۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
مولانا سید شمع محمد رضوی

حوزہ/ بانی قرآن وعترت فاونڈیشن نے کہا کہ ہر معاشرے اور قوم و قبیلہ کے لئے ایک ایسے قائد و رہبر کا ہونا ضروری ہے جو اس معاشرہ میں امن و امان قائم کرے اور اس کی اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط قائم کرے ،کیونکہ قاعدہ لطف کا تقاضا ہے کہ خدا انسان کی ہدایت کے لئے معصوم رہبر اور رسول کے معصوم جانشین کو انتخاب کرے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بانی قرآن و عترت فاؤنڈیشن حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی نے کہا کہ ہر معاشرے اور قوم و قبیلہ کے لئے ایک ایسے قائد و رہبر کا ہونا ضروری ہے جو اس معاشرہ میں امن و امان قائم کرے اور اس کی اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط قائم کرے ،کیونکہ قاعدہ لطف کا تقاضا ہے کہ خدا انسان کی ہدایت کے لئے معصوم رہبر اور رسول کے معصوم جانشین کو انتخاب کرے ۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

تفصیلات کے مطابق، ماہ ذی القعدہ کے عظیم ماہ میں  سمیہ،قم،ایران میں ایک عالی شان جشن منایا گیا جسمیں مندرجہ ذیل افرادنے اس پروگرام کوکامیاب بنانے میں انتھک کوشیشیں کیں ،تلاوت کے فرایض کوانجام دیئے حافظ کل قرآن مجید سید عباس محمد رضوی،اور نظامت کے فرایض اردو ادب پر ایک عمیق نظر رکھنے والے محترم مبین حیدررضوی  نے انجام دئے۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

اس جشن مسرت میں ہندوستان اورپاکستان کے نامور شعراء کرام نے شرکت کی جنمیں، جناب عنایت حسین، جناب کاظمی،محترم عابدکلیم،فیضان فیض آبادی،سروراعظمی،جناب نظرعلی پوری،جناب حیدرصاحب،جناب ابراہیم نوری،سیدشمع محمدرضوی،جناب لیاقت کاظمی،سیدساجدرضوی،جناب احمدشہریار،جناب ضیغم بارہ بنکوی،اور استاد شعروادب محترم جناب احتشام عباس حشم جونپوری صاحب قبلہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

اس پروگرام میں  افتتاحی تقریر حجۃ الاسلام والمسلمین آقای رضائی مدیرکل فرھنگی المصطفیٰ اور اختتامی تقریرکوقبلہ وکعبہ علامہ منتظرمہدی  صاحب نے سامعین سے امامت کے عنوان سے خطاب فرمایا!اس پروگرام میں شعراء کرام کے لئے مندرجہ ذیل مصرعہ بھی پیش کیاگیا'' مشہدکاذکر کیجئے قم کے دیارمیں'' پروگرام ٧بجے شام میں شروع ہوکراپنے مقررہ وقت١٠ بجے تمام ہوا ،جشن میں بہت سارے علمی اورفکری بیانات اوردیئے گئے مصرعہ طرح پرشعراء کرام نے عمدہ اشعار پیش کئے،اور بہت سی شخصیتوں نے بھی شرکت کی اور بطور مہمان خصوصی آقای شمسی پور ادارہ کل امور طلاب وخانوادہ،آقای صرفی معاونت  فرھنگی مجتمع آموزش عالی فقہ ومعارف اورانکے علاوہ دیگر برجستہ شخصیتوں نے شرکت فرمائی۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

افتتاحی تقریر میں حجۃ الاسلام والمسلمین آقای رضائی مدیرکل فرھنگی المصطفیٰ نے کہا کہ یہ میری خوش نصیبی ہے جواس جلسہ میں شرکت کررہاہوں اور جنہوں نے اسے قائم کیاہے ان پر خداوند عالم کی رحمتیں نازل ہوں کیونکہ اس طریقے کاجلسہ تمام بشرکی ضرورت ہے۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

اس پروگرام میں ایک اور عنوان آقای مالکی نژاد کا استقبال اور احترام تھا جو کافی ووٹ لاکر(شوریٰ شہر) ایک بار پھر کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے اس پروگرام کی اہمیت پرتہہ دل سے مبارکبادی دیتے ہوئے کہا کہ امام معصوم علیہ السلام کے چاہنے والے اسی طرح اپنے امام ؑکی ولادت کے ایام میں جشن مسرت قایم کرتے ہیں،آپ نے امام رضاؑ اور اخت الرضاؑ کے حوالے فارسی میں بہت اچھے انداز میں کلام پیش کئے،کلام کے علاوہ اس بزم مسرت پر اپنا تاثر بھی پیش کیا،آپ نے بیان کیا کہ جہاں دنیا مادیات میں غرق ہے وہاں اللہ کےخاص بندے ایسی عبادت میں مشغول ہیں جو سبھی کے لئے ایک عظیم اور معنوی تحفہ ہے،میں دعاکرتاہوں ان بانی جشن کے لئےخداوند عالم انکی تمام مشکلیں حل ہوجائیں اورانکی توفیقات میں اضافہ فرمائےاور خداوند عالم انہیں صحت وسلامتی عطا فرمائے تاکہ ہرسال اسی شان کاعالی شان جشن کوقایم کرسکی۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

ان امورہ مذکورہ پرجوچند علمی مطالب پیش ہوئے وہ مندرجہ ذیل ہیں،سوال ١۔ امام کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ سوال٢۔کیا شریعت کی حفاظت خدا اپنی قدرت سے نہیں کرسکتا ؟ سوال٣۔ سیاسی حکمرانوں کے باوجود امام کی ضرورت کیوں؟ ۔                           

جوابات(١)!بعثت پیغمبر ۖ کے مقصد پر غور کرنے سے امامت کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے ۔ سب سے پہلے ہم خلقت کے ہدف پر غور کریں چنانچہ انسان اس طولانی زندگی کو طے کرتا ہے تاکہ وہ کمال معنوی تک پہونچ سکے اور یہ راستہ بغیر کسی رہبر یا معصوم پیشوا کے طے نہیں کیا جاسکتا چونکہ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اس راستہ میں گمراہی کا خطرہ زیادہ ہے لہذا اسے الٰہی رہبر کے ذریعہ ہی طے کیا جاسکتا ہے ۔  بے شک خدا نے انسان کو عقل جیسی نعمت اور قوی وجدان سے نوازا ہے اور قرآن جیسی الٰہی کتاب بھی انہیں دی ہے لیکن اس کے باوجود بھی انسان اس کی تشخیص میں اشتباہ سے ہمکنار ہو سکتا ہے ایسے میں ایک معصوم رہبر ہی اسے انحراف اور گمراہی جیسے خطروں سے بچا سکتا ہے ایسے میں امام کا وجود خلقت کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے ۔ خدا کے اس لطف و کرم کو کلامی اور اعتقادی کتابوں میں ''قاعدۂ لطف'' سے تعبیر کیا جاتا ہے اور قاعدہ لطف کا مطلب یہ ہے کہ خدا ان سبھی چیزوں کو بندے کے لئے مہیا کرے جو اسے خلقت کے ہدف تک پہونچا سکیں ۔ انہیں میں سے انبیاء کو بھیجنا اور امام کو نصب کرنا ہے ورنہ نقض غرض لازم آئے گا۔ شریعت کا تحفظ!

(۲)یہ بات سبھی کے لئے واضح ہے کہ الٰہی پیغام پیغمبروں کے قلوب پر نازل ہوتے وقت صاف پانی کی طرح ہوتا ہے مگر جب یہ گنہگار ماحول اور کمزور ذہنوں تک پہونچتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ خرافات اور انحرافات کا شکار ہو جاتا ہے اور اس کی شفافیت ختم ہو جاتی ہے ایسی صورت میں نہ اس میں وہ کشش رہ جاتی ہے نہ وہ تربیتی اثر نہ ہی پیاسوں کو سیراب کرنے کی صلاحیت یہاں امام معصوم کی ضرورت پیش آتی ہے جو تحفظ شریعت کا فریضہ انجام دیتا ہے تاکہ اسے انحراف اور تبدیلی سے نجات دلا سکے اور خدا کی شریعت کو خرافات و وہمیات سیبچائے اگر قانون اور مذہب میں ایسا رہبر نہ ہو تو بہت جلد اس کی اصلیت اور اخلاص کا خاتمہ ہو جائے گا۔ مولائے کائنات  نے اسی لئے نہج البلاغہ میں فرمایا:'' اللھم بلیٰ لا تخلو الارض من قائم اللہ بحجة ، اما ظاہراً مشھوراً او خائفا مخمور الئلا تبطل حجج اللہ و بیناتہ '' جی ہاں زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی چاہے وہ ظاہر رہے اور لوگ اسے دیکھیں یا خوف سے پردہ غیب میں رہے، تاکہ اس کی روشن دلیلیں ختم نہ ہونے پائیں ۔ در اصل امام کا دل اس صندوق کی طرح ہوتا ہے کہ جہاں قیمتی چیزوں کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ وہ راہزنان حق اور ناگوار حوادث سے محفوظ رہے ۔

انسان بغیر معصوم راہنماء اور پیشوا کے اپنے معنوی اور مادی کمال تک نہیں پہنچ سکتا، مولانا سید شمع محمد رضوی

(٣) ہر جماعت قوم و قبیلہ کے اجتماعی نظام کو برقرار رکھنے کے لئے ایک اچھے رہبر کا ہونا ضروری ہے اور اس چیز کا تصور ہر زمانے میں پایا گیا ہے۔ جیسا کہ ماضی سے آج تک ہر قوم و قبیلہ نے اپنے لئے ایک رہبر و قائد کو چنا ہے اور گر چہ ان میں اکثر نا صالح تھے لیکن بعض نیک اور صالح رہبر بھی گذرے ہیں جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہر معاشرے کے لئے رہبر کا ہونا ضرری ہے اور بعض عناد پرست ظالم حکمرانوں نے ایسی ضررت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجبوراً نادار لوگوں کو اپنی زیادتیوں کا شکار بنایا اور ان پر حکومت کی ہے ۔ دوسری طرف یہ کہ انسان اگر کمال معنوی تک پہونچنا چاہتا ہے تو وہ اکیلا اس راستہ کو طے نہیں کرسکتا سب کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا چونکہ فرد کی طاقت جسمی، فکری ، مادی اور معنوی لحاظ سے بہت کم ہوتی ہے بنسبت جماعت کی طاقت کے اورلوگوں کے اجتماع کو اختلاف و تفرقہ سے بچانے کے لئے صحیح سالم اور پر امن نظام کے چلانے والے کی ضرورت ہوتی ہے جو ان پر حکومت کرے اور انسانی استعداد کو تقویت بخشے اور گمراہی کا مقابلہ کرے اور سبھی کے حقوق کا خیال رکھے نیز بزرگ اہداف تک پہونچنے کے لئے انہیں قانون دے ۔  اب چونکہ انسان گنہگار ہے اور اس کی عظیم کام کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے جیسا کہ ہم خود سیاسی حکمرانوں کے گمراہیوں کو دیکھ رہے ہیں لہذا ضروری ہے کہ خدا کی طرف سے اس کام کے لئے کوئی معصوم رہبر آئے اور ان چیزوں کا خیال کرے اور لوگوں کو انحرافات اور گمراہی سے بچائے ۔ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .