور کشتی نجات ہیں ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ عزداری ہمیں درس دیتی ہے کہ دین کا دفاع کیسے کریں۔ عزداری کی ایک بیرونی مخالفت ہے جو عالمی استعمار کی جانب سے ہو رہی ہے لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے دوسری مخالف اندرونی ہے۔ یہ میرا عزاخانہ، وہ اسکی مجلس ۔ یہ میرا ، یہ ہمارا، یہ اسکا، وہ اپنا یہ باتیں عزاداری سے سازگار نہیں ہیں کیوں کہ جب امام حسین علیہ السلام سب کے ہیں تو ان سے منسوب عزاداری بھی سب کی ہے۔ ہمیں خیال رکھنا چاہئیے کہ غیر ہماری مجلس میں آئے کوئی جانے نہ پائے۔
مولانا زین العابدین علوی صاحب مبلغ جامعہ امامیہ نے قرآن کریم کے سورہ مومنون کی آیت ۱۱۵ ’’تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ عزادری کا ہم سے یہ تقاضہ ہے کہ ہم دین شناس بنیں۔ جس طرح ہمارے دلوں میں محبت حسینؑ ہے اسی طرح ہمارے پیش نظر ہمیشہ مقصد حسین ؑ رہے۔ محبت انسان کو در تک لے جاتی ہے اور مقصد انسان کو دار تک پہنچا دیتا ہے ۔ محبت ہی ہے جو آواز مجلس سن کر فرش عزا تک پہچاتی ہے اور مقصد آواز اذان سن کر مصلی تک پہنچا دیتا ہے۔
مولانا سید حیدرعلی زیدی مبلغ و استاد جامعہ امامیہ نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی حدیث ’’میں اپنے اصحاب سے زیادہ باوفا اور اپنے اہلبیت سے زیادہ نیک اور نزدیک کسی کو نہیں جانتا ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ہر تحریک کی کامیابی میں جہا ں مخلص رہبر کا ہونا ضروری ہے وہیں مخلص اصحاب اور لشکر کا ہونا بھی لازمی ہے۔ کربلا کی تحریک ختم نہیں ہوئی ہے بلکہ جاری ہے جب تک امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف ظہور فرما کر انتقام نہ لے لیں ۔ لہذا اصحاب حسینی کی معرفت اور اس پر عمل ضروری ہے۔ کامل ایمان، معرفت و بصیرت ، ولی خدا کی اطاعت محض، شجاعت و دلیری اور دین کی حمایت و حفاظت اصحاب حسینی کا خاصہ تھا۔
مولانا سید فیض عباس صاحب فاضل جامعہ امامیہ نے قرآن کریم کے سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۶۲ ’’کہدیں ! میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ دو چیزیں ہر کام میں لازم ہیں ایک نیت میں اخلاص دوسرے نیک مقصد ۔ یعنی خلوص پر ہی کامیابی کا دارومدار ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اللہ نے ہمیں نو چیزوں کی نصیحت کی اور میں تمہیں بھی نو چیزوں کی نصیحت کرتا ہوں انمیں سے ایک خلوت و جلوت میں اخلاص ہے۔ جس طرح دوسری عبادتوں اور نیک کاموں میں ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہئیے اسی طرح عزاداری میںبھی اس کا ہر لمحہ خیال رہے۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی استاد جامعہ امامیہ نے قرآن کریم کے سورہ آل عمران آیت نمبر ۶۱ ’’ پھر اگر کوئی شخص علم (وحی) آ جانے کے بعد اس (عیسیٰ کے )بارے میں آپ سے بحث کرے تو آپ اس سے کہہ دیںآؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں ، خواتین اور نفسوں کو بلا لیں پھر مباہلہ کریں کہ جو جھوٹا ہواس پر اللہ کی لعنت ہو ‘‘ کی روشنی میں بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو دعوت اسلام دی اور بتایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور رسول تھے اور اس پر دلیل بھی دی لیکن جب وہ نہ مانے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی۔ حضورؐ کے یقین و اطمینان کو دیکھتے ہوئے نصاریٰ نے ایک دن کی مہلت مانگی اور اپنے بڑے پادری سے جا کر پورا ماجرا بیان کیا تو اس نے کہا کہ اگر حضورؐ اپنے اصحاب کے ساتھ آئیں تو مباہلہ کر لینا لیکن اگر اہلبیتؑ کے ہمراہ آئیں تو ہرگز مباہلہ نہ کرنا ورنہ دنیا میں کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا۔ رسول خداؐنے مباہلہ کے لئے نکلنے سے قبل اہلبیت یعنی مولا علی، حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کو ایک چادر کے سایہ میں کیا اور بارگاہ خدا میں دعا کہ خدایا! یہ میرے اہلبیت ہیں۔ تو اللہ نے آیت تطہیر نازل کی کہ ’’ائے اہلبیت رسالت! اللہ نے ارادہ کر لیا ہے کہ آپ کو ہر رجس سے دور رکھے گا جو دور رکھنے کا حق ہے۔ ‘‘ اس کے بعد حضور ؐ ان کو لے کر میدان مباہلہ کی جانب روانہ ہوئے جنہیں دیکھ کر سب سے بڑے پادری نے کہا کہ اگر یہ پہاڑوں کو اشارہ کر دیں تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں لہذا ان سے مناظرہ نہیں کریں گے ۔ اپنی شکست کو قبول کرتے ہوئے جزیہ دے کر ہمیشہ کے لئے اہپنے باطل کو بچا لیا۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ اسلام حق ہے لیکن دنیا کی لالچ نے انہیں حق قبول کرنے سے روک دیا اسی طرح کربلا میں جو لوگ امام حسین ؑ کے مقابلہ میں آئے تھے وہ جانتے تھے کہ امام حسین علیہ السلام حق پرہیں لیکن دنیا کی آرزو اور یزید کے انعام و منصب کی لالچ نے انہیں حق سے روک دیا۔
مولانا سید صبیح الحسین رضوی صاحب رکن مجلس انتظام تنظیم المکاتب نے قرآن کریم کے سورہ احزاب کی آیت نمبر ۳۹ ’’ پیغام الہی کے پہنچانے والے اللہ سے ڈرتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے اور اللہ ان کے لئے کافی ہے۔‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ایک مبلغ کی ذمہ داری ہے کہ خوف خدا ہمیشہ اس کےپیش نظر رہے اور وہ کسی سے خوف زدہ نہ ہو۔ جب مبلغ اس منزل پر ہو گا تو وہ حق بولے گا البتہ ایسی باتیں نہ ہوں کہ جو فساد کا پیش خیمہ ہوں کیوں کہ حسنیت ہی انسان کو اتحاد کے ساحل تک پہنچاتی ہے۔ منبر گلدستہ اذان ہے حسینی انقلاب کا۔ جس طرح ایک موذن لوگوں کی فکر کئے بغیر اذان دیتا ہے اسی طرح خطیب کو بھی چاہئیے کہ وہی بولے جو امام حسین علیہ السلام چاہتے ہیں ۔ اپنا محاسبہ کرے کہ کتنا امام حسینؑ کے لئے بولا کتنا ان کے علاوہ کےلئے ۔ خطیب امام حسین علیہ السلام کا غلام ہوتا ہے لہذا ہر جہت سے انکی پیروی لازم ہے۔