تحریر: مولانا سید جاوید عباس مصطفوی،قم المقدس ایران
حوزہ نیوز ایجنسی। یہ جاننے کے لیے اعجاز قرآن یعنی قرآن معجزہ ہے سے کیا مراد ہے سب سے پہلے اس کے معنی و مفہوم کو لغت عرب میں دیکھانا پڑیگا کہ اس کے موجودہ معنیٰ کیا ہے، اعجاز کا لفظ عجز سے بنا ہے عرب یہ کہتے ہیں کہ اعجزت فلانا تو اس کے معنی ہوتے ہیں کہ میں نے فلان شخص کو عاجزو پریشان کر دیا، اگر میں آسان لفظوں میں کہوں تو اس طرح ہوگا کہ کسی معاملہ میں کسی کو بے بس و عاجز کر دینا ہے ،اس مفہوم کے اعتبار سے معنائے اعجاز قرآن یہ ہونگےکہ قرآن نے اپنی خوبیوں سے اپنے نہ ماننے والوں کو بے بس و عاجز کردیا۔
مگر جب اعجاز کا لفظ اصطلاح میں استعمال ہوتا ہے تو معنی ٰ کچھ اس طرح سے ہوتا ہے کہ کسی چیز کی ایسے خوبی جو خارق عادت ہو، یعنی جو عام طور سے نہ ہوتی ہو عام لوگوں میں نہ پائی جاتی ہو اور نہ عام لوگوں کےبس و اختیار میں ہو۔
گویا اعجاز قرآن سے مراد قرآن کے ایسے اوصاف و خوبیاں جو کسی اور کلام یا کتاب میں نہ پائی جاتی ہوں اور نہ کو ئی سعی و کوشش کرنے کے باوجود اپنے کلام اور کتاب میں پیدا کرسکتا ہو۔ یہی سبب ہے کہ قرآن کے نمایاں چیلنج کے باوجود کوئی بھی بشر اس کا مثل نہ لاسکا۔
حفاظت کا الہٖی نظام
۱۔قرآن کریم کا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ خود خالق قرآن نے اس کی محافظت کا ذمہ لیا ہے
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ(الحجر ایہ۹)
اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اس آیت میں دوقابل غور باتیں یہ ہیں کہ اس میں معنائے تاکیدی بہت زیادہ ہیں جو تین متکلم کی ضمیر اِنا ، نحن ، نزلنا ،کے ذریعہ سے ہو رہا ہے کہ اس ذکر کو ہم نے خود ہی نازل کیا ہے، دوسری بات جس پر نازل ہوا ہے وہ دیوانہ ہے تو سن لو یہ ایک ایسا ذکر ہے جس کے ہم خود محافظ ہیں۔ یہ ذکر دیوانہ پر نازل نہیں کیا ہے بلکہ کہ امین سینہ پر نازل کیا ہے جہاں اس کی پوری حفاظت ہوگی تم اسے قیامت تک مٹا نہ سکو گے۔
۲۔سورہ فصلت میں ارشاد رب العزت ہوا:
وَإِنَّهُ لَکِتَابٌ عَزِیزٌ
لَّا یَأْتِیهِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنزِیلٌ مِّنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ(ٖفصلت۴۲)
حالانکہ یہ معزز کتاب ہے، باطل نہ اس کے سامنے سےآسکتا ہےاور نہ پیچھےسے،یہ حکمت والا اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے
اس آیت دو قا بل توجہ باتیں ہیں ایک بالا گزری ہوئی بات سے مشابہ کہ جب خدا حفاظت کا ذمہ خود لے رہا ہے تو کیا اس کے بعد بھی کو ئی اس میں دست درازی کر سکتا ہے؟ جس کی وجہ سے کمی یا زیادتی کا شبہ ہو؟
(الف) لایاتیہ الباطل ،قرآن ،اسلام کی حقانیت کا ایک معجزہ ہے لہذاممکن نہیں کو ئی باطل قوت و طاقت اس کو بے اثر بنا کر اس کی معجزاتی حیثیت کو ختم کردے جس طرح انبیاء ؑ کے کسی معجزہ کو کوئی طاقت بے اثر نہ بنا سکی پھر چاہے نمرود و فرعون جیسا بڑا طاغوت ہی کیوں نہ ہو۔
(ب)چناچہ جب دیگر انبیاء علیہم السلام کے وقتی معجزہ محفوظ و غالب رہے تو تاجدار انبیا ءنبی آخرﷺ کا یہ ابدی معجزہ کیسے تحریف کی زد میں آسکتا ہے؟
(ث) رسول اللہﷺ کے دور میں سینکڑوں حافظ قرآن موجود تھے جو نزول آیات کے ساتھ ساتھ حفظ کر لیا کرتے تھے اور کاتبان وحی جن کی تعداد ۱۴سے ۴۰۰ تک بیان کی گئی ہے ۔ہڈی ،پتے اور چمڑےوغیرہ پر فورا تحریر کر لیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں تلاوت و قرائت ،عبادت کا اہم ترین جزء تھا جو شب و روز جاری رہتا تھا۔
۳۔ائمہ معصوم ؑ سےمنقول احادیث و روایات بھی قرآن کی عدم تحریف و محافظت پر تاکید و دلالت کرتی ہیں۔
(الف) مولائے کائناتؑ نے نہج البلاغہ میں اس طرح ارشاد فرمایا: وَ أَنْزَلَ عَلَيْكُمُ الْكِتَابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ وَ عَمَّرَ فِيكُمْ نَبِيَّهُ أَزْمَاناً حَتَّى أَكْمَلَ لَهُ وَ لَكُمْ فِيمَا أَنْزَلَ مِنْ كِتَابِهِ دِينَهُ الَّذِي رَضِيَ لِنَفْسِهِ(خطبہ ۸۶)
اس نے تمہاری طرف ایسی کتاب بھیجی ہے، جس میں ہر چیز کا کھلا کھلا بیان ہے اور اپنے نبی کو زندگی دے کر مدتوں تم میں رکھا۔یہاں تک اس نے اپنی اتاری ہوئی کتاب میں اپنے نبی کے لیے اور تمہارے لیے اس دین کو جو اسے پسند ہے کامل کردیا۔
نہج بلاغہ میں اور بھی بہت سے خطبات ہیں جس میں قرآن کریم پر بحث ہوئی ہے مگر کہیں سے کوئی بھی اشارہ و کنایہ نہیں ملتا جس سے قرآن کی تحریف ثابت ہو سکے بلکہ ہمارے چھٹےامام، امام صادق ؑاپنے شاگرد سے ان لوگوں کے بارے میں جو لوگ راہ حق سے منحرف ہوگئے ہیں ،فرماتے ہیں: وکان من نبذھم الکتاب ان اقاموا حروفہ و حرفوا حدودہ،( الوافی کتاب الصلوٰۃ ج ۱ ص ۱۸۵۔طبع قم)
کچھ لوگوں نے قرآن کو ترک کردیا ہے اور انھوں نے قرآن کے حروف اور اسکی عبارت کو محفوظ رکھامگر اس کے حدود یعنی معنی و مفاہیم میں تحریف کر چکے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی ہے ہاں اگر کہیں تحریف کی بات ہوئی بھی ہے تو اس سے معنوی و مفہومی تحریف مراد ہے جو تفسیر بالرائے کے ضمن میں ہے
ان سب احادیث میں سب سے اہم حدیث ،حدیث ثقلین ہے جو بے انتہا مشہور ہے جسے سنی شیعہ سبھی قبول کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي
میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت یعنی اہل بیتؑ اگر تم ان سے متمسک رہوگے تو ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔
یہ پر معنی حدیث قرآن کریم اور اہل بیتؑ کی قیامت تک کی معیت اورروز قیامت تک لوگوں کی ہدایت کا پر اطمینان سرچشمہ ہے ،اوریہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہی ہے کہ اگر قرآن کریم تحریف سے دوچار ہو جاتا تو امت کے لیے اطمینان بخش پناہ گاہ کیسے ہو سکتا تھا اور لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے کیونکر بچا سکتا تھا؟
علاوہ بر این قرآن ،ا سلام کا آئین و دستور حیات ہے جو مسلمانوں کی روز مرہ کی زندگی کے ہر پہلو میں شامل ہے لہذا عقل کافیصلہ بھی یہی ہےکہ اس قسم کی کتاب میں تحریف محال ہے۔
شیعہ و سنی کے بعض مؤلفین مثلا : مصر کے مشہور سنی عالم ابن خطیب مصری کی کتاب؛ الفرقان فی تحریف القرآن؛و شیعہ عالم محدث میرزا حسن نوری کی کتاب؛فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب؛ وجود میں آئی مگر سنی شیعہ علماء نے بر وقت اقدام کرکے اس کی تردید کا اظہار کیا۔
حال میں شیعہ اورسنی کے تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن میں حرف حتیٰ زبر زیر کا نہ اضافہ ہوا ہے نہ کمی بلکہ اپنی اصلی صورت میں باقی و محفوظ ہے۔
نسخہء اسرار تکوین حیات
بےثبات از قوتش گیردثبات
(یہ کتاب زندگی کے تکوین کے رازاں کاخزانہ ہےاسکی قوت سے بے ثبات بھی ثبات حاصل کر سکتے ہیں)
جاری۔۔۔۔۔