۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
حجۃ الاسلام و المسلمین صرفی 

حوزہ/ ذکر امام حسین علیہ السلام قدرت نے اس عبادت کو وہ چیزی عطا کیں جو کسی اور میں نہیں،آپکی تربت بھی وہ شفا رکھتی ہے جس سے تمام دنیا کے لوگ بہرہ مند ہوتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ میں حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی کی جانب سے باب الحوایج سے توسل کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔جسمیں بطور مہمان خصوصی مالکی نژاد معانت فرہنگی شہرداری قم اور قم ایران کے مرکز آموزش فقہ عالی کے ثقافتی امور کے رئیس حجۃ الاسلام والمسلمین آقای صرفی  نے شرکت کی۔

کربلا کے میدان میں کوئی بھی بغیر ہدف کے شامل نہیں ہوا بلکہ ہر ایک کے وجود میں ایک خاص لطف پایا جاتا ہے، حجۃ الاسلام و المسلمین صرفی 

پروگرام کی ابتدائی تقریر مالکی نژاد معانت فرہنگی شہرداری قم نے کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اس روحانی ماحول میں مجھے پڑھنے کاموقع دیاگیا!آج کا یہ عظیم پروگرام یہ ایک بڑی توفیق الٰہی ہے جو ہرکوئی اپنے ظرف کے مطابق اس سے بھر پور استفادہ کر رہاہے، یہی علم و معرفت اس طریقے کا پروگرام ہمیں اہلبیت علیہم السلام سے نزدیک کرتا ہے اور یہ نزدیکی خداوند متعال سے نزدیکی کا سبب ہے اور اس طرح اپنی زندگی میں رشد و کمال حاصل کرنا ہےجو ہمارا مقصد خلقت ہے،اور اس بلند مرتبے کے پروگرام کو اس دنیا سے آخرت کے لئے ایک ذخیرہ بنایا اور جو بھیج رہے ہیں اس سے سبھی بہرہ مند ہورہے ہیں، کوئی بھی بڑا تحفہ محبت اہل بیت اور ولایت اہلبیت علیہم السلام سے بڑھکر نہیں، علی اصغر کی یادیں، علی مرتضیٰؑ سے دلی محبت، چودہ معصومینؑ کا عاشق بننا اس سے اچھی کوئی زندگی نہیں۔

کربلا کے میدان میں کوئی بھی بغیر ہدف کے شامل نہیں ہوا بلکہ ہر ایک کے وجود میں ایک خاص لطف پایا جاتا ہے، حجۃ الاسلام و المسلمین صرفی 

انہوں نے کہا کہ حجۃ الاسلام والمسلمین سید شمع محمدرضوی نے اس بزم کو سجایا  اور مختلف پروگرام میں مشغول ہوئے یقینا باب الحوایج اسکا اجر عظیم عطا فرمائیں گے، ہندوستانی ماحول میں بیٹھنا بھی میرے لئے خوشی کا ایک مقام ہے، میں ۲ بار ہندوستان ممبئی شہر میں گیا جہاں بہت اچھا محبت اہل بیت علیہم السلام کا بھی ماحول پایا، اسی طرح کراچی کا بھی ماحول ہے، میں پانی کے جہاز کے ذریعہ سے جب اس ملک میں پہوچا تو ہمارے ساتھ کراچی کے آفسر تھے جہاز میں ہمارے لئے نماز دعا و توسل کے انعقاد سے  ہمیں بھرپور حمایت ملی اور بہت ہی کامیاب رہا،ایک دوسری فعالیت جوہمارے لئے خوشی کامقام وہ میرا سفر کرنا چندملکوں میں مثلا افغانستان، عراق، کناڈا، امریکہ، ترکیہ، سوریہ، عراق، انگلینڈ، فرانس، برزیل وغیرہ کا سفر محبت اہل بیت علیہم السلام کی نشاندہی اور اسکی فعالیت کی وجہ سے کیا،۱۳۸۳سال شمسی میں ایک روز ایک بڑی جمیعت کے ساتھ کل ایران میں حضرت علی اصغرؑ کے عنوان سے فعالیت کی گئی کہ جسمیں تمام شیر خوار بچوں کی مائیں اپنے ہاتھوں بچون کو لئے فریاد یاعلی اصغرؑ بلند کرتے ہوئے نورانی فضا بنایا، اور ۱۳۹۰میں آہستہ آہستہ حضرت علی اصغرؑ کا یہ پروگرام ایک انٹرنیشنل پروگرام بنا جسکے ذریعے امام حسین ؑکے راہ حقانیت کی نشاندہی کر رہاہے، یہ تو سبھی کو خبر ہے کہ جہاں بھی محب اہل بیتؑ پائے جاتے ہیں وہاں عزادرای قایم ہوتی ہے۔

مزید بیان کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ میں ۱۰ محرم کوجلوس نکلتاہے توجس سال سے حضرت علی اصغرؑ کا انٹرنیشنل پروگرام منایاجانے لگا ہرسال جوق درجوق حضرات شرکت کرنے لگے حتیٰ وہاں کے پلیس وہاں کے دوسرے مذاہب کے لوگ آنے لگے اور پوچھنے لگے وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے معصوم بچے کو بھی نہیں بخشا اور یہ حسینؑ کون ہیں جنھیں بے دردی سے شہید کیا گیا، یہ پروگرام باعث بناکہ امام حسینؑ کی مظلومیت اور حقانیت عام ہوسکے،حضرت علی اصغرؑ سند مظلومیت اہل بیت ہیں ہے یہ جو کہاجاتا ہے بدم المظلوم خون علی اصغر علیہ السلام ہے کہ امام محمدباقر علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر قطرہ خون حسینؑ ذرا برابر زمیں پر گرجاتا تو چونکہ خون مظلوم ہے لہٰذا زمین و زمان میں کیا ہوتا نہ پوچھیے، امام حسینؑ علی اصغرؑ کومیدان میں پانی مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ اتمام حجت کرنے آئے تھے،ایک اشارہ کرتے زمین سے پانی کاچشمہ ابلنے لگتا۔

"پانی توحضرت شبیر کو درکار نہ تھا

ورنہ خود شمر کےخنجر سے ٹپکتا پانی"

کربلا کے میدان میں کوئی بھی بغیر ہدف کے شامل نہیں ہوا بلکہ ہر ایک کے وجود میں ایک خاص لطف پایا جاتا ہے، حجۃ الاسلام و المسلمین صرفی 

اس پروگرام میں اختتامی تقریر قم ایران کے مرکز آموزش فقہ عالی کے ثقافتی امور کے رئیس حجۃ الاسلام والمسلمین آقای صرفی سے انجام پائی۔ آپ نے کہا کہ بڑے ہی ادب واحترام سے یہ بزم سجائی گئی، جو نام معتبر، خاندان معتبر جنھیں باب الحوایج حضرت علی اصغر علیہ السلام کے نام سے ہزاروں عاشقین آواز لگاتے ہیں اپنی مرادیں لیکر آتے ہیں اور جھولی بھر پاتے ہیں، میرا وقت بہت ہی مختصر ہے مگر اس وقت میں اس نورانی فضا سے کسب فیض کے لئے آپ بزرگان کی خدمت میں آپہوچا، میں آجکی مناسبت سے جو مطالب پیش کرنا چاہتا ہوں اسمیں تمہدی گفتگو کو چھوڑتے ہوئے اس نکات کی طرف آپ سبھی صاحب علم و فضل کولے جانا چاہتا ہوں کہ حضرت ابالفضلؑ کو ہم سبھی باب الحوائیج کہتے ہیں جس پر ہزاروں دلیلیں موجود ہیں توچآخر کس وجہ سے آپکو بھی اسی نام سے پکاراجاتاہے، ضرور حکمتیں ہیں جنہوں نے اسلام پہ قربانی دی، اسلام کا سر بلندکیا، اسمیں پہلا نکتہ یہ ہے کہ تمام معنیٰ میں پاک تریں واقعہ روز عاشورا کا واقعہ ہے جس سے پاک و بلند واقعہ تاریخ میں نہیں مل سکتا،خاندان عصمت کے تیسرے امام امام حسینؑ نے اس عظیم سفرکے ۲۵منزلوں میں فرمایا! جسکو جانا ہے جائے، اور جانے میں شرم محسوس کرتے ہوتو ہمارے اصحاب یاہمارے گھرو الوں کا ہاتھ پکڑ کے جاسکتے ہو؟ اللہ اکبر کیا عظمت اصحاب و انصار کی کہ ایسی قربانی دی کہ کہناپڑا جیسے اصحاب مجھے ملے نہ میرے باباکوملے نہ میرے نانا کوملے،رہبرعزیزحضرت آیۃ اللہ خامنہ ای مدظلہ العالی کے بقول امام حسینؑ کربلاکے لئے خاص لوگوں کاانتخاب کیا جوکربلائی ہوئے، یہ بھی ایک بڑی فضیلت ہے۔                       

یہ یادرکھنے کی بات ہے کہ کربلاکے میدان میں کوئی بھی بغیر ہدف کے شامل نہیں ہوا بلکہ ہر ایک کے وجود میں ایک خاص لطف پایا جاتا،جوبھی عنصر رکاب امام حسینؑ میں شامل ہوا اسکا ایک اپنا مقدس نقش تھا۔

مولانا موصوف نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمع محمدر ضوی ضرور اپنی زندگی میں مزید الطاف الہٰی کو پائینگے جنہوں نےباب الحوایج کاعالی شان پروگرام منایا!یہ کس شخصیت کا ذکر ہے ذکر علی اصغرؑ، ذکر کربلا،ذکر امام حسینؑ،قدرت نے ان شخصیات کو وہ چیزی عطا کیں جو کسی اور میں نہیں،آپکی تربت میں وہ شفا رکھتی ہے جس سے تمام دنیا کے لوگ بہرہ مند ہوتے ہیں، امام حسین علیہ السلام کی وہ عظیم شخصیت ہے کہ آپکے پارہ تن کو ہر روز نماز کے بعد سلام پیش کرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .