حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے علی مسجد جامعة المنتظر میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیمات کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سلسلہ امامت شروع ہوا۔ ہمیں انبیاءکرام علیہم السلام کی طرح زندگی گذارنی چاہیے چونکہ وہ ہمارے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہم جن دینی مسائل سے اگر اچھی طرح واقف ہیں تو اسے اپنے قریبی افراد یعنی بیوی بچوں، ملازمین اور دوست احباب تک پہنچانا لازم اور ضروری ہے۔ ہر وہ چیز کہ جو ہمارے روح اور جسم کے لئے مفید ہے رسول اللہ نے اسے واجب یا مستحب قراردیاہے۔ اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو ہماری روح یا ہمارے جسم کے لئے ضرر رساں تھی اسے حرام یا مکر وہ کہہ کر ہمارے گوش گزار کر دیا ہے۔حضور سرورکائنات نے معاشرے کے اندر موجود غلط رسم و رواج کی زنجیروں کو توڑ ا۔تاکہ خالص اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسان کا رابطہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط اور قوی ہو جاتا ہے تو اس کے دل بھی مضبوط ہو جاتا ہے اور ان کا ہر کام اللہ تعالیٰ کی محبت میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر وہ کسی سے دشمنی بھی رکھیں تو بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر رکھتے ہیں۔ جب اللہ اور رسول کے ساتھ انسان کا رابطہ یا تعلق محکم اور استوار ہو جاتا ہے تو پیغمبر اس شخص سے متعلق فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ صہیب رومی میرے اہل بیت میں سے ہیں( سلمان منا اہل البیت ؛ صہیب رومی منا اہل البیت )۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ 1441 سال پہلے امام حسین علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ اس معصوم ہستی کی عصمت و طہارت پر قرآن مجید شاہد ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت پر جشن عید میلادالنبی منانے کے ساتھ دیگر معصومین علیم السلام کی ولادت کے د ن بھی جوش و خروش سے جشن منائیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ نواسہ رسول حضرت امام حسینؑ وہ امام ہیں کہ جو کبھی رسول اکرم کے کندھوں پر سوار ہوتے تھے تو کبھی سجدہ کی حالت میں پشت پر سوار ہو جاتے تھے۔ بچپن کے عالم میں ایک مرتبہ سیدنا امام حسین علیہ السلام مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو عبا سے دامن جو الجھا تو قریب تھے کہ آپ گر پڑیں لیکن رسول اسلام نے خطبہ چھوڑ کر ان کو گرنے سے پہلے ہی سنبھال لیا۔ حالانکہ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بھی کہہ سکتے تھے کہ حسینؑ کو اٹھا کر لاو ¿ لیکن حسین اتنے پیارے تھے رسول اسلام کو کہ وہ خود ان کو اٹھانے چلے گئے۔ اور آ کر فرمایا: اے میرے اللہ ! میں حسین سے محبت کرتا ہوں اور تو اس سے محبت کر جو حسین ؑ سے محبت کرے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ جیسے ہی رسول اللہ کی آنکھیں بند ہوئیںتو حسینؑ سے متعلق وہ عزت و کرامت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ البتہ زبانی طور پر اظہار محبت کیا جاتا رہا۔