تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:‘‘ الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ اللَّهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللَّهَ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا’’ (سورہ احزاب، آیت 39)
وہ لوگ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے ہیں اور دل میں اس کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں اور اللہ حساب کرنے کے لئے کافی ہے۔
عین ممکن ہے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ عصر جدید جسے علم ، ٹیکنالوجی اور ترقی کا دور کہتے ہیں اس میں چودہ سو سال پہلے آئے اسلامی قوانین کو کیسے نافذ کیا جا سکتا ہے اور یہ کس حد تک بشریت کے ضروریات اور تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں ؟
تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ قرآن کریم کی شکل میں الہی پیغام زمان و مکان کی قید و شرط سے آزاد ہو کر ہر زمانے میں اپڈیٹ ہے بلکہ ہر زمانے میں لوگوں کے ذریعہ بنائے گئے قوانین سے آگے نظر آئے گا بلکہ اگر یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہو گا کہ اگر دنیا میں قرآن کریم کی روشنی میں قانون بن جائیں اور اس پر عمل در آمد شروع ہو جائے تو نہ صرف مسلمان و انسان بلکہ کائنات میں نظام عدل قائم ہو جائے گا اور تمام مخلوقات کو سکون و آرام لنصیب ہو جائے گا کیوں کہ قرآن کریم خالق کا کلام ہے جسے خالق نے اپنی تمام مخلوقات کو نظر میں رکھتے ہوئے بیان کیا ہے اور یہی اسلام کی ابدی حیات اور حقانیت کی دلیل ہے۔
دین کی تبلیغ و ترویج میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ مبلغ و مروج کی دین سے آشنائی اور تبلیغ و ترویج کے صحیح طریقے کو جاننا ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے اور تجربات سے ثابت ہے بلکہ حدیث معصوم دلیل ہے کہ انسان جتنا مبلغ و مروج کی عملی زندگی سے متاثر ہوتا ہے اتنا اس کی تقاریر، وعظ و نصیحت سے متاثر نہیں ہوتا۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ سماج میں دینداری کی کمی کا ایک اہم سبب مبلغ کی دین سے کم آشنائی یا نا آشنانی اور دین کی عدم پابندی ہے۔ اسی نکتہ ضعف نے بے دینوں اور گمراہوں کو موقع فراہم کیا اور انھوں نے بے دینی اور گمراہی کو بڑھاوا دیا۔
اسلام و انسانیت دشمن مغرب کے پاس علم اور ٹیکنالوجی ضرور ہے لیکن بے دینی اور مادہ پرستی نے اسے ظالم و جابر بنا دیا ہے اور وہ اپنی چالاکی اور ہوشیاری کو اپنا خدا سمجھ بیٹھا ہے اور دنیا کی لالچ نے اسے شیطان بنا دیا ہے۔ بلاشبہ مختلف اندرونی اور بیرونی عوامل مسلمانوں کو دین کی حقیقی تعلیمات سے دور کرنے میں کارگر ہیں۔ ثقافتی یلغار اور مؤثر میڈیا پروپیگنڈا بھی دینی تعلیمات سے دوری میں بہت ہی اہم اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
اگر ہم چودہ سو سال پہلے یعنی صدر اسلام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کو ایک صاف و شفاف چشمہ سے تشبیہ دیں تو ہمارے لئے واضح ہو جائے گا اس مدت میں اس چشمہ میں خار و خاشاک ڈالے گئے کہ اس کی اصل صورت تبدیل ہو گئی کہ بعض اوقات قابل استفادہ بھی نہیں رہا۔
ان آلودگیوں کی واحد وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ان کے مشن سے انحراف ہے۔ پہلے بنام اسلامی خلافت غیر اسلامی طریقہ حکومت تھا ، اس کے بعد خلافت کو ملوکیت اور بادشاہت میں تبدیل کر دیا گیا کہ جیسے دنیا میں ایک بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ ہوتا اسی طرح بنی امیہ اور بنی عباس میں بھی یہی سلسلہ قائم ہو گیا ۔
اس انحراف کی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سقیفہ میں پڑی۔ جس سے عالم اسلام قیامت تک لئے دو حصوں یعنی شیعہ اور سنّی میں تقسیم ہو گیا اور اس کے بعد تقسیم کا ایسا سلسلہ چل نکلا کہ مختلف فرقے وجود میں آنے لگے ، جو اپنے خیالات کو اسلام کا لباس پہنانے لگے نتیجہ اصل اسلام چھپتا چلا گیا اور بنام اسلام ہر کس و ناکس کے افکار پھیلتے چلے گئے۔
کتنا حیرت خیز ہے کہ سن 11 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شہادت ہوئی ، تب سے 260 ہجری تک خدا اور آپؐ کے منتخب شدہ گیارہ معصوم امام یکے بعد دیگرے لوگوں کے درمیان موجود رہے ، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرح لوگوں کو مسلسل دین کی جانب دعوت بھی دے رہے تھے لیکن اس کے باوجود اکثریت ان سے دور رہی اور انکی نافرمانی کرتی رہی اگرچہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام ہمیشہ ہی حق و باطل کا معیار رہے ۔ یا یوں کہا جائے کہ حق وہی تھا جس سے وہ راضی تھے اور باطل وہی تھا اور ہے جس سے وہ ناراض تھے اور ہیں۔ لیکن افسوس نام نہاد امتیوں نے ان سے رخ موڑ لیا اور ہر ایک نے اپنی اپنی پسند کو اسلام کا نام دے کر نئے نئے فرقہ کو جنم دیا ۔ نتیجہ میں دو اسلام دنیا میں پیش ہوئے ایک خالص محمدی اسلام اور دوسرا بادشاہوں اور کشور کشاؤں کا اسلام ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایسے موقع پر ہم کیا کریں؟ ہم کیسے حقیقی اسلام کو پہچانے؟
تو اس کا جواب امیرالمومنین علیہ السلام نے جنگ جمل کے موقع پر حارث بن حوط کو دیا تھا کہ جب اس نے اصحاب جمل سے اظہار بیزاری میں کوتاہی کی تو آپ نے فرمایا: ائے حارث! نہ تو نے اپنے پیروں کے نیچے نظر کی اور نہ ہی اپنے سر کے اوپر دیکھا اسی لئے حیران و پریشان ہو ۔ اگر تم نے انصار و مہاجرین پر غور کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا ، تم نے حق کو نہیں پہچانا کہ اہل حق کی حمایت کرتے اور نہ ہی باطل کو پہچانا کہ اہل باطل کی مخالفت کرتے۔ حارث بن حوط نے کہا کہ میں سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن عمر وغیرہ کی طرح بے طرف ہوں تو امام عالی مقام نے فرمایا: ان لوگوں نے خود نہ حق کی حمایت کی اور نہ ہی باطل کو خوار کیا تو ان کی پیروی کر کے تم کیسے کامیاب ہو سکتے ہو۔
(نہج البلاغہ۔ حکمت 262)
لہذا اس سلسلہ میں پہلی ذمہ داری ہے کہ ہم حق کو پہچانیں تا کہ اہل حق کی حمایت کر سکیں اور باطل کو پہچانیں تا کہ اہل باطل کی مخالفت کر سکیں ۔ جیسا کہ قرآن کریم نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا’’ (سورہ انفال، آیت 29)
ایمان والو اگر تم تقوٰی الٰہی اختیار کرو گے تو وہ تمہیں حق و باطل میں فرق کی صلاحیت عطا کر دے گا۔
ہماری اصل مشکل یہی فقدان تقویٰ ہے ، کیوں کہ اگر ہمارے اندر تقویٰ ہوگا تو اللہ ہمارے لئے حق و باطل کو واضح کر دے گا اور ہم کبھی بھی دھوکہ نہیں کھائیں گے۔ لیکن افسوس کہ اس کے برخلاف ہم تقویٰ سے دور ہیں لہذا اسلام و انسانیت دشمن خصوصاً مغربی تہذیب و ثقافت ہمارے درپئے ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ سب سے پہلے ہم ایمان اور تقویٰ کا خاص خیال رکھیں تا کہ کسی بھی اسلام مخالف سازش کا شکار نہ ہوں۔ ہمارا تبلیغ کا انداز اور طریقہ انتہائی دقیق ہونا چاہئیے کہ جس میں زمان و مکان کا مکمل خیال کیا جائے اور مخاطب کی حیثیت کے مطابق عمل انجام دیا جائے کہ اگر مخاطب جوان ہیں تو ان کے مطابق گفتگو ہو اور اگر بزرگ ہوں تو ان کے مطابق گفتگو ہو اور اگر کمسن بچے ہوں تو ان کے مطابق گفتگو ہو۔ المختصر ایک مبلغ کو چاہئیے کہ علم و دانش سے خود کو آراستہ کرے ساتھ ہی زمانے کے حالات کو بھی سمجھے تا کہ کسی سازش کا شکار نہ ہو اور نہ ہی کہیں دھوکہ کھائے۔
علم کے ساتھ ساتھ عمل سے خود کو آراستہ کرےتا کہ اس کی باتوں میں اثر پیدا ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ ‘‘يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ’’(سورہ صف، آیت 2)
ایمان والو آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے ہو۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘العالم اذا لم یعمل بعلمه زلت موعظه عن القلوب کما یزل المطر عن الصفا’’ (کافی، جلد1، صفحہ 56) جب عالم اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کا وعظ و نصیحت دلوں سے ایسے زائل ہوتا ہے جیسے بارش کا پانی چکنے پتھروں پر سے گذر جاتا ہے۔
اسی طرح دوسرے مقام پر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :‘‘ کونوا دعاه الناس بغیر السنتکم، لیروا منکم الورع و الاجتهاد والصلاه و الخیر فان ذلک داعیه’’ (الحیاۃ، جلد1۔ صفحہ 113) لوگوں کو بغیر زبان سے بولے (اپنے عمل سے) دعوت دو تا کہ وہ تمہارے اندر ورع، کوشش، نماز اور نیکی مشاہدہ کریں اور یہی اصل دعوت ہے۔
مبلغ کو چاہئیے کہ حالات کو سمجھے اور اس کے مطابق کلام کرے جیسا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘العالم بزمانه لا تهجم علیه اللوابس’’ (تحف العقول، صفحہ 261) جو زمانے کے حالات کو جانتا ہے اس کو کوئی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ‘‘انا معاشر الانبیاء امرنا ان نکلم الناس علی قدر عقولهم’’ (اصول کافی، جلد 1، صفحہ 27) ہم گروہ انبیاء کو حکم ہے کہ لوگوں کی عقلوں کے مطابق کلام کریں۔
مذکورہ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ مبلغ کو چاہئیے وہ اپنے مخاطبین کی صلاحیتوں کے پیش نظر کلام کریں۔ نہ اتنا آسان اور عام ہو کہ لوگ تکرار مکررات سمجھ کر اکتانے لگیں اور نہ ہی اتنا سخت ہو کہ کسی کی سمجھ ہی میں نہ آئے۔
ایک اور چیز جو ایک مبلغ کے لئے سب سے اہم ہے وہ اس کا اخلاق ہے ، اس کا تواضح اور انکساری ہے، ایسا نہ کہ لوگ بات کرتے ہوئے یا سوال پوچھتے ہوئے گھبرائیں کہ کہیں یہ ناراض نہ ہو جائیں ، انبیاء، مرسلین اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی یہی سیرت رہی ہے کہ لوگوں سے حتیٰ اپنے مخالفین سے نرمی سے برتاؤ کیا اور آخری وقت تک یہی کوشش کی کہ نہ جنگ ہو اور نہ ہی کوئی اختلاف ہو۔ بلکہ اکثر اوقات لوگوں کی غلطیوں کو نظرانداز کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سلسلہ میں قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے ‘‘وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ’’ (سورہ والقلم، آیت4) اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہو رہا ہے‘‘وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ’’ (سورہ آل عمران، آیت 159) ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔
اسی طرح ایک مبلغ کے لئے امور زندگی میں سادگی انتہائی اہم چیز ہے۔ کیوں کہ اگر مبلغ تجملات دنیا کا اسیر ہو گا تو لوگوں پر اس کی باتوں کا اثر نہیں ہو گا۔ لہذا ہم نے دیکھا کہ انبیاء، مرسلین اور ائمہ معصومین علیہم السلام خصوصاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور امیرالمومنین علیہ السلام سماج کے سب سے نچلے طبقہ کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ جیسا کہ آپؑ نے خود فرمایا: ‘‘الا و ان اما قد اکتفی من دنیاه بمطریه ومن طعمه بقرصیه’’ (نہج البلاغہ، خط 45)
تمہارے امام نے تمہاری دنیا سے پہننے کے لئے دو کپڑے اور کھانے کے لئے دو لقمہ روٹی ہی پر اکتفاء کی ہے۔ ظاہر ہے ایسا کردار اور ایسے عمل مشاہدہ کرنے والوں کے لئے نہ صرف ذہنوں بلکہ دلوں میں اثر ایجاد کرتا ہے۔
الہی مبلغین کی خصوصیت رہی کہ ان کے تبلیغ میں انذار سے کہیں زیادہ بشارت رہی ہے ، ان کے کلام میں لوگوں کے لئے خیر خواہی عیاں رہتی تھی۔ جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے ۔‘‘يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا۔ وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا۔ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا’’ (سورہ احزاب، آیت 45، 46، 47) اے پیغمبر ہم نے آپ کو گواہ, بشارت دینے والا, عذاب الہٰی سے ڈرانے والا۔ اور خدا کی طرف اس کی اجازت سے دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے۔ اور مومنین کو بشارت دے دیجئے کہ ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل و کرم ہے۔
مذکورہ آیات کی روشنی میں ایک مبلغ میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہے۔
1۔ رسالت: جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبلیغ ایک رسالت تھی۔ اسی طرح ایک مبلغ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کا کام بھی رسالت یعنی پیغام پہنچانا اور اس سلسلہ میں اسے جواب بھی دینا ہو گا اور ذمہ داری ادا کرنی ہو گی۔ اس لئے جو شخص تبلیغ کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث اور پیروکار سمجھے اور اس پیغام کی اہمیت کو سمجھے۔ اور وقت کے تقاضوں کی بنا پر اسے عصری دنیا میں تبلیغ کے طریقے سیکھنے چاہئیں کیونکہ آج اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ کس طرح دینی تعلیمات کی تبلیغ اور ترویج کے لئے کوشش کرے۔
2۔ میدان تبلیغ میں اترنا: لفظ "شاھداً" سے واضح ہے کہ مبلغ کو لوگوں کے درمیان فعّال طور پر موجود اور سرگرم ہونا چاہیے تاکہ وہ خوبیوں اور کمزوریوں کی نشاندہی کرے اور مناسب جگہ پر ضروری تنبیہ کرے۔
عوامی سطح پر پیغام، اعلان، تقریر، انٹرویو اور گول میز ضروری ہے، اگرچہ یہ طریقے تمام لوگوں کے لئے اثر انداز نہیں ہیں، اس لئے مبلغ کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے ساتھ زندگی کے نشیب و فراز میں ساتھ کھڑا ہو۔
3۔ بشیر اور نذیر ہونا: تبلیغ میں اصل کام بشارت ہے کیوں کہ بشارت انذار سے زیادہ مفید ہے۔ حوصلہ افزائی کے تعمیری اثرات بھی زیادہ ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےاپنے صحابی معاذ بن جبل کو یمن تبلیغ پر بھیجتے ہوئے فرمایا: ‘‘بشر و لاتنفر’’ یعنی لوگوں کو بشارت دو ان میں نفرت ایجاد نہ ہو۔ لہذا ضروری ہے کہ مبلغ لوگوں کو یاد دلاتا رہے جیسا کہ حکم ہوا۔ ‘‘وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ’’ (سورہ الذاریات، آیت 55) اور یاد دہانی بہرحال کراتے رہے کہ یاد دہانی صاحبانِ ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے۔ دوسری مقام پر ارشاد ہو رہا ہے ۔ ‘‘فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ۔ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ’’ (سورہ غاشیہ ، آیت 21 و 22) لہذا تم نصیحت کرتے رہو کہ تم صرف نصیحت کرنے والے ہو۔ تم ان پر مسلط اور ان کے ذمہ دار نہیں ہو۔
4۔ تبلیغ صرف خدا کے لئے ہو: جیسا کہ خدا وند عالم صرف خالص عمل کو قبول کرتا ہے۔ ‘‘إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ’’ (سورہ مائدہ، آیت 27) خدا صرف صاحبان تقوٰی کے اعمال کو قبول کرتا ہے۔
اخلاص کے ساتھ کئے گئے الہی اعمال کا اثر یقینی ہے اور خود خدا نیک کاموں کا نگران اور مددگار ہے۔لہذا کار تبلیغ ہر طرح کی دنیا اور خواہشات دنیا سے پاک و صاف اور دور ہو۔ جیسا کہ ارشاد ہوا ‘‘وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ’’ (سورہ بقرہ ، آیت 143) اور تحویل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درمیانی اُمت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو۔
لہذا تبلیغی اور دینی امور میں افراط و تفریط سے دوری اختیار کرنی چاہئیے اور درمیانی راہ اختیار کرے۔ تا کہ کار تبلیغ بطور احسن انجام دے سکے۔