۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا رضی زیدی

حوزہ/ حج اسلام کی اہم عبادت ہے جس میں حکمتوں اور مصلحتوں کے بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں جو انسان کے لیے دنیا اور آخرت کی سربلندی کا ذریعہ بن سکتے ہیں اسی لیے حج ہر اس مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہےجو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔

تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسیحج اسلام کی اہم عبادت ہے جس میں حکمتوں اور مصلحتوں کے بے شمار خزانے پوشیدہ ہیں جو انسان کے لیے دنیا اور آخرت کی سربلندی کا ذریعہ بن سکتے ہیں اسی لیے حج ہر اس مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہےجو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔
عربی زبان میں "حج" کے معنی "دلیل و برہان لانے" اور "کسی اہم کام کی انجام دہی کا قصد کرنے" کے ہیں۔ اسلامی منابع میں حج سے مراد ایک مخصوص وقت میں مکہ مکرمہ جا کر بیت‌اللّہ‌الحرام کی زیارت اور اس سے متعلق بعض اعمال کوانجام دیناہے۔ اسلام میں حج ایک فقہی اصطلاح کا نام ہے جو مکہ مکرمہ میں مخصوص ایام میں انجام دیے جانے والے مخصوص اعمال کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے۔
حاجی شوق اور رغبت کے ساتھ جوق در جوق اپنے شہروں کو چھوڑ کراللہ کے گھر کی طرف  مکہ پہنچ  جاتے ہیں اور خدا  کی عبادت میں مصروف  ہوجاتے  ہیں کسی کو کسی سے کوئی سروکارنہیں  ہوتاہے فقط خدا سے راز و نیاز میں لگے رہتے  ہیں شریعت اسلام کے حکم سے امن و امان  کے ساتھ  اپنے خالق کی عبادت کرتےہیں، اس  سرزمین پر اللہ کے مہمان ہوجاتےہیں ،  اس کی رحمت کی دعا، گناہوں سے دوری اور توبہ کرتے ہوئےمستقبل میں صحیح اعمال کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے جسموں کوتکلیف دیتے ہوئے خواہشات نفسانی سے خود کو دور کرتے ہیں، خضوع وخشوع اور انکساری  کے ساتھ گرمی اور سردی کی سختی کو برداشت کرتے ہوئے تقرب خدا کو اختیار کرلیتے ہیں۔

اس عبادت میں  اللہ نے حکمتوں کو رکھاہے :

حضرت علی علیہ السلام نے مختلف موارد میں ان حکمتوں میں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ہے  جیسے: خدا کی عظمت اور بزرگی کے مقابلے میں مسلمانوں کا تواضع، تکبر سے دوری ، سفر کی سختیوں کے ذریعہ بندگان خدا کی آزمایش، مسلمانوں کا اکھٹا ہونا اور ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہونا، خدا کے تقرب اور رحمت سے نزدیک ہونا وغیرہ ہیں (نہج‌البلاغۃ، خطبہ ۱، ۱۱۰، ۱۹۲، حکمت ۲۵۲) اس کے علاوہ   اللہ کی قربت  ہر اس عمل میں جو حاجی کی رفتار اور گفتار سے ظاہر ہوتاہے،  خدا کی طرف توجہ ، مادی لذات  اور زندگی  کے کام ترک  ہوتے ہیں، اللہ کے گھر کا طواف ،نماز اور اللہ کی راہ میں قربانی کرتے ہیں، یہ سب اعمال  حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے انجام دیئے جاتے  ہیں ۔ ہم یہاں پر مختصر طورپرحج کے اعمال ذکرکررہے ہیں اس غرض سے کہ شاید کسی حاجی کے کام آجائیں:

حج کے اعمال  ترتیب  کے اعتبار سے:

(1)- احرام باندھنا(2)- عرفات میں وقوف(3)-مشعر الحرام (مزدلفہ ) میں وقوف(4)-  ۱۱اور ۱۲ ذی‌الحجہ کی رات منی میں گزارنا، بعض لوگوں کیلئے تیرہویں رات بھی۔

اس کے علاوہ درج ذیل اعمال بجالانا:

( 1)- رمی جمرات "تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنا" (جواہر الکلام، ج۱۸، ص۱۳۶)( 2) - حج تمتع میں منیٰ میں قربانی  کرنا واجب ہے جبکہ حج قران اور حج افراد میں  مستحب ہے۔ (جواہرالکلام، ج۱۹، ص۱۱۴ - ۱۱۵)(3)- حلق یا تقصیر (سر کا منڈوانا یا بالوں کا چھوٹا کرانا))4)- طواف زیارت( 5)- نماز طواف زیارت(6)- سعی بین صفا و مروہ(7)-  طواف نساء(8)- نماز طواف نساء۔
دو باتیں یاد رہیں:نمبر 1: حج تمتع میں عمرہ تمتع کو حج سے پہلے انجام دینا ضروری ہے  نمبر2: اعمال مکہ (آخری پانچ اعمال) کو شرائط کے ساتھ دسویں دن حلق یا تقصیر (سر کا منڈوانا  یا  بالوں کا چھوٹا کرانا) کے بعد بھی انجام دے سکتے ہیں۔ 

مناسک حج سے مربوط مستحبات :

مناسک حج میں سے ہر ایک کے آداب اور مستحبات ہیں جنہیں فقہی کتابوں میں ذکر کیا گیاہے۔ احرام کے مستحبات، مسجد الحرام میں وارد ہونے کے مستحبات ، طواف کے مستحبات،نماز طواف کے مستحبات،سعی صفا و مروہ کے مستحبات، وقوف عرفات کے مستحبات، وقوف مشعر الحرام کے مستحبات، رمی جمرات کے مستحبات، قربانی کے مستحبات، سرزمین منیٰ کے مستحبات، اور خود شہرمکہ کے مستحبات وغیرہ۔

اتمام مناسک حج کے بعد کے مستحبات:

(1)-  منیٰ سے دوبارہ طواف اور وداع کے لیے مکہ واپس آنا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۴)                                             

(2)منیٰ میں اقامت کے دوران مسجدخیف میں چھ رکعت نماز پڑھنا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۳)

(3 )- 13 ذی الحجہ کے دن منیٰ سے کوچ کرتے وقت وادی مُحَصَّب ( ابطح(میں ٹھہر کر پشت کے بل لیٹنا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۵۷)

(4)- بغیر جوتوں کےکعبہ کے اندر داخل ہونا، بطور خاص ان لوگوں کیلئے جو پہلی بار حج کر رہے ہوں۔ کعبہ میں داخل ہوتے وقت غسل اور دعا اور دو ستونوں کے درمیان سرخ پتھر پر دو رکعت نماز پڑھنا۔ اسی طرح چار کونوں میں دو  دو  رکعت نماز پڑھنا اسی طرح مأثور دعاؤں کے ذریعہ دعا مانگنا،ارکان کعبہ  بطور خاص  رکن یمانی کا بوسہ لینا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۰ ۶۵)

( 5)- اپنے رشتہ داروں اور ہم وطن کی طرف سے طواف کرنا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۸)اس کے بعد طواف وداع اور کعبہ کے چار ارکان کو لمس کرنا اور ہر حاجت کیلئے دعا کرنا، چشمہ زمزم سے پانی پینا اور خارج ہوتے وقت ماثور دعاؤں کا پڑھنا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۵)

(6) مسجد الحرام کو چھوڑنے سے پہلے سجدہ میں جانا ، رو بہ قبلہ ہوکر دعا پڑھنا

(7)- مسجد الحرام سےباب حناطین سے خارج ہونا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۶ ۶۷)

( 8)- آئندہ سالوں میں حج کیلئے مکہ لوٹنے کا قصد رکھنا

(9)- بعض  فقہا کے مطابق محل ولادت رسول خدا (ص) و نیز منزل حضرت خدیجہ والدہ حضرت زہرا) علیہما السّلام)  اور قبرستان میں ان کی قبر کی زیارت

(10)-  مسجد ارقم جانا (خانہ ارقم بن ابی ارقم کہ رسول خدا(ص) بعثت کے آغاز میں وہاں مخفی ہوا کرتے تھے بعد میں اسی جگہ ایک مسجد تعمیر کی گئی جو "مسجد خیزران" کے نام سے معروف تھی۔ مسجد الحرام کی توسیع کے بعد یہ جگہ مسجد میں شامل ہوگئی ہے۔)

(11)- غارحرا اور غارثور جانا (جواہرالکلام، ج۲۰، ص۶۹)۔
آخر میں تمام حاجیوں کو حج کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ سے دعا گو ہوں کہ حاجیوں کو استطاعت کے ساتھ حج کی توفیق دینے والے اللہ، تمام حاجیوں کے حج کو قبول فرما آمین والحمد للہ رب العالمین ۔ 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Mesan IN 20:58 - 2021/07/19
    0 0
    Hoza news ki janib se bohut achi elmi maloomat par mushtamil tehreron se dil khush ho jata he uor elm me ezafa bhi ho jata he jazakallah.