حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آیۃ اللہ العظمیٰ سبحانی نے جامعۃ المصطفی العالمیہ کے ستائیسویں قرآنی و حدیثی فیسٹیول کے موقع اپنے ایک پیغام میں قرآن کریم کو فیوض کا چشمہ قرار دیا ہے جو نزول کے زمانے سے لے کر آج تک جاری ہے ، اپنے صاف وشفاف پانی کے ساتگ مسلسل بہہ رہا ہے اور تشنگان معرفت کو سیراب کر رہا ہے۔
پیغام کا متن حسب ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
«إِنَّ هٰذَا القُرآنَ یَهدی لِلَّتی هِیَ أَقوَمُ وَیُبَشِّرُ المُؤمِنینَ الَّذینَ یَعمَلونَ الصّالِحاتِ أَنَّ لَهُم أَجرًا کَبیرًا»
قرآن کریم، حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ابدی معجزہ، خدا وند متعال کے لا متناہی علم کا ایک گوشہ ہے، جو ذاتی طور پر ایک خاص لامحدودیت کا حامل ہے، اس لیے اس میں ہر زمانے میں ترقی ہوتی رہی ہے اور اس میں جدتیں آتی رہی ہیں۔
قرآن وہ گہرا اور عمیق سمندر ہے کہ کہ جس کی عمق اور گہرائی تک کوئی طاقت اور قوت نہیں پہنچ سکتی اور فکر کے پرندوں نے اس کے ساحل پر ہی اپنا دم توڑ دیا، کیوں کہ قرآن مسلسل کاروان علم کے ساتھ رواں دواں تھا یا اس کے آگے قدم بڑھا رہا تھا۔
قرآن ایک دوسرے جہان کا نام ہے، جس میں فکر اور بصیرت جس قدر وسیع ہوتی ہے، اور اس پر جتنا زیادہ بحث کی جاتی ہے، اتنے ہی تازہ حقائق روشن ہوتے ہیں، اور ثمرات اتنے ہی زیادہ ہوتے ہیں، قرآن مجید خدا وند متعال کی لامحدود کتاب کا بنام ہے ، اور یہ کتاب سورج کے مانند لوگوں کی ہدایت کرتی ہے ۔
قرآن کریم فیوض کا ایسا چشمہ ہے جو نزول کے زمانے سے لے کر آج تک جاری ہے ، اپنے صاف وشفاف پانی کے ساتھ مسلسل بہہ رہا ہے اور تشنگان معرفت کو سیراب کر رہا ہے، اور اس خصوصیت کو ہمیشہ برقرار رکھے گا۔
"قرآن کی لامحدودیت"کی جانب اشارہ کرنے والے سب سے پہلے پیغمبر اسلام (ص) تھے، آپ نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ جس میں آپ نے قرآن کی تفصیل اور خاص طور پر قرآن کے اوصاف کے بارے میں فرمایا: «لاتحصی عجائبه و لا تُبلی غرائبه» ( اصوکافی، جلد ۲ ص ۵۹۹)۔
پیغمبر اسلام ؐ کی رحلت کے ساتھ ہی وحی الٰہی کا سلسلہ قطع ہو گیا لیکن وحی الہی سے استفادہ کا عمل ناقابل بیان طور پر شروع ہوا اور قرآن کو سمجھنے کے لیے کلیدی علوم کا ایک سلسلہ قائم ہوا ، جس کے نتیجے میں، اس کے معانی کی وضاحت کے لیے، تحریر کی دنیا میں ایک سلسلہ جاری ہو گیا۔
امام علی (ع) اس عظیم سمندر کے پہلے غواص تھے اور تفسیر کا علم امام کی ہی ایجاد ہےاور امام کے ہوشیار اور ذہین شاگرد عبداللہ ابن عباس تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے علی (ع) سے جو کچھ سیکھا تھا اسے مسلمانوں میں پھیلایا، جس طرح ابن عباس کے شاگرد سعید ابن جبیر (95 ہجری) قرآن کی تفسیر مرتب کرنے والے پہلے شخص تھے (فہرست ندیم 57)۔ اور اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں مختلف تفسیریں مختلف زبانوں میں لکھی اور شائع کی جا چکی ہیں۔ دنیا کے کتب خانوں میں موجود تفسیروں کے نسخوں کو اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو وہ خود ایک بہت بڑی لائبریری بن جائے گی۔
الحمد للہ، جامعۃ المصطفیٰ نے مختلف شعبوں میں قرآن پر مبنی سرگرمیاں انجام دے کر اس سمت میں اچھا قدم اٹھایا ہے اور مختلف قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے شرکاء کی موجودگی میں بین الاقوامی قرآن و حدیث فیسٹیول کا انعقاد کیا ہے۔
میں اس کانفرنس کے منتظمین اور قرآنی سرگرمیوں میں شامل تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، نیز اس سرزمین کی قرآنی اور علمی شخصیت کے طور پر حضرت آیت اللہ سید کاظم نورمفیدی دامت برکاتہم کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
امید ہے کہ قرآن کریم کی معطر آیات سے مستفید ہونا اور کلام الٰہی کے مقدس نور سے کسب ضیا کرنا ہر ایک کو نصیب ہو زندگی کا توشہ راہ قرار پائے۔
بمن اللّه و توفیقه.
جعفر سبحانی
قم، موسسه امام صادق(ع)