تحریر: شاہد عباس ہادی
حوزہ نیوز ایجنسی। تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ بنی اسرائیل کے انبیاء جس دن اپنا جانشین منتخب کرتے اس دن کو عید کا دن قرار دیتے اور وہ دن خوشی و مسرت کا عظیم دن کہلایا جاتاتھا۔ 24 ذی الحجہ کا دن بھی وہ عظیم دن ہے جس دن رسول ختمی مرتب صلی الله عليه وآله وسلم نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو جانشین مقرر فرمایا اور تمام اصحاب سے کہا کہ حضرت علی ع کو مبارک دیں چنانچہ اصحاب رسول نے "ھنیئا لك يا أميرالمؤمنين أصبحت مولى کل مؤمن و مؤمنة" کہہ کر مولا علی ع کو مبارکباد دی(مسند احمد جلد ۴ ص ۲۸۱)
یہ عید صرف اہل تشیع سے مخصوص نہیں، غیر شیعہ علماء نے بھی اس روز کی فضیلت اور پیغمبر اکرم ص کی طرف سے حضرت علی ع کے مقام ولایت و خلافت پر فائض ہونے کی گفتگو کی ہے۔ لہذا بیرونی ”الآثار الباقیة “ میں روز غدیر کو ان دنوں میں شمار کرتے ہیں جس کو مسلمانوں نے عید قرار دیا ہے ابن طلحہ شافعی کہتے ھیں: ”حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اشعار میں روز غدیر خم کا ذکر کیا ھے اور اس روز کو عید شمار کیا ہے، کیونکہ اس روز رسول اسلام(ص)نے آپ کو جانشین منصوب کیا اور تمام مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔ نیز کہتے ھیں: ”لفظ مولا کا جو معنی بھی رسول اکرم(ص) کے لئے ثابت ہے وہی حضرت علی علیہ السلام کے لئے بھی معین ہے، یہ ایک بلند مرتبہ اور عظیم منزلت ہے جو پیغمبر اکرم(ص)نے حضرت علی علیہ السلام سے مخصوص کی، لہٰذا اولیائے الٰھی کے نزدیک یہ دن عید اور مسرت کا روز قرار پایا ہے۔“(مطالب السؤول ص 54)
تاریخی کتب(طبری، تفسیر کبیر، سیرت ہشام وغیرہ) سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ھے کہ امت اسلامیہ مشرق و مغرب میں اس دن کے عید ہونے پر متفق ہیں۔ مصری، مغربی عراقی و ایرانی اس روز کی عظمت کے قائل ہیں، لہذا عالم اسلام کے نزدیک غدیر مسلمانوں کیلئے عید کا دن ہے۔ اس کا انکار کرنا ان سوفسطانیوں کی طرح ہے جنہوں نے واقعیت کے موجود ہونے کا انکار کیا یا جنہوں نے جنگ بدر و احد کا انکار کیا ہے کیونکہ پوری تاریخ اسلام میں کوئی بھی ایسا حکم یا الہی دستور نہیں ملتا جو اتنے تفصیلی مقدمات اور اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہو سوائے غدیر خم پر عھد ولایت و امامت کے یعنی تپتے صحراء میں دھوپ کی شدید طمازت کے باوجود حاجیوں کے سوا لاکھ مجمع کو یکجا جمع کرنا اور رسول اکرم(ص) کا ایک طولانی خطبہ بیان کرنا صرف ایک حکم کے لیے، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کا یہ الہی حکم دیگر تمام احکامات سے ممتاز اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ غدیر کے پیغامات کو عملی جامہ پہنائیں، غدیر کا پہلا پیغام یہ ہے کہ حق بیانی کرنے میں کبھی مت گھبرائیں، حق کا ہاتھ بلند کریں اور لوگوں کو بتائیں کہ صراط مستقیم یہ ہے، اسی لئے امت مسلمہ میں ایسا رہبر ہونا چاہیے جو ظلم و نفاق کا راستہ روکے اور امت کو صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آج دنیا کی سب سے بڑی طاقتیں اسلام کے خلاف کھڑی ہیں اور پورا زور لگارہی ہیں کہ دین اسلام کو جڑ سے ختم کیا جائے، امریکہ و اسرائیل اپنے خونی لشکروں کی مدد سے پوری طاقت لگا رہا ہے۔ داعش و القاعدہ اور پوری دنیا کی افواج اسلام مخالف کھیل کھیل رہی ہیں، برطانیہ و فرانس اور صیہونی طاقتیں دینی مقدسات کی توہین کروا کر شدت پسندی و دہشتگردی کی آگ کو بھڑکا رہی ہیں۔
ہمارا رہبر ان طاقتوں کے مدمقابل میدان میں کھڑا ہے، وہ اسرائیل و امریکہ ہر طاقت کو جواب دے رہا ہے اور ظلم و نفاق کا راستہ روک رہا ہے، ہمارا رہبر دنیا کی شیطان پرست طاقت نہیں ہے، ہمارا رہبر ولی فقیہ زماں ہے، ہمارا رہبر مظلومین جہاں کا حامی ہے۔ وہ دین اسلام کی حقیقی تصویر دکھاتا ہے، وہ صراط مستقیم پر گامزن رکھتا ہے۔ وہ مظلومین جہاں کا رہبر ہے۔
لہذا غدیر کا تقاضہ ہے عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات کے سلسلے سے ہم اپنی ذمہ داری کو پہچانیں، جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے اسکی مخالفت کریں اور مظلوموں کا ساتھ دیں، یمن و فلسطین میں بڑی طاقتوں کے ایماء پر معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے ان سب کے بارے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور ہم کیا کرسکتے ہیں؟