حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عشرۂ مجالس کی نویں مجلس میں بندگی کے مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا مصطفیٰ علی خان نے کہا کہ تمام رسولوں کی بعثت کا مقصد، لوگوں کو بندگی کی راہ پر گامزن کرنا، ان کو خدا کی عبادت کا حکم دینا اور طاغوت کی پرستش سے روکنا تھا، جیسا کہ سورہ ذاریات کی آیت نمبر ۵۶ میں ارشاد ہو رہا ہے کہ ‘‘اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادات کے لئے پیدا کیا ہے۔
مولانا مصطفیٰ علی خان نے بیان کیا کہ بندگی کے تین مرحلے ہیں، جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوذر غفاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا: خدائے متعال کی عبادت کا سب سے پہلا مرحلہ، اس کی معرفت ہے۔ دوسرا مرحلہ، پیغمبرؐ پر ایمان اور آپؐ کی رسالت کا اعتراف کرنا ہے اور تیسرا مرحلہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اہل بیت سے محبت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدر اسلام میں ہی جب امت مسلمہ میں کوئی اختلاف و افتراق نہیں تھا پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب ابوذر سے بطور تاکید فرمایا کہ میرے اہل بیتؑ کشتی نوحؑ کی طرح ہیں، جو ان سے رابطہ نہیں رکھے گا اور ان کی پیروی نہیں کرے گا، وہ قوم نوحؑ کی طرح ہلاک ہوجائے گا۔ حقیقت میں یہ ان مسلمانوں کیلئے ایک تنبیہ اور مقام فکر ہے، جنہوں نے حضورؐ کی رحلت کے بعد ہی بغض و نفاق اور انحرافات کے دروازے کھول دیئے اور کچھ منافق جو پہلے سے ہی موقع کی تلاش میں تھے وہ ایجاد شدہ انحراف، تعصب اور نفاق کا فائدہ اٹھا کر دوسروں پر سبقت لے گئے، ایسے موقع پر صرف اہل بیتؑ ہی مولا علی علیہ السلام کی سرپرستی میں امت کو خطرات، گمراہی اور ہلاکت سے نجات دلا کر منافقین کے انحرافات میں رکاوٹ بن سکتے تھے اور اسی کے برخلاف جو لوگ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی سے روگردانی کرتے ہیں وہ گمراہ ہوتے ہیں، یہی گمراہی کا نتیجہ تھا کہ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کو تین دن کا بھوکا پیاسا شہید کیا گیا۔