حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی بانی قرآن وعترت فاونڈیشن قم،ایران کی اطلاع کے مطابق، زیر انتظام قرآن وعترت فاونڈیشن، صوبہ بہار میں ۱۲واں ولایت کانفرنس منعقد ہوا، اس پروگرام میں دور و دراز سے ملک کے نامور ۲۰ شعراء کرام اور سخنران و تحلیل گر علماء نے ولایت فقیہ کے حوالے سے اشعار اور تقریریں پیش کی۔
ہندوستان کی سرزمین پر۱۴ سال قبل حوزہ علمیہ آیۃ اللہ خانمہ ای مدظلہ العالی کا تاسیس ہوا، جو آج ملک بھر میں ولایت فقیہ کا چراغ ہر جگہ روشن کر رہا ہے ۔
مولانا موصوف نے کہا کہ صدیقہ طاہرہ نے راہ ولایت کے دفاع میں ہزارو سختیاں اور مصیبتوں کا سامنا کیا اور ظلم کا سیلاب امڈا،غم کے پہاڑ ٹوٹے، اور ہر امام مظلوم پہ ظلم کی انتہا ہوئی، بد خواہوں نے اس ولایت کی شمع کو بجھانے کیلئے ہر ممکن کوششیں کیں، مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائیگا، مگر امام حسین علیہ السلام نے بھی حبیب بن مظاہرؒ کو خط لکھکر اسلئے بلوایا کہ ولایت کا ساتھی اور دوست فقیہ ہو سکتا ہے اسکے علاوہ کوئی اور نہیں؟
۱۲سال قبل کا واقعہ ہے کہ رہبر عزیز ولی امر مسلمین حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی سے ملاقات کے لئے حوزہ علمیہ قم کے علماء اور فضلاء کا گروپ تشریف لے گیا، آپ نے فرمایا! ہر علم پہ فعالیتیں جارہی ہیں، کیا ولایت فقیہ علم نہیں ہے جس پر فعالیتیں ہوسکیں؟ کیا یہ علم اجنبی بنکر رہے؟ کچھ دنوں بعد حضرت آیۃ اللہ مومن نے سرزمیں قم المقدس جوار حضرت معصومہ قم س میں ولایت فقیہ سے درس و بحث کا سلسلہ جارہی ہوا۔
مولانا شمع محمد نے بتایا کہ میں از اول امام خمینیؒ اور ولایت فقیہ کو زیادہ پڑھا کرتا ہوں اسی سبب فورا اسی عنوان سے بھیک پور سیوان بہار،ہندوستان میں ولایت فقیہ نامی فعالتیں شروع کیں، دوستوں عزیزوں، قم، اور ہندوستانی علماء ،محققین،مبلغین نے مولانا حقیر کا ساتھ دیا تو حوزہ علمیہ کا بھی قیام عمل میں آیا جسکے چند فارغ التحصیل طلاب عزیز ادامہ تحصیل کے لئے سرزمین قم ولایت تشریف لائے اور اسی حوزہ کی جانب سے ہندوستان کے اکثر علاقوں میں نشست علمی ولایت فقیہ جاری وساری رہا ہے، اور اس سال اس عنوان سے بارہویں کانفرنس بعنوان ولایت فقیہ،بھیک پور،سیوان میں منعقدکی گئی۔
مولانا سید شمع محمد رضوی نے مزید کہا کہ ولایت فقیہ پہ چلنے کے لئے اگر عورت مرد کی پشت پناہ اور زندگی کے مختلف میادین عمل میں اس کے شانہ بہ شانہ اور قدم بہ قدم چلے اور اس کی ہمت افزائی کرتی رہے تو مرد کی قوت و طاقت کئی گنا ہوجاتی ہے، ہمارا لاکھوں سلام ہو اس عالمہ ، حکیمہ اور محدثہ پر جس نے اپنے تمام تر اعلی درجات کے ساتھ تمام مراحل زندگی میں جب تک زندہ رہیں اپنے شوہر ، صحابی رسول اور اپنے وقت کے امام کے پیچھے ایک بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ کی مانند کھڑی رہیں، حقیقت یہ ہے کہ مولائے کائنات کی زوجیت میں آنے کے بعد صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کے کاندھوں پر نبوت کی ذمہ داریوں کے بعد ولایت کی حفاظت کی ذمہ داری بھی آگئی، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد بنت رسول سلام اللہ علیہا پر مصائب و آلام کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، حضرت علی علیہ السلام کی ولایت سے نالاں اصحاب نے تمام حدود کو پار کرکے انسانیت سے گری ہوئی حرکتیں کیں، لیکن سلام ہو اس فاطمہ سلام اللہ علیہا پر جنہوں نے ایسی نازک صورت حال میں دین خدا کی بقا کے لئے ولایت کا تحفظ کیا اور اپنے بیٹے محسن کو بھی اس راہ ولایت و امامت میں قربان کردیا، آپ نے ہر قدم پر حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا دفاع کیا، جب دروازے پر آگ لگائی گئی اس وقت بھی آپ حضرت علی علیہ السلام کے سامنے سینہ سپر بن کر ڈٹی رہیں ، جب گلے میں رسّی کا پھندا ڈالا گیا تو اس وقت بھی گھر سے باہر نکل کر بدعا کی آواز بلند کرکے ولایت امیر المومنین علیہ السلام کی حفاظت کی، مسئلہ صرف یہ نہیں تھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد حکومت اسلامی کو کون سنبھالے گا، مسئلہ دین اسلام کی بقا کا تھا اور دین اسلام کی بقا ولایت میں مضمر تھی، وہ تمام منافقین جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آباء و اجداد کا بدلہ لینے کے لئے اور اسلام کی سرکوبی کے لئے مناسب موقع کی تلاش میں تھے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے متحرک ہوگئے تھے .''اسلام'' خطروں میں گھر چکا تھا ،ایسی نازک صورت حال میں جس نے ولایت اور حکومت اسلامی کے دفاع میں سب سے پہلی آواز بلند کی وہ صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا تھیں،آج سے چودہ سو سال قبل صدیقۂ طاہرہ حضرت فاطمۂ زہرا سلام اللہ علیہا نے دفاع ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کے سلسلے میں جو آواز بلند کی تھی اس کی گونج آج بھی کائنات میں محسوس کی جاسکتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ولایت فقیہ کی تشکیلات یعنی ولایت امیرالمومنین علیہ السلام کی حفاظت ہے، لہذا ہر حق پسند کے لئے آج بھی ولایت فقیہ کی معرفت و شناخت انتہائی ضروری ہے گزارش ہے وہ تمام حضرات جوتمام کتب کا مطالعہ نہیں کرسکتے تو حد اقل آہستہ آہستہ انھیں کاوشوں سے اجمالی معلومات حاصل کرکے سچے عاشق فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہوسکیں۔
بانی قرآن و عترت فاؤنڈیشن نے بتایا کہ اس کانفرنس کے مقالہ خواں اور اساتیذ علماء نے ہر لحاظ سے ان امور کو صحیح انداز سے پیش کرنے کی کوششیں کیں، اور صاف انداز میں لوگوں کو بتایا کہ ولایت فقیہ کا اصلی ہدف کوئی حکومت کی تشکیل نہیں؟ اور یہ ایک ایسا نظم پیش کرنا ہے ایسے System ایک نظم سے تمام لوگ ولایت فقیہ کے واقعی مفہوم سے آشنائی حاصل کرلیں تو سارے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
اس ولایت فقیہ کانفرنس میں حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدر اعظمی مد ظلہ العالی نے فرمایا!میں اس مجمع عاشقان ولایت کو یہ بتانا چاہتاہوں کہ: آپ تمام حضرات ولایت فقیہ کے سلسلے سے ایک مختصر آگاہی ضرور رکھیں؟ اور اگر کوئی آپ سے ولایت فقیہ کے سلسلے سے۔سوال کرے تو ضرور یہ بیان کیجئے کہ: ولی فقیہ کے منتخب ہونے کا طریقہ یہ ہے کہ مجلس خبرگان اسے انتخاب کرتی ہے جو ایک ادارہ ہے جسمیں تمام حضرات مجتہد اور آیة اللہ ہوا کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مجلس خبر گان میں موجودہ حضرات کو کون انتخاب کرتا ہے؟تو اسکا جواب یہ ہے قم المقدسہ میں جامعہ مدرسین ان لوگوں کے مجتہد ہونے کا اعلان کرتی ہے اور جب سبھی پر انکے مجتہد ہونے کا اعلان ہوجاتا ہے تو وہ تمام حضرات انتخاب کے ذریعے مجلس خبرگان کے ممبر بنائے جاتے اور پھر یہ نیک افراد رہبر عزیز کا انتخاب کرتے ہیں، رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کو مجلس خبرگان نے اس وجہ سے کچھ بزرگان پر فوقیت دی کہ آپ ولی فقیہ کے تمام شرائط کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ عالم و فاضل، متقی، پرہیزگار، با بصیرت اور امام خمینیؒ کے ایک خاص شاگرد ہیں۔
قم ،ایران سے تشریف لانے والے اس پروگرام کے تحلیل گر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا حسن رضا صاحب قبلہ وکعبہ نے فرمایا! ولایت فقیہ یعنی ؟ولایت کہتے ہیں حکومت کو اور فقیہ کہتے ہیں اس شخص کو جو دین میں درجہ اجتہاد پر فائز ہو اس کے ساتھ ساتھ عادل ہو، عاقل ہو اور دنیا کے مسائل سے آشنا ہو، پس ولایت فقیہ کا مطلب ہوا فقیہ اور مجتہد کی حکومت۔ اب ان شرائط پر پورا اترنے والے اگر بہت سارے فقہاء ہوں تو ظاہر ہے کہ سب ایک ساتھ ولی و سرپرست نہیں بن سکتے بلکہ انہیں اپنے درمیان میں سے کسی ایک کو ہی اس عہدہ کے لئے معین کرنا ہو گا جس میں اس کام کو سب سے زیادہ انجام دے سکیں تاکہ وہ اس نظام کی باگ ڈور کو سنبھال سکے۔ یہ طریقہ مکمل طور پر منطقی اور عقلی ہے۔ اب اگر سر زمین ایران میں جامع الشرائط فقہاء کے ایک گروہ نے مل کر کسی ایک کو ولی فقیہ کے عنوان سے منتخب کیا ہے تو وہ تمام شیعہ سماج کا ولی و سرپرست ہوگا اور اس کا احترام سب پر ضروری ہو گا اس لئے کہ اہل تشیع کے درمیان ہمیشہ سے ایک ہی فرد کی سرپرستی رہی ہے۔ امام خمینیؒ نے ایک انسانی نظام قائم کرنے کے بعد ولایت فقیہ کے نظریے کو جو پہلے سے شیعہ منابع میں موجود تھا اور عصر ائمہ سے چلا آرہا تھا اسے بھی عوام کے سامنے پیش کیا جبکہ گذشتہ علماء بھی اس عہدہ الہی کے حامل تھے صرف انہیں اسے عملی جامہ پہنانے اور نظام قائم کرنے کا موقع نہیں ملا۔ پس ولی فقیہ اسی کو کہتے ہیں جسکا دائرہ محدود نہیں ہے اور اس ولی فقیہ کے ماننے والے چاہے کسی ملک میں رہ رہے ہوں اس کا حکم ان پر بھی نافذ ہوا کرتا ہے۔ پس اسی دلیل سے رہبر معظم حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ولی فقیہ ہیں۔
مولانا فیضان علی نے اپنے مقالہ میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ولایت کے سائے اور ولایت کی متابعت میں قائم و دائم رہنا پیروان اہل بیت کا بین الاقوامی فریضہ ہے اور ہمارے اعتقادات کا جز ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ولایت کے پابند ہیں؛ آج عصر غیبت میں ہمارا یہ عقیدہ''ولایت فقیہ''میں جلوہ گر ہے؛ ولایت ہدایت اور رہبری کو مشخص اور واضح کرتی ہے اور یہ اصول دیگر اصولوں کا سر چشمہ ہے۔ چنانچہ ولایت فقیہ کا اصول ترقی یافتہ ترین اصولوں میں سے ہے جس کے تحت امام زمانہ عجل کی غیبت کے اس عصر میں منصب ولی فقیہ کو سونپا گیا ہے ولایت کا منصب اسلامی معاشرے کی ہدایت اور رہبری کا منصب ہے مگر وہ منصب سے ناواقف تھے، آج بھی وہی صورت حال ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ بعض لوگ امام خمینی ؒاور انقلاب کی راہوں کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔ہم صاحبان علم و فکر کو دعوت دیتے ہیں کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے بجائے اسکے کے خاموش ہوں خود بھی بیدار ہوں اور دوسروں کو بھی بیدار کریں۔بصیرت اور حق کو باطل سے تشخیص دینے کی اہمیت پر خوب توجہ دیں:تاریخ میں ہے کہ جنگ جمل میں ایک شخص امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں شک سے دوچار ہوا ہوں،امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے شک و تردد کا سبب یہ ہے کہ تمہیں حق کی تمیزنہیں ۔ لہذا باطل نظریے کوترک کرنا اسے سمجھنااسلامی ذمہ داری بنتی ہے۔الحمدللہ ہمیں ایسے رہبر کا جنہیں فقہاع مجتہدجامع الشرائط ، اعلم ،عالم ترین مجتہد سمجھتے ہیں انکی باتوں پہ عمل کرتے ہوئے ہم جتنا ناز کریں کم ہے ''آیت اللہ العظمیٰ سید ہاشمی شاہرودی''جو نہایت اعلی علمی رتبے پر فائز تھے وہ بھی رہبر معظم کی علمی محافل میں بلاناغہ شریک ہوتے ہیں۔
مولانا سید علی رضوی نے کہا: جب علم اور سیاست کی گفتگو ہوتی ہے توسیاسی عقل اور معاشرتی بصیرت کے سلسلے میں کوئی بھی رہبر معظم انقلاب اسلامی کے مانند نہیں ملتا؟جوداخلی مسائل اوربین الاقوامی امور پر یکسان احاطہ رکھتا ہو جیسا کہ علماع و،محققین اور مراجع کرام نے کہا کہ آپ ایک ماہر سیاستدان ہیں اور بہت سی سیاسی شخصیات بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہیں کہ بے شک آپ اسلامی معاشروں اور امت مسلمہ کی مصلحتوں اور مفادات سے واقف ہیں اور گذشتہ قیادتی سال کے دوران آپ نے اپنی انتظامی صلاحیت اور تدبیر کا بھی بہترین ثبوت دیا ہے۔ولایت فقیہ ہی ایسا راستہ ہے جو راہ امیرالمومنینؑ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام پر صحیح طورسے پہچانے والاہے اور آج اسی راہ کا تسلسل سرزمین انقلاب اسلامی ایران ہے،جہاں ایک عظیم الشان رہبرپائے جاتے ہیں اور روز بروز ولایت فقیہ کے علمی راستے منکشف ہوا کرتے ہیں۔ سبھی عاشقان ولایت سے گزارش ہے کہ ہمارے حق میں بھی دعا فرمادیں کہ اس راہ پابندی کے ساتھ گامزن اور اس حقیقت کا صحیح ادراک کرسکیں
ولایت کانفرنس کے مہمان خصوصی دہلی سے تشریف لائے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید رئیس عباس جارچوی مد ظلہ العالی نے فرمایا!اگرچہ میں اس کانفرنس سے باخبرہوں مگر پہلی مرتبہ نزدیک سے ہر چیز دیکھنے کو گوپالپور اور بھیک پور کے لئے"بانی ادارہ مولانا سید شمع رضوی نے دعوت دی اور ہمیں مشغولیت کے باوجود اس دعوت پہ لبیک کہنا پڑا! ایسے پرآشوب دورمیں جہاں کسی کے پاس وقت نہیں؟ وہاں صبح سے رات تک ولایت کے پروگرام میں عشاق ولایت،شعراع ولایت کا مسلسل بیٹھنا، پڑھنا، تشویق کرنا ،پروگرام کو صحیح سے کنٹرول کرنا لطف خدا کے علاوہ کچھ اور نہیں ،آپ نے راہ ولایت فقیہ کو ایک سچا، سیدھا راستہ، اور راہ بصیرت سے تعبیر کیا کہ جس نے اسے اپنایا وہ کامیاب رہا۔
پروگرام میں دئے گئے مصرعہ طرح:ولایت کرے گی اثر دھیرے دھیرے پر بہترین انداز سے لکھنو بنارس،اور دور و دراز سے آئے ہوئے شعراع کرام نے یہ اس موقع پر جمع ہوکر ثبوت دیاکہ اگرہم مدینہ میں ہوتے تو پہلی مدافع ولایت خداوند عالم کی اپنی خاص کنیز کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
اس پروگرام میں ہرسال کتاب کارسم اجراع بھی ہوتاہے تواس موقع پر بھی مولف اور اس ادارے کی خاص طورسے تشویق فرمائی گئ۔
آخر میں خداوند متعال سے دعاکی گئ کہ ہم سبھی کو ،بصیرت اور آگہی عطا کرے کہ ہم اس امر کی معرفت حاصل کریں تاکہ ایک اچھے اور سچے انسان بنکر کمال انسانیت کو پاسکیں۔
آخر میں مزید شکریہ ادا کیا موسس حوزہ علمیہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمد رضوی اور اس حوزہ کے مخلص افراد کا کہ اس کار خیر میں جانفشانی کی اور اس کی تکمیل میں انتھک کوششیں کیں اور ہمیں بھی ثواب میں شریک کیا ہم آپ سبھی کے لئے دعاگو ہیں !۔