۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
آیت الله محمد تقی مدرسی

حوزہ/ آیۃ اللہ سید محمد تقی مدرسی نے بیان کیا کہ ولایتِ امیر المؤمنین(ع)خدا اور رسول(ص)کی ولایت کا تسلسل اور مظہر ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممتاز عراقی عالم دین،آیۃ اللہ سید محمد تقی مدرسی نے امت اسلامیہ کو عید غدیر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس عظیم عید کو جوش و جذبے اور فخر کے ساتھ مناتے ہیں،یہ عظیم عید،عید ولایت اور خدائے تعالیٰ کی عید ہے جس کا خدا نے رسول(ص)کو حجۃ الوداع سے واپسی پر دسیوں ہزار مسلمانوں کے سامنے اعلان کرنے کا حکم دیا۔

آیۃ اللہ مدرسی نے مزید کہا کہ ماحولیات کی تباہی میں لوگوں کے رفتار و کردار کی وجہ سے کچھ علاقوں میں خشک سالی،کچھ علاقوں میں سیلاب اور جنگلوں میں آگ لگنے کے واقعات،دسیوں ہزار انسانیت کی نقل مکانی کا سبب بنے ہیں۔ماحولیاتی نظام ایسا نہیں ہے اور یہ تبدیلیاں ہمارے غلط رفتار و کردار کا نتیجہ ہیں۔

ولایت خداوندی،قرآن اور رسول(ص)کے بعد امام علی (ع) کی ذات میں منتقل ہو گئی

شیعہ عالم نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ولایت دو قسم کی ہے؛ایک خدا کی ولایت ہے اور دوسری طاغوت کی ولایت ہے،کہا کہ خدا پر ایمان لانے کا مطلب خدا کی ولایت میں داخل ہونا اور خدا پر یقین نہ کرنے کا مطلب خدا کی ولایت چھوڑنا اور شیطان کی سرپرستی میں داخل ہونا ہے۔

انہوں نے اس سلسلے میں مزید بیان کیا کہ خدا کی ولایت قرآن مجید اور رسول خدا(ص)کی ذات اقدس میں ظاہر ہوتی ہے اور آنحضرت(ص)اول سے آخر تک تمام مومنوں اور مسلمانوں کا امام ہیں ہے اور آپ(ص)کے بعد ولایت کا سلسلہ حضرت علی (ع) میں ظاہر ہوچکا ہے اور خدائے تعالیٰ نے پیغمبر(ص) کو مسلمانوں کے لئے امیر المؤمنین(ع) کی ولایت کا اعلان کرنے کا حکم دیا۔

ولایتِ خداوندی کی طرف لوٹنے کا مطلب قرآن،وحی اور علم الہی میں مضبوط علماء کی طرف لوٹنا ہے

آیۃ اللہ مدرسی نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہمیں عید غدیر کے موقع کو خدا کی ولایت کی طرف لوٹنے کےلئے ذریعہ قرار دینا چاہئے،مزید کہا کہ خدا کی ولایت کی طرف لوٹنے کا مطلب قرآن، رسول(ص)اور اہل بیت(ع)کی زبان مبارک سے بیان شدہ وحی کے الفاظ،علماء ربانی اور راسخون فی العلم کی طرف لوٹنا ہے۔

آخر میں،ممتاز عراقی عالم دین نے امت مسلمہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مرحلے پر قرآن کے محور اور راسخون فی العلم سے متمسک ہوں،تاکہ جن خطرات کا سامنا ہے ان کو کم کیا جا سکے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .