حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید صفی حیدر زیدی صاحب قبلہ سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنؤ " قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے" کے عنوان سے اپنی ایک تحریری مضمون میں کہا کہ تحریف کا مسئلہ اس قدر زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ قرآن کے بارے میں قلم اٹھانے والے علماء و محققین کی اکثریت نے اسے موضوعِ سخن بنایا ہے۔
تصنیف و تالیف کے ابتدائی دور سے دور حاضر تک متعدد کتابیں اور رسالے اس موضوع پر منظر عام پر آچکے ہیں۔انھیں کتابوں میں سے ایک عظیم الشان مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ السید ابوالقاسم الخوئی اعلیٰ اللہ مقامہ کی کتاب البیان فی تفسیر القرآن ہے۔ اس کتاب کے گرانقدر مقدمہ میں تحریف کے بارے میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ دور حاضر میں مسئلہ تحریف کو لے کر قرآن کے سلسلہ میں پیدا کئے جانے والے شکوک و شبہات کا جواب دینے کی خاطر کتاب البیان سے استفادہ کرتے ہوئے اس موضوع پر چند اہم باتیں پیش کی جارہی ہیں۔
قرآن مجید کے بارے میں جب لفظ ’’تَحْرِیْف‘‘ استعمال ہوتا ہے تو الگ الگ جگہوں پر اس سے مختلف معنی مراد ہوتے ہیں:باتفاق مسلمین ان میں سے بعض اعتبار سے یقیناًتحریف ہوئی ہے۔ بعض اعتبار سے قطعاًتحریف نہیں ہوئی ہے اور بعض اعتبار سےمسئلہ اختلافی ہے۔
معانی تحریف
(۱) نَقْلُ الشَّیْءِ عَنْ مَوْضِعِہٖ وَ تَحْوِیْلُہٗ اِلیٰ غَیْرِہٖ ،کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنا۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ۔ (سورۂ نساء، آیت۶۴)
یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الٰہیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں ۔
تحریف معنوی: قرآن مجید میں تحریف معنوی یقیناً واقع ہوئی ہے اورہوتی رہتی ہے۔اس مصیبت سے منبر بھی محفوظ نہیں ہیں جہاں آیا ت کی غلط تاویل کرکے تحریف معنوی کی جاتی ہے۔ آیات و روایات میں تحریف معنوی سے شدت سے روکا گیاہے،جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے سعد الخیر کے نام ایک خط میں تحریر فرمایا ہے:
وَكَانَ مِنْ نَبْذِهِمُ الْكِتَابَ اَنْ اَقَامُوْا حُرُوْفَهٗ وَ حَرَّفُوْا حُدُوْدَهٗ فَهُمْ يَرْوُوْنَهٗ وَ لَا يَرْعُوْنَهٗ وَ الْجُهَّالُ يُعْجِبُهُمْ حِفْظُهُمْ لِلرِّوَايَةِ وَ الْعُلَمَاءُ يُحْزِنُهُمْ تَرْكُهُمْ لِلرِّعَايَةِ...
'’’قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں،،
(۲) حروف و حرکات میں کمی یا زیادتی ہوئی ہے لیکن قرآن محفوظ رہے۔اس معنیٰ میں تحریف یقینی ہوئی ہےاس لئے کہ قرائت سبعہ متواتر نہیں ہیںلہٰذا قرآن مُنزَل ایک قرائت کے مطابق ہے باقی میں تبدیلی حرکات و حروف ہے جو کمی اور زیادتی ہے۔
(۳) قرآن منزل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ایک کلمہ یا دو کلمے کی کمی یا زیادتی۔ان معنیٰ میں صدر اسلام میں تحریف ہوئی تھی جس کا ثبوت یہ ہے کہ خلیفۂ ثالث نے قرآن کے مختلف نسخے جلوائے اور نسخہ عثمان باقی رہا جو متواتر ہے اس لئےان معنیٰ میںآج تحریف نہیں ہے۔
(۴) قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریم (ص) پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریم (ص) نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔مثلاً بسم اللہ...کو نبی نے ہر سورہ کے قبل پڑھا ،مسلمان مانتے ہیں مگر جزو سورہ ہونے میں اہل سنت میں اختلاف ہے۔شیعہ سورۂ برائت کے علاوہ ہر سورے میں جز ءمانتے ہیں۔ اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔
(۵) پانچویں صورت موجودہ مصحف میں کچھ کلام منزل من اللہ نہیں ہے یعنی اللہ کا کلام نہیں ہے۔یہ بات بالاتفاق غلط ہے۔اہل سنت اور شیعہ دونوں اس کے قائل ہیں کہ قرآن میں جو کچھ ہے وہ سب اللہ کی جانب سے پیغمبر ﷺ پر نازل ہوا ہے۔
(۶) موجودہ قرآن میں مُنْزَل مِنَ اللہِ قرآن کچھ کم ہے کچھ کھو گیا ہے۔یہی اختلافی مسئلہ ہے۔اکثر علماء اس کے قائل ہیں کہ جو کچھ نازل ہوا ہے موجود ہ مصحف میں موجود ہے ۔ بعض حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ کچھ آیات حذف ہوگئی ہیں۔
عام رائے
شیخ طوسی ؒ نے عدم تحریف کو عقائد امامیہ میں قرار دیا ہے۔انھوں نے مقدمۂ التبیان فی تفسیر القرآن میں خود اوراپنے استاد سید مرتضیٰ ؒسے نقل کیا ہے۔شیخ طبرسیؒ نے مجمع البیان میں تحریف سے انکار اور شیخ جعفر کاشف الغطاء نے کشف الغطاء میں عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔
جن شیعہ علماءنے امامت کے سلسلہ میں کتابیں لکھی ہیںاور انھوں نے عدم تحریف کا کوئی ذکر نہیں کیاہے وہ بھی عدم تحریف کے قائل ہیں۔ اگر قائل نہ ہوتے تو اس کا ذکر ضرور کرتے۔
البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔
نسخِ تلاوت
نسخِ تلاوت کا قول اہل سنت میں رائج ہے اور یہ مستلزم تحریف ہےیعنی اگر یہ مان لیا جائے کہ فلاں آیت کی تلاوت منسوخ ہو گئی تو اس کا صاف صاف مطلب ہوتا ہے کہ اتنا حصہ قرآن سے کم ہوگیا۔
جو روایتیں یہ کہتی ہیں کہ عہد رسول (ص) میں فلاں آیت قرآن میں تھی انھیں اکثر علماء اہل سنت نسخ تلاوت پر محمول کرتے ہیںجو مستلزم تحریف ہےکیونکہ اگر نسخ تلاوت رسول (ص) نے کی تو ثبوت چاہئےاور خبر واحد سے قرآن کی کوئی آیت منسوخ نہیں ہوتی ہے۔
پھر بعض روایتیں یہ بھی کہتی ہیں کہ سقوط آیت بعد رسول (ص)ہوا ہے اورچند آیتیں ساقط ہوگئی ہیں۔ اگر نسخ بعد رسول (ص) خلفاء و حکام نے کیا تویہی تحریف ہے۔
نسخ تلاوت کے سلسلہ میں بعض روایات حسب ذیل ہیں:
ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:
’’خدا نے محمدؐ کوبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یاد کیا۔ اسی لیے جب رسول(ص) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئی کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا اور لوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:
وَلَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاۗئِکُمْ فَاِنَّهٗ کُفْرٌ بِکُمْ۔
یا وہ اس طرح تھی:
اِنَّ کُفْرًا بِکُمْ اَنْ تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاۗئِکُمْ۔
(مسند احمد ابن حنبل)
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر نے کہا:
تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔
(الاتقان۔ج۲۔ص۴۰۔۴۱)
عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:
رسول اکرم(ص) کے زمانے میں سورۂ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔ (الاتقان۔ج۲۔ص۴۱۴)
تحریف اور قرآنی موقف
موجودہ قرآن، قرآن منزل ہے اس کا کوئی حصہ کم نہیں ہوااور نہ ہی اضافہ ہوا ہے۔
دلائل:
دلیل(۱) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔ (سورۂ حجر، آیت۹)
ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔
واضح رہے کہ جس کامحافظ اللہ ہو اس کو کون بدل بگاڑ کیا مٹا سکتا ہے؟!
اعتراض(۱)
ذکر سے مراد رسول خدا (ص) کی ذات گرامی ہے۔ جیسا کہ آیۂ کریمہ قَدْ أَنزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللهِ مُبَيِّنَاتٍ۔ (سورۂ طلاق، آیت۱۰۔۱۱) میں آیا ہے۔
جواب:
اِنْزَال و تَنْزِیْل کے الفاظ قرآن کے مناسب ہیں۔ اگررسول مراد ہوتے تو لفظ اِرْسَال ہوتا جیسے قرآن میں متعدد مقامات پر آیات۔
پھر یہ احتمال دینا کہ ذکر سے مراد رسول خدا (ص) ہیں ممکن نہیں ہے کیونکہ اس سے پہلے کی آیت میں اس طرح آیا ہے:
وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ ۔ (سورۂ حجر، آیت۶)
اور ان لوگوں نے کہا کہ اے وہ شخص جس پر قرآن نازل ہوا ہے تو دیوانہ ہے ۔
اعتراض(۲):
حفظ قرآن سے مراد یہ ہے کہ اس پر اعتراض ممکن نہیں ہے۔
جواب:
کفار نے قرآن پر خوب اعتراض کئے ہیںاور ناقابل اعتراض ہونا حِفْظ بعد التنزیل (آیت آیت نازل ہونے کے بعد محفوظ ہونا)نہیں ہےیہ بات تو خودبخود واضح ہے۔ اب الگ سے حفاظت کی ضرورت بعد تنزیل کیا ہے۔
اعتراض(۳):
قرآن کے نسخے فی الجملہ محفوظ ہیں،ہر نسخے کا محفوظ ہونا ضروری نہیں ہے ۔فی الجملہ ایک نسخہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ کے پاس محفوظ ہے۔
جواب:
قرآن ان کے پاس ہونا چاہئے جن پر نازل ہوا یعنی عام انسان امام علیہ السلام کے پاس محفوظ ہونا لوح محفوظ میں محفوظ ہونے کی طرح ہے یہ بالکل اسی طرح ہے کہ کہا جائے میں نے آپ کو تحفہ بھیجا ہے اور وہ میرے کسی معتمد کے پاس محفوظ ہے۔
مزید برآں ذکر سے مراد قرآن مکتوب یاقرآن ملفوظ نہیں ہے بلکہ اس کے نسخے ہوںگے اس لئے کہ یہ افراد دائمی نہیں ہوتے بلکہ مراد اس قرآن مکتوب یاقرآن ملفوظ سے جس کو نقل کیا جائے وہ ہے جو رسول پر نازل ہوا جس تک عام بشر کی رسائی ہونی چاہئے۔
اعتراض(۴):
ہو سکتا ہے یہ آیت خود تحریف شدہ ہو جس سے استدلال صحیح نہیں ہے ۔
جواب:
ائمہ نےاسی قرآن سے استدلال کیاہے یعنی پوری کتاب حجت ہےاور ائمہ طاہرینؑ کا اسی قرآن سے استدلال کرنا دلیل ہے کہ ان کی نگاہ میں موجودہ مصحف کامل و تمام ہے۔
دلیل۲:وَإِنَّهُ لَكِتَابٌ عَزِيزٌ لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ ۔
(سورۂ فصلت، آیت۴۱۔۴۲)
اور یہ ایک عالی مرتبہ کتاب ہے جس کے قریب سامنے یا پیچھے کسی طرف سے باطل آہی نہیں سکتا کہ یہ خدائے حکیم و حمید کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ۔
آیت میں باطل کے تمام افراد کی نفی کی ہے(نفی اگر طبیعت پر وارد ہو تو عمومیت کا فائدہ پہونچاتی ہے) اور تحریف باطل کے افراد میں سے ایک ہے۔
اعتراض(۵):
نفی باطل سے مراد یہ ہے کہ نہ قرآنی خبر میں کوئی غلطی ہے اور قرآنی احکام میں تناقض ہے ،جیسا کہ روایات میں ہے مثلاً:
عَنِ الصَّادِقِ عَلَیْہِ السَّلَامُ: لَیْسَ فِی الْاَخْبَارِ عَمَّا مَضَیٰ بَاطِلٌ وَلَا فِیْ اِخْبَارِہٖ عَمَّا یَکُوْنُ فِی الْمُسْتَقْبِلِ بَاطِلٌ...
مجمع البیان فی تفسیر القرآن
نہ قرآن کی گذشتہ سے متعلق خبروں میں باطل کا شائبہ ہے اور نہ مستقبل سے متعلق پیشگوئیوں میں۔
جواب:
روایت باطل کو اس معنی میں حصر نہیں کرتی ہے اس لئے آیت کے عموم کے منافی نہیں ہے۔روایات مختلف ہیں کہ آیات قرآنی اور معانی قرآنی خاص موارد کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ لہٰذا ہر دور میں ہر باطل سے پاک رہے گا اس لئے کہ لفظ عِزَّۃ بھی حفاظت اور عدم تغییر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
عدم تحریف کی دلیلیں سنت سے
(۱)حدیث ثقلین (فریقین کے یہاں متواتر ہے)
استدلال اول:
جب قرآن سے تمسک واجب ہے تو کتاب منزل ان کے ہاتھوں میں موجود ہونا چاہئے جن کو تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر تحریف ہوئی تو تمسک وا جب نہ رہے گا کیونکہ پھر وہ کتاب ہی نہیں ہے۔تمسک کے لئے دونوں کا وجود ضروری ہے۔ اہل بیتؑ سے تمسک، ان سے مودت اور ان کے احکام پر عمل ہے۔ان سے ملاقات ضروری نہیںکہ زمانۂ حضور میں بھی سب کے لئے ممکن نہ تھا احکام پر عمل بھی غیبت میں بھی ہے (رجوع الیٰ العلماء) لیکن قرآن سے تمسک قر آن تک پہنچے بغیر ممکن نہیں ہے لہٰذا قرآن کو امت کے درمیان ہونا چاہئے۔یہ صرف امام کے پاس ہونا کافی نہیں۔
حکم تمسک صرف آیات احکام کے لئے نہیں پورے قرآن کے لئے ہے، پھر خود لفظ کتاب ثبوت ہے کہ دور رسول اکرم ﷺ میں جمع و تدوین ہو گئی تھی اس لئے کہ کتاب نہ متفرقات کو کہا جاتا ہے نہ سینوں میں محفوظ کو۔
استدلال دوم:
تحریف کی صورت میں قرآن سے استدلال درست نہیں، کیونکہ ظواہر قرآنی حجت نہیں رہیں گے کیونکہ ہو سکتا ہے کوئی قرینہ رہا ہوجو تحریف کا شکار ہوا ہو پھر ظواہر قرآنی کی حجیت کے لئے ائمہ کی تصدیق ضروری ہوگی، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حجت قرآن مستقبل نہ رہے بلکہ ثِقْلِ اَکْبَر (قرآن مجید)کی حجیت ثِقْلِ اَصْغَر (اہل بیتؑ) کی حجیت کی فرع ہو جائے،جو نہ ہونا چاہئے۔( قرینہ متصلہ کا احتمال نہیں ہے کیونکہ اگر قرینہ ہوتا تو راوی ذکر کرتا)
(۲) نماز میں سورۂ حمد کے بعد فقہ جعفری میں پورا سورہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اگر تحریف ہوئی ہوتی تو کسی بھی سورہ کا پڑھنا کافی نہ ہو تا، بلکہ صرف غیر محرف سوروں کی قرأت ضروری قرار دی جاتی۔ مثلاً سورہ توحید یاسور ہ قدر جبکہ ان سوروں کا بطور استحباب ذکر ہے۔ اس میں کوئی خلاف تقیہ بات بھی نہیں پورے سورہ کے پڑھنے کا حکم اور اختیار دونوں (رسول اللہ ﷺکی باتیں ہیں ،اس وقت تقیہ کا مسئلہ نہیں تھا)
قرآن میں تحریف ہوئی ہوتی تو امیرالمومنین علیہ السلام نے بھی کہیں نہ کہیں اعتراض کیا ہوتا جبکہ آپ حکومت کے غلط فیصلوں پر اعتراض کرتے تھے۔
تحریف خلفاء کی جانب سے؟
تحریف یا شیخین نے کی ہے یا خلیفۂ ثالث نے یا ان کے بعد والوں نے یہ ساری صورتیں غلط ہیں :
خلفاء کی تحریف عمداً تھی یا سہواً؟
الف: تحریف جان بوجھ کر نہیں بلکہ غیر اختیاری طورپر اور مکمل قرآن تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی ہوگی اس لیے کہ اس سے پہلے قرآن جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یا انہوں نے عمداً تحریف کی ہوگی۔
ب:عمداً تحریف کی: تو ان آیات میں تحریف کی جن کا تعلق ان کی زعامت سے نہیںتھا۔
ج:اپنی زعامت کو متأثر کرنے والی آیات میں تحریف کی۔
یہ ساری صورتیں باطل ہیں اس لئے کہ :
الف:خلفاء کو دور رسول (ص) سے قرآن ناقص و نا مکمل ملا بالکل غلط بات ہے اس لئے کہ جن مسلمانوں نے قرآن کے لئے سب کچھ قربان کردیا،جنھوں نے زمانہ جاہلیت کے اشعارکو محفوظ رکھاوہ قرآن کو کیسے نہیں محفوظ رکھتے۔سینوں میں یا کاغذ پر تختیوں پررکھنا بے توجہی کا ثبوت ہے جو اس دور کے اصحاب سے ممکن نہیں،کیا وہ قرآن کو اس طرح ضائع کرسکتے تھے کہ آیت کے ثبوت کے لئے دو گواہوں کی ضرورت پڑے۔حدیث ثقلین گواہ ہے کہ دور رسول میں بشکل کتاب قرآن موجود تھا۔
اگر مسلمانوں نے جمع قرآن کا کام کیا؟تو نبی اکرم (ص)نے خود کیوں نہیں کیا؟!کیا آپ اس کے نتائج سے بے خبر تھے۔یا معاذ اللہ ان کےلئے جمع قرآن ممکن نہ تھا،ساری صورتیں باطل ہیں۔لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ شیخین کو قرآن پورا ملاتھا۔
ب: زعامت سے غیرمربوط آیات میں تحریف شیخین کیوں کرتے؟جبکہ ان کا طریقۂ کا رسیاسی تھاوہ اظہار تدین کرتےتھے، اگر وہ تحریف کرتے تو منکرین بیعت احتجاج کرتے، امیر المومنین علیہ السلام خطبۂ شقشقیہ میں اس کا ذکر کرتے۔
ج: اگر تحریف شیخین کی زعامت کو متأثر کرنے والی آیات میں ہوتی تو جناب فاطمہؐ یا امیر المومنینؑ یا دیگر مومن اصحاب ان آیات سے استدلال کرتے،جبکہ دور خلفاء میں جمع قرآن کے قائلین کے بقول یہ بحث جمع قرآن سے پہلے ہوئی ہے۔
لہٰذا تحریف شیخین کی طرف سے نہیں ہوئی ہے۔
خلیفۂ سوم کی جانب سے تحریف کا دعویٰ مندرجہ ذیل امور کے پیش نظر باطل ہے:
(۱) اسلام اتنا پھیل چکا تھا کہ ان کے بس کی بات نہیں تھی کہ قرآن سے کچھ کم کریں:
(۲) خلافت سے غیر متعلق آیات میں تحریف کاعمل بلاوجہ ہےاور خلافت سےمتعلق آیات ہوتیں تو عثمان کو خلافت نہ ملتی۔
(۳) اگر خلیفۂ ثالث نے تحریف کی ہوتی توان کے قتل کے جواز کے لئےاسے پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ بیت المال میں بےجا تصرف وغیرہ کو جوازِ قتل کی دلیل بنایا گیا۔
(۴) اگر قرآن تحریف شدہ ہوتا تو امیر المومنینؑ اپنے دور اقتدار میں اس کا اصل نسخہ واپس لاتے کہ آپ نے قیام عدل کا عہد کیا تھا اس سلسلے میں کوئی تنقید نہ کرتا بلکہ انتقام خون عثمان کے دعویداروں کا مسکت جواب ہوتا۔ آپ کا منشور حکومت یہ تھا:
وَ اللهِ لَوْ وَجَدْتُهُ قَدْ تُزُوِّجَ بِهِ النِّسَاۗءُ وَ مُلِكَ بِهِ الْاِمَاۗءُ لَرَدَدْتُهُ فَاِنَّ فِي الْعَدْلِ سَعَةً وَّ مَنْ ضَاقَ عَلَيْهِ الْعَدْلُ فَالْجَوْرُ عَلَيْهِ اَضْيَقُ.
’’خدا کی قسم! اگر مجھے کہیں ایسا مال بھی نظر آئے جو عورتوں کے مہر اور کنیزوں کی خریداری پر صرف کیا جاچکا ہو تو اسے بھی واپس پلٹا دوں گا کیونکہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں زیادہ وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اسے ظلم کی مشکل میں اور زیادہ تنگی محسوس ہوگی۔‘‘
جو یہ اعلان کرے وہ قرآن کو بدلا ہوا، تحریف شدہ کیسے چھوڑدے گا؟!
امیر المومنین علیہ السلام کا موجودہ قرآن کو رائج کرنا عدم تحریف کی دلیل ہے۔
تحریف بعد خلفاء ہوئی ہو!
ایک تو اس کا کوئی دعویدار نہیں ہے صرف بعض لوگوں کی طرف منسوب ہے کہ ان کے خیال میں حجاج نے بنی امیہ سے متعلق آیتیں قرآن سے کم کردیں اور کچھ آیتیںبڑھا دیں۔ قرآن کے سارے نسخے جمع کئے اور نیا قرآن رائج کیا۔
یہ دعویٰ بچکانہ ہے۔سارے نسخوں کو جمع کرنا محال تھا ۔مسلمانوں کی تعداد لاکھوں سے زائد ہو چکی تھی مملکت اسلامی دور دور تک پھیلی تھی۔ پھر قرآن سینوں میں محفوظ تھا،قرآن کیا وہ تو فروع دین بھی نہیں بدل سکتا تھا؟ اگر یہی مقصد ہوتا تو یہ کام حجاج سے بہتر تو معاویہ کرسکتا تھا۔