۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
رمضان المبارک کے پچیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! مجھے اس مہینے میں اپنے اولیاء اور دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے، مجھے اپنے پیغمبروں کے آخری پیغمبر ؐکی راہ و روش پر گامزن رہنے کی صفت سے آراستہ کردے، اے انبیاءؑ کے دلوں کی حفاظت کرنے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے پچیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں؛ ’’أللّهُمَّ اجْعَلني فيہ مُحِبّاً لِأوْليائكَ وَمُعادِياً لِأعْدائِكَ مُسْتَنّاً بِسُنَّۃ خاتمِ أنبيائكَ يا عاصمَ قٌلٌوب النَّبيّينَ‘‘
خدایا! مجھے اس مہینے میں اپنے اولیاء اور دوستوں کا دوست اور اپنے دشمنوں کا دشمن قرار دے، مجھے اپنے پیغمبروں کے آخری پیغمبر ؐکی راہ و روش پر گامزن رہنے کی صفت سے آراستہ کردے، اے انبیاءؑ کے دلوں کی حفاظت کرنے والے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام پر وحی کی کہ کیا تم نے میرے لئے کوئی عمل انجام دیا؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: خدایا! میں نے تیرے لئے نماز پڑھی، روزہ رکھا، صدقہ دیا اور تیرا ذکر کیا۔
ارشاد رب العزت ہوا کہ نماز تمہارے لئے بُرہان ہے، روزہ (عذاب جہنم سے بچنے کی) ڈھال ہے، صدقہ سایہ ہے اور ذکر نور ہے۔ تم نے میرے لئے کیا کیا؟ جناب موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: خدایا! مجھے وہ اعمال بتا دے جو تجھ سے مخصوص ہیں۔ ارشاد ہوا اے موسیٰ ! کیا تم نے میری خاطر کسی سے دوستی کی ؟ کیا میری خاطر کسی سے دشمنی کی؟
جناب موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب عمل اللہ کے لئے دوستی اور اسی کے لئے دشمنی ہے۔
(جامع الأخبار: ص ۳۵۲ ح ۹۷۶)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی اللہ کے لئے دوستی کرے، اللہ کے لئے ہی دشمنی کرے اور اسی کی خاطر دوسروں کو (اپنے مال سے) عطا کرے تو اس کا ایمان کامل ہے۔ (کافی، باب الحب فی اللہ، حدیث ۱)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کیا حب و بغض کا تعلق ایمان سے ہے؟ آپ ؑنے فرمایا: مگر کیا ایمان حب و بغض کے علاوہ ہے۔ (کافی، باب الحب فی اللہ، حدیث ۵) یعنی ایمان حب و بغض کے سوا کچھ نہیں ہے۔
مذکورہ روایات سے اللہ کے لئے دوستی اور دشمنی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا کہ یہ عمل اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے بلکہ سارے اعمال کا دارومدار اسی عمل پر ہے کہ اگر ہمارے اعمال میں اسے معیاری حیثیت حاصل نہ ہوئی تو ہمارے اعمال اس لائق نہیں کہ بارگاہ خدا میں درجہ قبولیت پا سکیں۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: اگر تم چاہتے ہو کہ جانو کہ تمہارے اندر خیر اور نیکی ہے تو تم اپنے دل کی جانب نظر کرو۔ اگر اللہ کی اطاعت کرنے والوں کی محبت اور اسکی نافرمانی کرنے والوں سے دشمنی ہے تو تم خیر پر ہو اور اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ اور اگر اللہ کی اطاعت کرنے والوں سے دشمنی اور اسکی نافرمانی کرنے والوں سے دوستی ہے تو تمہارے اندر کوئی خیر اور نیکی نہیں ہے اور اللہ بھی تمہیں پسند نہیں کرتا ہے۔ انسان اسی کے ساتھ ہے جس سے محبت کرتا ہے۔ (کافی، باب الحب فی اللہ، حدیث ۱۶)
اس حدیث میں معلم بشریت حضرت باقر العلوم امام محمد باقر علیہ السلام نے واضح طور پر بیان فرما دیا کہ اگر کوئی نیک بننا چاہتا ہے تو اسے نیک لوگوں سے محبت بھی کرنی ہو گی ورنہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کے دل میں نیک لوگوں سے دشمنی یا برے لوگوں سے دوستی ہونے کے بعدوہ نیک بن سکے۔
ہم اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے ہمارے دلوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐ کے اہلبیت اطہار علیہم السلام کی محبت کے نور سے منور اور انکے عطر عشق سے معطر کیا ہے۔ خدا کی حمد کہ اس نے علی اور اولاد علی علیہم السلام کی محبت ہمارے دلوں میں رکھی ہے۔ عامہ اور خاصہ دونوں نے اپنی کتب احادیث کو اس روایت سے زینت دی ہے کہ جب یہ آیت ’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ‘‘۔ بےشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں وہی بہترینِ خلائق (خیر البریہ) ہیں۔ (سورہ بینہ، آیت ۷) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی علیہ السلام سے فرمایا: ’’ هو أنت وشيعتك يوم القيامة راضين مرضيين ۔‘‘ وہ (خیر البریہ) تم اور تمہارے شیعہ ہیں قیامت کے دن وہ (اللہ سے) راضی ہوں گے اور (اللہ) ان سے راضی ہوگا۔ (الدر المنثور، سیوطی، جلد ۱۵، صفحہ ۵۷۷، ۵۷۸)
صاحب المیزان مفسر قرآن علامہ طباطبایی رحمۃ اللہ علیہ کتاب تفسیر الدر المنثور (سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۶، ص۳۷۹) سےروایت نقل کرتے ہیں کہ راوی کا بیان ہے۔ ’’ہم رسول خداؐ کی خدمت میں تھے جب علی ابن ابی طالبؑ وارد ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، قیامت کے دن صرف اور صرف یہ شخص اور اس کے پیروکار فلاح پانے والے ہیں۔ یہ کہنا تھا کہ سورہ بینہ کی یہ آیت نازل ہوئی: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سے جب بھی صحابہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھتے تو کہتے’’’خَيْرُ الْبَرِيَّہ ‘‘آ گئے۔ (طباطبایی، المیزان، ۱۹۷۴م، ج۲۰، ص۳۴۱)
’’مُسْتَنّاً بِسُنّةِ خاتَمِ انْبیائِکَ ‘‘۔ (خدایا) مجھے خاتم الانبیاء (حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی سنت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔
قرآن کریم کے بعد عالم اسلام پر بلا تفریق مذہب و ملت جس کی پیروی واجب ہے اور اجتہاد کا دوسرا منبع ہے وہ سنت ہے۔ سنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث، افعال اور تقریر (کسی عمل پر سکوت تائید) شامل ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا‘‘ ۔ بے شک تمہارے لئے پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی ذات میں (پیروی کیلئے) بہترین نمونہ موجود ہے۔ ہر اس شخص کیلئے جو اللہ (کی بارگاہ میں حاضری) اور قیامت (کے آنے) کی امید رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔ (سورہ احزاب، آیت ۲۱) جس سےسنت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جس کے قول، فعل کی اللہ نے ضمانت لی ہو اور جس کی اطاعت کو اپنی اطاعت کے ساتھ رکھا ہو یقینا وہ ذات بشریت کے لئے اسوہ و قدوہ کی اہل ہے۔
ارشاد ہو رہا ہے۔ ’’وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى ۔ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى ‘‘۔ اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ وہ تو بس وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (سورہ نجم، آیت ۳ ، ۴)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’’وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ‘‘۔ اور جو کچھ رسولؐ تمہیں دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اور اللہ (کی نافرمانی) سے ڈرو۔ بےشک اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (سورہ حشر، آیت ۷)
مذکورہ آیات سے واضح ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلنے والے الفاظ اور آپ کا امر و نہی وحی الہی کے حصار میں ہے۔
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی سنت کو خاص اہمیت حاصل تھی صحابہ کبار اس پر عمل کو اپنا مقدر سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ کے وصال کے بعد بھی اسے خاص اہمیت حاصل رہی ہے کہ جب سن ۳۵ ہجری میں لوگوں نے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی بیعت کرنی چاہی تو آپ نے قرآن و سنت پر عمل کے عزم پر بیعت قبول کی۔
سرکار سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام جب مدینہ سے نکل رہے تھے تو اپنے بھائی جناب محمد حنفیہ کو جو وصیت فرمائی اور انہیں اپنے قیام کے مقصد سے آگاہ کیا تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے احیاء کا تذکرہ کیا۔
سنت رسولؐ پر یہ تاکید بتا رہی ہے کہ یقینا کوئی سنت کے پامال کرنے کا درپے رہا ہو گا۔ جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ یزید پلید قرآن کریم کے ساتھ ساتھ سنت رسولؐ کو بھی ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس کے کفریہ اشعار ہمارے مدعا کی دلیل ہیں۔
خدا ہمیں اپنے اولیاء کی محبت اور رسول ؐکی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .