۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
قران مجید پر لگائے گئے کچھ بے بنیاد اعتراض اور الزام، پرحوزہ علمیہ نجف اشرف کے بعض طالب علموں کا جواب

حوزہ/ جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن فلاں یا فلاں نے جمع کیا تھا وہ اس آیت کی طرف متوجہ نہیں ہے اور قران کے ان فرامین سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اسلام ؐ  کا فریضہ تھا کہ وہ قرآن کو جمع کریں اور ظاہر ہے لوگوں کے سامنے صرف تلاوت یہ قرآن کو جمع کرنا نہیں ہے کیونکہ جمع کو تلاوت سے علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کو رسولؐ کے سینے میں جمع کرنا مقصود ہے کیونکہ رسول اسلام ؐ کے سینے میں نازل ہونا ہی اس کو سینے میں جمع کرنا ہے ۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نجف اشرف/ قران مجید پر لگائے  گئے کچھ بے بنیاد اعتراض اور الزام پر حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بعض طالب علموں نے جواب دیا ہے جسکا مکمل متن اس طرح ہے؛

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله الذي هدانا صراطاً سوياً والصلاة والسلام على مَن أرسله هدىً و رحمةً بكتابه المقدس هدىً للناس و على آله حَفَظَة الدين و كتاب الله العزيز واللعنة على أعدائهم أجمعين الى يوم الدين

مطلب نمبر ۱

ہم سب پر واضح ہونا چاہیے کہ خدا وند عالم نے قرآن کو جمع کرنے کا عہدہ ( ذمہ داری ) خود لیا ہے۔

فرمانِ الٰہی ہے لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ {16} إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ {17} فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ {18} ثُّمَ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ {19}‏سورة القيامة

( آپ قرآن کی تلاوت میں عجلت کے لئے زبان کو حرکت نہ دیں ،یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے جمع کریں اورپڑھیں  ،پھر جب ہم پڑھ لیں  تو آپ اس کی تلاوت کو دہرائیں ،پھر اس کے بعد اس کی وضاحت کرنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے )

جو یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن فلاں یا فلاں نے جمع کیا تھا وہ اس آیت کی طرف متوجہ نہیں ہے اور قران کے ان فرامین سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اسلام ؐ  کا فریضہ تھا کہ وہ قرآن کو جمع کریں اور ظاہر ہے لوگوں کے سامنے صرف تلاوت یہ قرآن کو جمع کرنا نہیں ہے کیونکہ جمع کو تلاوت سے علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور نہ ہی اس کو رسولؐ کے سینے میں جمع کرنا مقصود ہے کیونکہ رسول اسلام ؐ کے سینے میں نازل ہونا ہی اس کو سینے میں جمع کرنا ہے ۔

(العیاذ باللہ) کیا خدا نے وعدہ خلافی کی تھی؟ العیاذ باللہ کیا رسول ؐ نے حکم خدا کی پابندی نہیں کی اور قرآن مجید کو پرا گندہ چھوڑ گئے؟ 

خدا وند عالم نے قرآن مجید رسول اسلام ؐ پر اس لیے نازل کیا تھاکہ اس کے واسطے سے وہ  اپنی نبوت کو ثابت کریں  کیونکہ یہ معجزہ تھا ان دنوں میں بھی  جب وہ نازل ہو رہا تھا بلکہ ساری دنیا اور سارے آنے والے زمانے کے لیے معجزہ تھا ہے اور رہیگا تو اگر رسول اسلام ؐ  قرآن محفوظ اور جمع نہ کرتے العیاذ باللہ یہ  رسول ؐ کی جانب سے اپنی نبوت کی دلیل اور معجزے کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہےالعیاذ باللہ ۔  

اور قرآن مجید میں بھی کئی جگہ پر قرآن   کو کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے  اس کے لیے وہ سب آیتیں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے حکم خدا ہے ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ {2} سورة البقرة)  

 ( یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے. یہ صاحبانِ تقویٰ اور پرہیزگار لوگوں کے لئے مجسم ہدایت ہے)

اور ظاہر ہے کہ لفظ کتاب صرف زبانی باتیں کرنے  اور تلاوت پر صادق نہیں آتا  جب کوئی استاد شاگردوں کو درس یا لیکچر زبانی دیتا ہے اور و ہ اپنے شاگردوں  کے ذہنوں میں اپنا درس پہنچاتا ہے اور جو شاگردوں کے نفوس میں معنی ثبت ہوتے ہیں ان کو کتاب کہنا بالکل غلط ہے لہٰذا رسول ؐ کے ذریعے لوگوں کے سامنے قرآن کی تلاوت کو کتاب کہنا اور وہ جو سننے والوں کے ذہن میں آتا ہے اس کو کتاب کہنا غلط تصور ہے ۔

حدیث ثقلین جو متواتر ہے  اگرچہ اس حدیث کا آخری حصہ دو طریقے سے روایت ہوا ہے ،دوسرے طریقوں کو شیعوں کے علاوہ  لوگوں نے نقل کیا ہے  ۔

۱:۔ إنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ اَلثَّقَلَیْنِ کِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِی 

۲:۔ انی تارک (او مخلف) فیکم کتاب اللہ و سنتی ( غیر شیعوں نے اس طریقے سے بھی نقل کیا ہے)

 دونوں احادیث  میں ابتدائی جملے مشترک ہیں یعنی (تارک یا مخلف کتاب اللہ) ۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن   مجیدرسول اسلام ؐ کے زمانے میں لکھا ہوا تھا اس لکھے ہوئے کو ہی رسول ؐ نے  کتاب سے ہی  تعبیر فرمایا ۔پھر یہ کہنا کہ لوگوں کے ذھنوں میں جو تھا اور لوگوں کے سینوں میں تھا وہ کتاب ہے یہ بہت بڑا اشتباہ ہے ۔

لہٰذا ہم سب کا عقیدہ ہونا چاہیے کہ وہ قرآن جو رسول ؐ پر نازل ہوتا تھا اس کو اسی وقت لکھا جاتا تھا تا کہ وہ کتاب کی صورت میں ہو ۔لہٰذا حاکم نیشا پور نے مستدرک میں جس کو صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی شرائط کے تحت صحیح ثابت کیا ہے ۔

زید بن ثابت سے منقول ہے کہ  (کنا عند رسول اللہ نؤلف قرآن فی الرقاء ) 

(  ہم رسول ؐ کی خدمت  میں ہوتے تھے  اور جو بھی آیت یا کوئی  سورت نازل ہوتی  تھی اس کو کاغذوں پر لکھتے تھے )

 اس لیے بیہقی نے بھی اس کو نقل کیا ہے  جیسا کہ کتاب الاتقان میں ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جو مختلف آیات سورتوں میں نازل ہوتی  تھیں اس کو رسول ؐ کے حکم کے مطابق جمع کیا جاتا تھا اور لکھا جاتا تھا  اور اسی لیے  سنی شیعہ معتبر کتابوں میں ہے کہ جب قول خدا نازل ہوا إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ { سورة النحل 90}

( بیشک اللہ عدل ,احسان اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بدکاری ,ناشائستہ حرکات اور ظلم سے منع کرتا ہے کہ شاید تم اسی طرح نصیحت حاصل کرلو)

 تو رسول اللہ ؐ نے حکم فرمایا کہ اس آیت کو جہاں اب ہے وہاں ثبت کر دیا جائے ۔لہٰذا ان ساری وجوہات کی بناء پر یہ کہنا کہ رسول اسلام ؐنے قرآن کو پراگندہ چھوڑ دیا یہ بہت بڑا اشتباہ ہے ۔

اس بناء پر وہ روایتیں جن کا مفاد یہ ہے کہ فلاں نے یا فلاں نے جمع کیا  تھا اگر یہ روایتیں صحیح سند سے ثابت بھی  ہو جائیں تو اس کی تفسیر یوں کی جائے کہ رسول ؐ کے زمانے میں قرآن کا نسخہ مرتب کیا جا چکا تھا،  لوگ بعض آیتوں  اور سورتوں کو حفظ کرتے تھے اور اس کی تلاوت کرتے تھے اور اکثر شاید ننانوے  فیصد لوگ  لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے اور جو جانتے بھی تھے ان میں سے اکثر کتابت میں ماہر نہیں تھے وہ اپنی ناقص معرفت کی روشنی میں لکھتے تھے اس  لکھنے کو منع کیا گیا تھا تا کہ قرآن میں اختلافات  نہ ہو جائے ۔

مطلب نمبر ۲

قرآن معجزہ ہے اس کی ہر آیت معجزہ ہے ارشاد رب العزت ہے ’’ وَإِنْ کُنْتُمْ فِی رَیْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَکُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ﴿سورة البقرة  آیت ٢٣﴾ ‘‘ 

اگر تمہیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ہے جسے ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس کا جیسا ایک ہی سورہ لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جتنے تمہارے مددگار ہیں سب کو بلالو اگر تم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ہو۔ 

اور حروف کے عدد کے اعتبار سے چھوٹا سورہ سورہ کوثر ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اس چھوٹی سی سورت جیسی اور آیت بھی کوئی لکھ اور مرتب نہیں کر سکتا لہٰذا یہ کہنا کہ (العیاذ باللہ) شاید فلاں آیت قرآن سے نہیں ہے یہ قرآن کے معجزہ ہونے کو جھٹلانا ہے اور یہ خیال بد سارے مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے کیونکہ سارے مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ قرآن میں کوئی آیت قرآن کے باہر سے نہیں ہے  اس کا مطلب یہ ہوا کہ  جو آیت اب ہے وہ قرآن ہے اور اس جیسی آیت کو ئی لا نہیں سکتا ہے جو اس کا منکر ہے اس کو ہم  چیلنج کرتے ہیں قرآن کے چیلنج کی روشنی میں ایسی ایک آیت بنا کر دکھائیں بلکہ تمام جن و انس بھی جمع ہو جائیں تو ایک آیت جیسی بھی کوئی آیت نہیں لا سکتے جیسا کہ خدا نےارشاد  فرمایا ہے:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الإنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَاالْقُرْآنِ لا یَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِیرًا ﴿سورةالإسراء  آیت ٨٨﴾

( آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے چاہے سب ایک دوسرے کے مددگار اور پشت پناہ ہی کیوں نہ ہوجائیں)

مطلب نمبر ۳ 

گزشتہ انبیاء ؑ پر نازل ہونے والی مہم کتابیں تورات اور انجیل وہ اب تک محفوظ ہیں  جیسا کہ قران سے ثابت ہے جیسے وہ حضرت موسیٰ ؑ و حضرت عیسی ٰ ؑ پر نازل ہوئی تھیں  نہایت افسوس کی بات ہے اور کیسی بد خیالی ہے کہ کوئی خیال کرے کہ قرآن باقی نہیں ہے ۔

جیسا کہ قرآن کی مختلف آیات سے یہ ظاہر ہے کہ جب یہود و نصاریٰ نے قرآن کہ جو  خدا کی نازل کردہ کتاب ہے اس  کا انکار کیا ہے تو وہ اصلی کتاب  تورات و انجیل کو ظاہر نہیں کرتے تھے ان میں کچھ عبارتیں اپنے عقائد کے مطابق چھوٹے چھوٹے بیان کی صورت ظاہر کرتے تھے اور بقیہ مخفی رکھتے تھے ۔

ارشاد خدا وندی ہے ’’ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَیْءٍ قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْکِتَابَ الَّذِی جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُونَهُ قَرَاطِیسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ کَثِیرًا وَعُلِّمْتُمْ مَا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلا آبَاؤُکُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِی خَوْضِهِمْ یَلْعَبُونَ ﴿ سورة الانعام آیت ٩١﴾

( اور ان لوگوں نے واقعی خدا کی قدر نہیں کی جب کہ یہ کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ نہیں نازل کیا ہے تو ان سے پوچھئے کہ یہ کتاب جو موسٰی علیہ السّلام لے کر آئے تھے جو نور اور لوگوں کے لئے ہدایت تھی اور جسے تم  چند کاغذات بناکر  اور کچھ ظاہر کرتے ہو اور بیشتر کو چھپاتے ہو  حالانکہ اس کے ذریعہ تمہیں وہ سب بتادیا گیا تھا جو تمہارے باپ دادا کو بھی نہیں معلوم تھا یہ سب کس نے نازل کیا ہے اب آپ کہہ دیجئے کہ وہ وہی اللہ ہے اور پھر انہیں چھوڑ دیجئے یہ اپنی بکواس میں کھیلتے پھریں)

ہمارے بعض علماء نے تحقیق کی ہے وہ اصلی تورات و انجیل ان کے بڑے علماء کی پاس  اب بھی موجود ہے اور اپنی قوم کے عام لوگوں پر اسے  وہ ظاہر نہیں کرتے ہیں کیونکہ  اس میں رسول اللہ ؐ   کی بشارت ہے۔

 کس قدر افسو س کی بات ہے کہ کوئی مسلمان ہونے کے دعوی کے باوجود وہ قرآن جو رسول ؐ پر نازل ہوا تھا اس کی سالمیت کا منکر ہو ؟

مطلب نمبر ۴

عقلمند کا فریضہ ہے کہ قرآن کو سمجھنےکی صلاحیت اگر اس میں نہ ہو تو وہ قرآن کی کسی آیت کی تفسیر کی جرأت نہ کرے ۔علماء نے ان علوم کو اپنی کتابوں میں جوعلوم قرآن میں لکھی گئیں اور بعض مفسرین نے اپنی تفسیر کی ابتداء میں ان علوم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن علوم کی معرفت کے بغیر قرآن کی تفسیر ممکن نہیں ہے اور صحیح بھی نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ ان علوم کی معرفت کا معنی یہ نہیں ہے کہ ایک دو مقدمات کی کتابیں ان علوم میں پڑھ لی جائیں بلکہ ان تما م علوم میں وہ مجتہد ہو یعنی ہر علم میں وہ مدلل رائے کا مالک ہو ۔

اور ان علوم کی معرفت کے ساتھ ساتھ اگر کسی آیت یا کسی  جملے کی تفسیر کرنا چاہتا ہے تو قرآن کی تمام آیات  کو مد نظر رکھے اور مکمل  قرآن کی روشنی میں کسی آیت کی تفسیر کی جرات کرے ۔

جس موضوع کی طرف کچھ لوگوں نے اشارہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ العیاذ باللہ  بعض قرآنی آیات  دہشت گردی کی تائید کرتی ہے(العیاذ باللہ دہشت گردوں اور قتل و غارت کو بڑھاوا دیتی ہیں ) یہ دعوی قرآن کی واضح اور مفصل آیات سے دور ہٹ کر ایک جرأت ہے ۔

آج کل پیدا ہونے والے شبہات کے بے بنیاد ہونے کی وضاحت  کے لیے چند امور کی طرف اشارہ ضروری ہے ۔

۱ قرآن میں خدا وند عالم نے انسان کو بلکہ جنوں کو بھی خدا پر ایمان  لانےکی دعوت دی ہے اور اس کی طرف متوجہ بھی  کیا ہے اس لیے کسی کو یہ جرأت نہ ہو کہ اسلام تلوار یا اقتصادی دباؤ سے پھیلا ہے قرآن کی بعض آیات کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں ۔

خدا وند عالم نے فرمایا ہے قُلْ یَا أَیُّهَا الْکَافِرُونَ ﴿١﴾ لا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلا أَنَا عَابِدٌ مَا عَبَدْتُمْ ﴿٤﴾ وَلا أَنْتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ ﴿ سورة الکافرون۔٦﴾

( آپ کہہ دیجئے کہ اے کافرو میں اسکی عبادت نہیں کرسکتا جن کی تم پوجا کرتے ہو اور نہ تم میرے خدا کی عبادت کرنے والے ہو اور نہ میں تمہارے معبودوں کو پوجا کرنے والا ہوں اور نہ تم میرے معبود کے عبادت گزار ہو تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے)

اس میں صاف ظاہر ہے کہ قرآن نے کسی کافر کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے کیونکہ ارشاد خدا وند متعال  ہے   لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ ﴿ سورة الکافرون۔٦﴾

تمہارے لئے تمہارا دین ہےجس کو تم نے اختیار کیا ہے  اور میرے لئے میرا دین ہے اور جو حق  ہے 

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے ’’ لا إِکْرَاهَ فِی الدِّینِ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ﴿سورة البقرة  سورة البقرة  آیت ٢٥٦﴾

ان آیات کے جملوں کی طرف غور کریں تو  صاحب انصاف کو یقین ہو جائے گا کہ کسی کو طاقت کے بَل پر یا مجبور کر کے مومن نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ دین ایک نفس اور دل کاعمل ہے کیونکہ وہ عقیدہ ہے اگرچہ کوئی زبان سے اقرار بھی کرلے تو اس سے دین اس کے دل میں اترنے اور ثابت ہونے پر دلیل نہیں ہے(اگرچہ اس پر اسلام کے ظاہری احکام جاری ہونگے) ۔گویا کہ خدا نے فرمایا کہ دین وہ حقیقت ہے کہ جس پر کسی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا انسان کو ظاہری اعمال پر مجبور تو کیا جا سکتا ہے لیکن عقیدے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔( قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ) رسول اسلامؐ  کی ہدایت اور معجزات کی روشنی میں گمراہی اور رستگاری ایک دوسرے سے امتیاز اور ایک دوسرے سے الگ ہے گویا کہ ہر عقلمند کے سامنے دونوں راستے واضح ہو گئے ہیں ۔( فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ) جو معصیت اور گمراہی میں حد سے گزر گئے ہیں ان کو جھٹلائے اور ان کی پیروی سے دور رہے (وَیُؤْمِنْ بِاللَّهِ) اور صرف خدا پر ایمان لائے (فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى) اس نے ہدایت کی پکی رسی کو تھام لیا ہے اور دین کے صحیح راستے کا پابند ہو گیا ہے  جس کی برکت سے ہر قسم کی لغزش اور گمراہی سے دور رہیگا ۔اور یہ وہ راہ ہے جو درست  اور سیدھی ہے ،یہ وہ رسی ہے کہ جو بہت مضبوط ہے اور یہ کبھی ٹوٹنے والی نہیں ہے یعنی اس کو پکڑنے والا ،اس پر بھروسہ کرنے والا کبھی کسی ظلمت میں نہیں گرے گا اور خدا ہر بات کو سنتا ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے ۔

لہٰذا وہ جو دل سے  دیندار  نہیں ہو گا خدا اس کو بھی جانتا ہے جو صحیح دیندار ہو گا اور اعمال بھی بجا لائے گا اس کا کردار  بھی خدا سے مخفی نہیں ہے اور خدا اس کو ضائع نہیں ہونے دے گا  ۔

۲ ارشاد خدا وندی ہے ( وَمَنْ یَبْتَغِ غَیْرَ الإسْلامِ دِینًا فَلَنْ یُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِی الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِینَ ﴿ سورة آل عمران  آیت ٨٥﴾

(جو اپنی رغبت سے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کو اختیار کرے گا تو خدا اس سے وہ قبول نہیں کرے گا اور قیامت کے دن اس کے لیے نقصان اور رسوائی کا سبب بنے گا )

صاحبانِ عقل و خرد  اور قرآن کی معرفت رکھنے والوں پر وہ آیتیں مخفی نہیں ہوں گی کہ جو اس معنی کی طرف سے ہدایت (رہنمائی ) کرتی ہیں ۔لہٰذا یہ کہنا کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے اسلام  پر لوگوں کو مجبور کیا گیا ہے یہ باتیں نہایت بے بنیاد ہیں ۔

۳ رسول اسلام ؐنے دین کو مکمل  اخلاق اور محبت اور اس کے  اظہار کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کیا تھا اگر کوئی مہمان  آتا تھا اور  کسی ایسی جگہ پر بیٹھ جاتا تھا کہ جہاں اس کے بیٹھنے کی مناسب جگہ نہیں ہوتی تھی تو  رسول اسلامؐ اپنی عبا کو اتار کر بچھا دیتے تھے خواہ وہ مہمان مسلمان ہویا کافر ہو ۔

اور رسول اسلامؐ  کو یہ اخلاق خدا کی خصوصی تربیت سے حاصل ہوا تھا حدیث ہے (أدبنی ربی و أحسن تربیتی،  خداوند عالم نے مجھے عمدہ تربیت  سے نوازا ہے )

اور خدا وند عالم نے آپ کے عمدہ اخلاق کے حامل ہونے پر تاکید فرمائی ہے  اور گواہی  دی ہے (وَإِنَّکَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِیمٍ ﴿  سورة القلم آیت  ٤﴾

(اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر ہیں) 

بے شک آپ عمدہ اخلاق کے حامل ہیں رسول اسلام ؐ نے اسی اخلاق کو اپنے عمل کا راستہ بنایا ہے ۔

لیکن اس کے مقابل میں ان کے مخالفین خصوصا مشرکین مکہ نے بہت سی بد اخلاقی ،بے راہ روی کو اپنایا تھا اور اپنے عمدہ عربی عادات سے بھی دور ہو گئے تھے رسول اسلام ؐکے ساتھ تعاملات میں دور ہو گئے تھے رسول اسلام ؐ پر پتھر مارنا پہلا پتھر آپ کی پیشانی پر بد بخت چچا ابو لہب کے ہاتھ   سےلگا تھا اور یہ اس کی جسارت  تھی مشرکین کے ہاتھ مشرکین کا ظلم ، اقتصادی پابندی اور مسلمانوں  پر ان کے ظلم و ستم اور انہیں  اپنے مال و تجارت سے محروم کرنا یہ مشرکین مکہ کا شیوہ بن گیا تھا ۔

جناب عمار ؓ  کے والدین پر جو ظلم ہوا اور ان کو ظلم کے ساتھ قتل کیا گیا اور اکثر مسلمانوں کو مجبور کر دیا  گیا کہ وہ مکہ کو چھوڑ کر حبشہ یا کسی اور جگہ چلے جائیں  ۔

حالانکہ اسلام بابانگ دہل  کہہ رہا ہے  ۔ لا إِکْرَاهَ فِی الدِّینِ ترجمہ:۔ دین میں کسی طرح کا جبر نہیں ہے۔

(جب رسول اسلامؐ  گھر سے نکلتے تھے تو راستوں پر مشرکین بچوں کو جمع کر کے پتھر سے حملہ کرواتے تھے اور ہر عقلمند بالغ انسان خصوصا عمدہ عربی صفات کا حامل انسان  بچوں کے ساتھ لڑنا اپنے لیے بے عزتی سمجھتا تھا ) رسول اکرم ؐ جب زخمی ہو جاتے تھے تو کوشش فرماتے تھے کہ خون کا کوئی قطرہ زمین پر نہ گرے تا کہ خدا ئی عذاب ان پر جلدی نازل نہ ہو ۔اور ان کو اسلام کے سمجھنے کی مہلت دی جائے اور پھر ان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے اور ان مظالم سے بچنے کے لیے رسول اسلام ؐ نے مکے سے مسلمانوں کو حبشے کی طرف ہجرت کی اجازت دی مکے سے اور خود بھی مکے کو چھوڑ کر مدینے کی طرف متوجہ ہو گئے ۔

(جب خدا وند عالم نے مسلمانوں کے عدد میں قوت عطاء کی تو مسلمانوں کی اقتصادی تنگی کے سبب رسول اسلام ؐ نے حکم خدا سے مشرکوں کے باہر سے آنے والی تجارتی قافلے  (کہ جس کا سردار ابو سفیان  تھا ) پر  حملہ کر کے اپنے اور مسلمانوں کے کھوئے ہوئے مال و اسباب کو واپس لینے کے لیے نکلے ) ابو سفیان کو کسی طرح(شاید یہودیوں نے کہ جو مدینے  میں تھے)پتہ چل گیا کہ اس نے اہل مکہ  کہ جن کی تجارت کے مال ان کے پاس تھے اپنی  مدد کے لیے ان کو اکسایا اور تقریبا ایک ہزار مشرکین ،بہادر ،جنگجوؤں  کو لے کر اپنے مال و اسباب کی حفاظت کے لیے نکلے اور ابو سفیان نے وہ راستہ جو اکثر قافلے اختیار کرتے تھے  اس کو چھوڑ کر وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلتا ہوا بھاگ گیا ابو سفیان نے ایک ہزار مشرکوں سے کہا کہ تم واپس آ جاؤ میں مسلمانوں کے گرفت سے دور ہو گیا ہوں لیکن ان مشرکوں نے رسول ؐ کے ساتھ جنگ کا بازار گرم کیا اور نتیجتا جنگ بدر ہوئی یہ  خدا  کی مدد اور بہادر و مخلص مسلمانوں کی جاں فشانی تھی کہ مسلمان  جو  عدد میں صرف (تین سو تیرہ) 313 تھے اور مشرک ایک ہزار سے زیادہ تھے خدا نے مسلمانوں کو  ان پر فتح دی ۔اس طرح رسول ؐ کی یہ پہلی جنگ بھی دفاعی تھی اس کے بعد مشرکوں نے مدینے پر حملہ کیا ۔جنگ اُحد پیش آئی جس میں بعض ضعیف العقیدہ ضعیف الدین مسلمانوں کی جنگی خیانت کے سبب بہت سارے مسلمان شہید ہو گئے لیکن خدا نے اپنے نبیؐ اور مخلص مومنین کی حفاظت فرمائی اس کے بعد ضعیف العقیدہ مسلمان جنگ کی طرف مائل  نہیں ہوتے تھے خدا وند عالم نے مسلمانوں کو جنگ کی رغبت دینے کے لیے فرمایا: أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا أَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ﴿ سورة التوبه  آیت ١٣﴾

(کیا تم اس قوم سے جہاد نہ کروگے جس نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور رسول کو وطن سے نکال دیاہے اور تمہارے مقابلہ میں مظالم کی پہل بھی کی ہے -کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم صاحب  ایمان ہو )

اور دیگر مقام پر بھی ارشاد خدا وندی ہے ۔ (وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ﴿ سورة آل عمران ١٢٣﴾

( اور اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی ہے جب کہ تم کمزور تھے لہذا اللہ سے ڈرو شاید تم شکر گزار بن جاؤ)(  شاید خدا  کے  شکر کی تمہیں توفیق حاصل ہو اور جو خدا کا شکر کرتا ہے  خدا اسے زیادہ نعمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے )

گزشتہ آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ظلم کی ابتداء مشرکوں اور کافروں سے ہوئی تھی وَهُمْ بَدَءُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ﴿ سورة التوبه  آیت ١٣﴾

(اور تمہارے مقابلہ میں مظالم کی پہل بھی کی ہے -کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم صاحب ه ایمان ہو )

لہٰذا وہ تمام آیتیں جو مسلمانوں کو کافروں پر سختی کی رغبت دلاتی ہیں ان سب آیتوں کا جواب یہ ہے کہ ان تمام مصیبتوں کی بنیاد کافر اور مشرک تھے ان کافروں کے محور مشرکین مکہ تھے رسول اسلام ؐ نے مدینے میں رہنے والے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ رسول ؐ سے جنگ نہیں کریں گے مسلمانوں کو اذیت نہیں دیں گے اور مسلمانوں کے دشمنوں کی مدد بھی  نہیں کریں گے اور رسول ؐ  نے ان کو مدینے میں آزادی سے زندگی بسر کرنے کی اجازت دی لیکن ان یہودیوں نے خیانت کی ان کے دونوں قبیلوں کے سربراہ (بنی نویر اور قینقاع) اور ابو سفیان و دیگر مشرکین کے ساتھ مل گئے اور پھر جنگ خندق ہوئی پھر رسول ؐ کو خدا نے نصرت سے نوازا اور مشرکوں کے سب سے مہم بہادر(عمر بن عبدود و عامری اور اس کے دو ساتھیوں کہ جو خندق کو عبور کرکے رسول ؐ  کے لشکر کے سامنے آگئے  تھے  کو حضرت امیر المومنین ؑ کی تلوار سے جہنم میں پہنچایا اور ابو سفیان  اپنے ساتھیوں کو رسوائی  کے ساتھ لے کر واپس مکہ چلا گیا ۔

تو رسول اسلام ؐ نے یہودیوں کو سزا دی کہ انہوں نے خیانت اور جرم کا ارتکاب کیا  ہے۔

لہٰذا وہ تمام آیتیں جو مومنین کو کفا رکے مقابل جنگ کی رغبت دلاتی ہیں ان آیتوں کو سمجھنے کے لیے گزشتہ مختصر بیان کی طرف توجہ رہے یعنی یہ سب کچھ خدا کی طرف سے مومنین کو اپنی جان و مال و ناموس کی حفاظت کی رغبت کے لیے یہ آیات نازل ہوئیں ۔

اصل مقصد کی وضاحت

وہ آیتیں کہ جن سے کچھ لوگوں  نے یہ سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن مسلمانوں کو کافروں اور مشرکوں کو مارنے اور تباہ کرنے کا حکم دیتا ہے ہم اس  بغیر وجہ کےالزام  اور اعتراض کے ازالے کے لیے مختصر مقدمہ پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔

ہر عقلمند پر واضح ہے کہ انسان تمام مخلوقات پر اپنی عقل اور فطری تقاضوں کی رو سے افضل ہے اور پوری کائنات پر یہ اپنے مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کی طاقت رکھتا ہے کائنات خواہ وہ زمین و آسمان و ستارے ہوں یا نباتات ہو ں یا حیوانات ہو۔حیوانات مألوف ہوں یا درندے انسان اپنی عقلی طاقت اور تدبیر کے ساتھ ان سب سے اپنا فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور کر رہا ہے اس لیے انسان کو اشرف المخلوقات سمجھا جاتا ہے اور ایساہی ہے اور اس کی طرف خدا نے اشارہ فرمایا ہے ( وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلا ﴿ سورة الإسراء  آیت ٧٠﴾ 

(اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں کی طاقت دی ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات پر بہت سی  فضیلت دی ہے)۔

لیکن بعض لوگ اپنی بے وقوفی کے سبب اس عزت کو کھو بیٹھتے ہیں اور وہ مخلوقات کہ جس سے وہ افضل ہے جن کو اپنی خدمت میں لے سکتا ہے یا ان سے خدمت لے رہا ہے ان کو خدا سمجھتا ہے ان کی عبادتیں اپنے اپنے طریقے سے کرتا ہے خدا وند عالم کی قدرت کاملہ اور وسعت رحمت بھی یہ گوارہ نہیں کرتی کہ انسان جو اشرف المخلوق ہے وہ ایسی ذلتوں میں زندگی بسر کرے اس لیے اس نے انبیاء و رسولوں ؐ کو ارسال فرمایا اور ان کے سینوں میں نظام حیات کو لوگوں تک بار بار پہنچایا اور اس کا آخری مرحلہ محمد بن عبد اللہ ؐتھے ۔

رسول اسلام ؐ نے اپنے خدا داد وظیفے پر عمل شروع کیا اور اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے سجدے کرنے سے لوگوں کو منع کیا اور اس ذلت سے دور کرنے کی ہر چند کوشش کی بجائے اس کے کہ  لوگ ان سے مفاہمت کرتے، ان کی اتباع کرتے  ان کو جھٹلانا شروع کیا اور ان کو پتھر مارنا شروع کیا اور جو رسول اللہ ؐ  کی تابعداری کرتے تھے ان کو پتھر مارنا شروع کیا  ان کی جائیدادیں چھیننے لگے  وغیرہ وغیرہ  مظالم شروع کر دئیے ۔

آیا یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ اشرف المخلوقات انسان کسی لکڑی ،پتھر یا پلاسٹک ،انسان یا کسی حیوان کی شکل کا بت بناتا ہے اور اس کو سجدہ کرتا ہے اور جو اس کام سے منع کرے اس سے جنگ کرتا ہے  

خدا کی رحمت کا تقاضہ ہے اور رہے گا کہ اشرف المخلوقات بشر کو اس ذلت سے دور کرے اور رکھے خدا وند عالم کا ارشادہے  ’’ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لا یَعْلَمُونَ ﴿ سورة المنافقون  آیت ٨﴾ 

(ساری عزت اللہ , رسولؐ اور صاحبان ایمان کے لئے ہے اور یہ منافقین یہ جانتے بھی نہیں ہیں)

اس مختصر سے مقدمے کے بعد ہم ان آیتوں پر توجہ کرتے ہیں کہ جن آیات سے کچھ لوگوں نے یہ خیال بد کیا ہے کہ (العیاذ باللہ ) وہ قران کی آیتیں نہیں ہیں اور  ( العیاذ باللہ ) دہشت گردی  اور ظلم اور تشدد کی طرف لوگوں کو  ابھارتی ہیں العیاذ باللہ  ۔

۱ فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴿ سورة التوبه آیت ٥﴾

(پھر جب یہ محترم مہینے گزر جائیں تو کفاّر کو جہاں پاؤ قتل کرو اور گرفت میں لے لو اور قید کرو اور ہر راستہ اور گزر گاہ پر ان کے لئے بیٹھ جاؤ اور راستہ تنگ کردو -پھر اگر توبہ کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃادا کریں تو ان کو چھوڑ دو کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)

اگرصرف اس آیت کو قرآن کی باقی آیات سے علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو شاید کوئی اس آیت کو دہشت گردی  یا ظلم اور تشدد کی دلیل سمجھنے کی غلطی کر سکتاہے لیکن پہلے والی آیت کی طرف توجہ  ضروری ہے ۔ ارشاد خدا وندی ہے (إِلا الَّذِینَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِکِینَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوکُمْ شَیْئًا وَلَمْ یُظَاهِرُوا عَلَیْکُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ ﴿ سورة التوبه آیت  ٤﴾

(علاوہ ان افراد کے جن سے تم مسلمانوں نے معاہدہ کررکھا ہے اور انہوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی ہے اور تمہارے خلاف کسی کی مدد نہیں کی ہے تو جو مدّت طے کی ہے اس وقت تک عہد کو پورا کرو کہ خدا تقویٰ اختیار کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے)

معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین سے عہد و پیمان ہوا تھا کہ وہ ان  عہد و پیمان کی وہ  شرائط جن کا آیت میں اشارہ ہے کی پابندی کریں گے تو ہم بھی عہد کی پابندی کریں گے اور اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ ( فَإِذَا انْسَلَخَ الأشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّکَاةَ فَخَلُّوا سَبِیلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴿ سورة التوبه آیت  ٥﴾

وہ اس کے ذیل میں ہے (فَإِنْ تَابُوا )  وہ عہد شکنی سے توبہ کریں یا اسلام کی طرف آجائیں تو ان کو آزاد چھوڑ دو ۔

لہٰذا اس آیت سے مراد وہ مشرکین ہیں جو عہد کی پابندی نہیں کرتے عہد شکنی اور شرک سے بھی  توبہ نہیں کر تے اور اسلام کو بھی قبول نہیں کیا  تھا ۔

ہم اس آیت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں (أَلا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَکَثُوا أَیْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ﴿ سورة التوبه  آیت ١٣﴾

(کیا تم اس قوم سے جہاد نہ کروگے جس نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے اور رسول کو وطن سے نکال دیاہے اور تمہارے مقابلہ میں مظالم کی پہل بھی کی ہے -کیا تم ان سے ڈرتے ہو تو خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم صاحب  ایمان ہو )

ابتداء مشرکوں سے ہوئی تھی کیا مشرکوں کے سامنے ذلیل ہونا ان کے ہر ظلم کو برداشت کرنا عقلمندی ہے ؟

۲ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ﴿ سورة التوبه  آیت ٢٨﴾

یہ آیت ان آیات کے بعد آئی ہے کہ جن آیات میں مشرکین سے بہت ساری جنگیں ہو چکی تھیں خصوصا جنگ حنین جب خدا وند عالم نے مسلمانوں کو فتح دی اور سب کو پتہ ہے کہ حنین  کی جنگ مشرکوں کی طرف سے رسول ؐ اور اصحاب رسولؐ  پر حملے کے سبب ہوئی تھی کہ جزیرہ عرب میں رہنے والے تمام مشرک رسولؐ  اور ان کے پیروکاروں کو تباہ کرنے پر اتر آئے تھے تو ایسے حالات میں مسلمانوں کو ان کے ساتھ جنگ کے لیے تیار کرنے کے لیے یہ آیت نازل ہوئی تھی ۔

یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ﴿ سورة التوبه  آیت ٢٨﴾ 

( ایمان والو !مشرکین نجس ہیں لہذا خبردار اس سال کے بعد مسجدالحرام میں داخل نہ ہونے پائیں اور اگر تمہیں غربت کا خوف ہے تو عنقریب خدا چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے تمہیں غنی بنادے گا کہ وہ صاحب علم بھی ہے اور صاحب حکمت بھی ہے)

اور اس کے بعد والی آیت قَاتِلُوا الَّذِینَ لا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴿ سورة التوبه  آیت ٢٩﴾ 

اس آیت میں لفظ  قاتلو ا استعمال ہوا ہے جو باب مفاعَلہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جوتم سے جنگ کرتے ہیں ان سے جنگ کرو ۔(جنگ کا حکم اس میں بھی ان کی جانب سے شروع کی جانے والی جنگ کے دفاع میں ہے ۔

 ۳ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الأرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ یَفْتِنَکُمُ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنَّ الْکَافِرِینَ کَانُوا لَکُمْ عَدُوًّا مُبِینًا ﴿ سورة النساء آیت ١٠١﴾

( اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لئے کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی نمازیں قصر کردو اگر تمہیں کفار کے حملہ کردینے کا خوف ہے کہ کفار تمہارے لئے کھلے اور واضح دشمن ہیں )

اس آیت کو کہ  جو میدان جنگ میں نماز کے ادا کرنے کے طریقے کی طرف اشارہ کرتی  ہے اس کو یہ تصور کرنا کہ یہ غیر مسلم کو قتل کرنے پر اکساتی ہے بہت ہی غیر مناسب ہے ۔

۴ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِینَ یَلُونَکُمْ مِنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوا فِیکُمْ غِلْظَةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِینَ ﴿ سورة التوبه  آیت ١٢٣﴾

(  ایمان والو اپنے آس پاس والے کفار سے جہاد کرو اور وہ تم میں سختی اور طاقت کا احساس کریں اور یاد رکھو کہ اللہ صرف پرہیز گار افراد کے ساتھ ہے )

اس آیت کو بھی دہشت گردی سے جوڑنا نہایت ہی  غیر مناسب اور عدم معرفت کا نتیجہ ہے کیونکہ اس میں لفظ ’’ قَاتِلُوا ‘‘ استعمال ہوا ہے کہ جو باب مفاعلہ ہے یعنی جو تم سے جنگ کرتے ہیں ان سے جنگ کرو ۔

۵ إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِآیَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِیهِمْ نَارًا کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَیْرَهَا لِیَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَزِیزًا حَکِیمًا ﴿ سورة النساء آیت ٥٦﴾ 

(بیشک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے ہم انہیں آگ میں بھون دیں گے اور جب ایک کھال پک جائے گی تو دوسری بدل دیں گے تاکہ عذاب کا مزہ چکھتے رہیں خدا سب پر غالب اور صاحبِ حکمت ہے )

اس آیت کو کہ جو قیامت کے حساب و کتاب کے بعد خدا کے قوانین کے منکرین کی سزا کو بیان کرتی ہے اس کو دہشت گردی  کے ساتھ جوڑنا نہایت ہی تعجب کی بات ہے ۔

 ۶ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا آبَاءَکُمْ وَإِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَى الإیمَانِ وَمَنْ یَتَوَلَّهُمْ مِنْکُمْ فَأُولَئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿ سورة التوبه  آیت ٢٣﴾

(ایمان والو خبردار اپنے باپ دادا اور بھائیوں کو اپنا دوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو دوست رکھتے ہوں اور جو شخص بھی ایسے لوگوں کو اپنا دوست بنائے گا وہ ظالموں میں شمار ہوگا )

یہ آیت مومنین کو اپنی عزت کی حفاظت کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ وہ لوگ جو کفر کو پسند کرتے ہیں اور تمہاری مخالفت اور دشمنی  کا اعلان کرتے ہیں ان کی دوستی کو پسند نہ کرو اور جو ایسا کرے گا وہ ظالم ہے ۔

اس آیت کا  مختصر مفاد یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے ۔

۷ إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَةٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِهِ الَّذِینَ کَفَرُوا یُحِلُّونَهُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَهُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّهُ زُیِّنَ لَهُمْ سُوءُ أَعْمَالِهِمْ وَاللَّهُ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ ﴿ سورة التوبه  آیت ٣٧﴾

(محترم مہینوں میں تقدیم و تاخیر کفر میں ایک قسم کی زیادتی ہے جس کے ذریعہ کفاّر کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ وہ ایک سال اسے حلال بنالیتے ہیں اور دوسرے سال حرام کردیتے ہیں تاکہ اتنی تعداد برابر ہوجائے جتنی خدا نے حرام کی ہے اور حرام خدا حلال بھی ہوجائے -ان کے بدترین اعمال کو ان کی نگاہ میں آراستہ کردیا گیا ہے اور اللہ کافر قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے )

اس آیت کوبھی  دہشت گردی  کے ساتھ جوڑنا بہت بڑی غلط فہمی ہے یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ وہ مہینے جن کو جاہلیت میں بھی حرمت والا سمجھا جاتا تھا اور اس میں جنگ و جدال نہیں ہوتی تھی اور عقلمند اگر اپنے باپ بیٹے کے قاتل کو بھی دیکھتا تھا تو قتل نہیں کرتا تھا حرمت والے مہینے میں جنگ کرتے اور اس کی جگہ کسی اور مہینے کو حرمت والا بتاتے تھے۔

یہ آیت  ان کافروں کی بد بختی کی طرف اشارہ ہے اور یہ  ان کی مذمت میں وارد ہوئی ہے ۔

۸ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الَّذِینَ اتَّخَذُوا دِینَکُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ أَوْلِیَاءَ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ﴿ سورة المائدة آیت ٥٧﴾

( ایمان والو خبردار اہل کتاب میں جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تماشہ بنالیا ہے اور دیگر کفار کو بھی اپنا ولی اور سرپرست نہ بنانا اور اللہ سے ڈرتے رہنا اگر تم واقعی صاحب ایمان ہو )

اس آیت کو بھی دہشت گردی کی طرف رغبت دلانے والی آیت سمجھنا بہت بڑی غلط فہمی  اور نادانی ہے اس آیت کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ لوگ جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اس کو تمہارے ساتھ کھیلنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں ان کو اپنا دوست نہ بناو اور ظاہر کہ جو ہمارے دین کا مذاق اڑائے گا اس کو کھیل سمجھے گا اس کے ساتھ دوستی کا مظاہرہ اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے اور مومن کے لیے اپنے آپ کو ذلیل کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ارشاد خدا وندی ہے ۔ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِینَ لا یَعْلَمُونَ ﴿ سورة المنافقون  آیت ٨﴾ 

( ساری عزت اللہ , رسولؐ اور صاحبان ایمان کے لئے ہے اور یہ منافقین جانتے بھی نہیں ہیں )

۹ مَلْعُونِینَ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلا ﴿ سورة الأحزاب آیت ٦١﴾ 

( یہ لعنت کے مارے ہوئے ہوں گے کہ جہاں مل جائیں گرفتار کرلئے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں)

یہ آیت بھی  دہشت گردی کے وہم و گمان  سے  بہت دور ہے کیونکہ اس سے پہلے والی  آیت میں منافقین کی سازشوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور ان منافقوں اور سازش اور بغاوت کرنے والوں کے لیے  یہ حکم ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے ۔

۱۰ إِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ ﴿سورة الأنبیاء آیت ٩٨ ﴾

(یاد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چیزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنمّ  کا ایندھن بنایا جائے گا اور تم سب اسی میں وارد ہونے والے ہو )

اس آیت کو بھی  دہشت گردی یا جنگ و جدال کی طرف کھینچنا بہت بڑا اشتباہ ہے کیونکہ یہ  آیت  ان لوگوں کی مذمت میں وارد ہوئی ہے جو خدا وند عالم کے علاوہ پرستش کرتے ہیں ان کو جہنم کی آگ سے ڈرانے کے لیے یہ آیت  نازل ہوئی ہے ۔

۱۱ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاهُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ أَکِنَّةً أَنْ یَفْقَهُوهُ وَفِی آذَانِهِمْ وَقْرًا وَإِنْ تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَى فَلَنْ یَهْتَدُوا إِذًا أَبَدًا ﴿سورة الکهف آیت  ٥٧﴾

( اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جسے آیات الٰہیہ( خدا  کی طرف سے ہدایت کی نشانیوں ) کی یاد دلائی جائے اور پھر وہ   اس سےروگردانی کرے اور اپنے سابقہ اعمال کو بھول جائے ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیئے ہیں کہ یہ حق کو سمجھ سکیں اور ان کے کانوں میں بہراپن ہے اور اگر آپ انہیں ہدایت کی طرف بلائیں گے بھی تو یہ ہرگز ہدایت حاصل نہ کریں گے )

یہ آیت بھی ان لوگوں کو جو  دین اسلام سے منہ موڑتے ہیں اور خدائی ہدایت کی طرف متوجہ نہیں ہوتے  ان کو قیامت کے عذاب کی دھمکی دی گئی ہے کہ خدا قیامت میں ان سے انتقام لے گا۔

۱۲ وَعَدَکُمُ اللَّهُ مَغَانِمَ کَثِیرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَکُمْ هَذِهِ وَکَفَّ أَیْدِیَ النَّاسِ عَنْکُمْ وَلِتَکُونَ آیَةً لِلْمُؤْمِنِینَ وَیَهْدِیَکُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِیمًا ﴿ سورة الفتح آیت٢٠﴾

( اس نے تم سے بہت سے فوائد کا وعدہ کیا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے پھر اس غنیمت کو فورا عطا کردیا اور لوگوں کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا اور تاکہ یہ صاحبانِ ایمان کے لئے ایک قدرت کی نشانی بنے اور وہ تمہیں سیدھے راستہ کی ہدایت دے )

اس آیت کو بھی دہشت گردی کے ساتھ جوڑنا بہت بڑا اشتباہ ہے کیونکہ یہ آیت ان مجاہدین کو جو فتح یاب ہوئے تھے اور ان کو جو مال غنیمت ملا تھا اس میں اسی  نعمت کا تذکرہ ہے اور ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ کی تمام جنگیں دفاعی تھیں ۔

 ۱۳ فَکُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالا طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ ﴿سورة الأنفال آیت  ٦٩﴾

(  پس اب جو مال غنیمت حاصل کرلیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال اور پاکیزہ ہے اور تقوٰی الٰہی اختیار کرو کہ اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے) 

یہ آیت مبارکہ ظالموں کے ساتھ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی فتح کے بعد حاصل ہونے والےمال کے استعمال کو  حلال کا حکم بتاتی ہے۔

۱۴ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ وَاغْلُظْ عَلَیْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیرُ ﴿ سورة التوبه  آیت ٧٣﴾ 

(پیغمبر !کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جہنّم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے)

اس آیت میں رسول ؐ کو منافقین کے ساتھ جہاد کا حکم دیا گیا ہے اور یہ باب مفاعَلہ ہے یعنی جو تمہارے ساتھ بر سر پیکار ہیں ان کے ساتھ بر سر پیکار ہو جاؤ۔

۱۵ فَلَنُذِیقَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا عَذَابًا شَدِیدًا وَلَنَجْزِیَنَّهُمْ أَسْوَأَ الَّذِی کَانُوا یَعْمَلُونَ ﴿ سورة فصلت آیت ٢٧﴾

( اب ہم ان کفر کرنے والوں کو شدید عذاب کا مزہ چکھائیں گے اور انہیں ان کے اعمال کی بدترین سزادیں گے )

اگر عذاب شدید سے مراد دنیا کا عذاب ہے تو اس آیت کو ان آیات کی رو سے سمجھا جائے گا کہ جن کی طرف ہم نے گزشتہ بیان میں اشارہ کیا ہے یعنی وہ کافر کہ جنہوں نے رسول ؐاور مومنین کے ساتھ اعلان جنگ کیا تھا (وَهُمْ بَدَءُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ﴿ سورة التوبه  آیت ١٣﴾) اور اگر اس سے مراد عذاب آخرت ہے تو خدا وند عالم نے ہر مجرم کو قیامت کے دن اس کے استحقا ق کے مطابق جزاء و عذاب کا وقت مقرر کیا ہے اور اس آیت کے آخری جملہ سے قیامت ہی کی طرف اشارہ ہے کہ خدا ان کو ان کے  بُرے اعمال کی سزا  دے گا۔

۱۶ ذَلِکَ جَزَاءُ أَعْدَاءِ اللَّهِ النَّارُ لَهُمْ فِیهَا دَارُ الْخُلْدِ جَزَاءً بِمَا کَانُوا بِآیَاتِنَا یَجْحَدُونَ ﴿ سورة فصلت آیت ٢٨﴾ 

(دشمنانِ خدا کی صحیح سزا جہّنم ہے جس میں ان کا ہمیشگی کا ٹھکانہ ہے جو اس بات کی سزا ہے کہ یہ آیات الہیٰہ کا انکار کیا کرتے تھے )

یہ آیت جیسا کہ الفاظ سے واضح ہے قیامت کے دن مجرموں کے عذاب کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا تعلق دنیا میں دہشت گردی سے بالکل نہیں ہے اور اس کو اس سے جوڑنا آیت کے مفہوم سے جہالت کی دلیل ہے ۔

۱۷ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِینَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالإنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمُ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِهِ وَذَلِکَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ﴿ سورة التوبه آیت ١١١﴾

(  بیشک اللہ نے صاحبانِ ایمان سے ان کے جان و مال کو جنّت کے عوض خریدلیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ وعدہ  برحق توریت ,انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنی عہد کا پورا کرنے والا کون ہوگا تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خوشیاں مناؤ جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے )

اس آیت میں ان مومنین کی عظمت کو ذکر اور واضح کیا گیا ہے کہ جنہوں نے اپنے نفوس کو اور اپنے مال کو خدا کی راہ میں بیچا ہے اور وہ خدا کی راہ میں مقاتلہ کرتے ہیں ( یعنی  جو مومنوں سے جنگ لڑائی  کرتے ہیں اپنے دین اور شرعی حقوق  کی حفاظت کے لئے  لڑتے ہیں ) ۔یعنی ان مجرموں سے جنگ کرتے ہیں جو ان سے جنگ کرتا ہے اور یہ مومنین مجرموں کے ہاتھ سے قتل بھی ہوتے ہیں اور انہیں قتل بھی کرتے ہیں اور آیت کے آخر میں جو خدا نے قیامت کے دن نعمتوں کا وعدہ کیا ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس آیت کا بھی دہشت گردی سے  دور دور تک واسطہ نہیں ہے ۔

۱۸ وَمِنْهُمْ مَنْ یَلْمِزُکَ فِی الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ ﴿ سورة التوبه آیت ٥٨﴾

( اور ان ہی میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے بارے میں الزام لگاتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے تو راضی ہوجائیں گے اور نہ دیا جائے تو ناراض ہوجائیں گے )

یہ آیت ان گناہگاروں کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جو رسول ؐ کو اور مومنین کو اپنے الفاظ سے اذیت دیتے تھے اور زکواۃ جمع شدہ مال کے لیے مومنین کی غیبت کرتے تھے  اس آیت کا بھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان مجرموں کی مزمت ہے جو رسول ؐ کو اذیت دیتے تھے اور ظاھرا اس سے مراد منافقین ہیں ۔

۱۹ یَا أَیُّهَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِینَ عَلَى الْقِتَالِ إِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُوا مِائَتَیْنِ وَإِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَةٌ یَغْلِبُوا أَلْفًا مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا یَفْقَهُونَ ﴿ سورة الأنفال آیت ٦٥﴾

(  اے پیغمبرؐ آپ لوگوں کو جہاد پر آمادہ کریں اگر ان میں بیس بھی صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آجائیں گے اور اگر سو ہوں گے تو ہزاروں کافروں پر غالب آجائیں گے اس لئے کہ کفاّر سمجھدار قوم نہیں ہیں ۔

یہ آیت بھی مومنین کو ان لوگوں سے جنگ کرنے کی دعوت دیتی ہے جو مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں اور اس میں وعدہ ہے کہ خدا مومن مجاہدین کی نصرت اور مدد فرمائے گا ۔

 ۲۰ یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تَتَّخِذُوا الْیَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِیَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَتَوَلَّهُمْ مِنْکُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ إِنَّ اللَّهَ لا یَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ﴿ سورة المائدة آیت ٥١﴾

( ایمان والو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست اور سرپرست نہ بناؤ کہ وہ  خود آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے کوئی انہیں دوست بنائے گا تو ان ہی میں شمار ہوجائے گا بیشک اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا ہے )

اس آیت  میں  ان ضعیف الایمان مسلمانوں کو تنبیہ کی طرف اشارہ ہے کہ جو ذلت  پسند کرتے ہیں  اور اس ذلت کے سبب اپنے دشمنوں کی محبت کو تلاش کرتے ہیں جیسے یہودو نصاری ۔اور ایسے ضعیف العقیدہ مسلمانوں کی سزا کا بھی ذکر ہوا ہے اس آیت کا  بھی دہشت گردی سے تعلق نہیں ہے ۔

۲۱ قَاتِلُوا الَّذِینَ لا یُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلا یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا یَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّى یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ﴿ سورة التوبه آیت ٢٩﴾

( ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا و رسول ؐنے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی دین حق کی پابندی نہیں کرتے .... یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلّت کے ساتھ تمہارے سامنے جزیہ پیش کرنے پر آمادہ ہوجائیں )

اس آیت میں بھی اہل کتاب یہود و نصاری سے جنگ کرنے  کی مومنین کو رغبت  دلائی گئی ہے جو مسلمانوں سے جنگ کرتے ہیں اور خدا کے احکام کی پابندی نہیں کرتے اور حق کے پابند بھی نہیں ہیں یہ بھی آیت دہشت گردی سے بالکل الگ ہے بلکہ مسلمانوں کو جان و مال اور  وطن کے دفاع کی  دعوت دے رہی ہے ۔

۲۲ وَمِنَ الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَى أَخَذْنَا مِیثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُکِّرُوا بِهِ فَأَغْرَیْنَا بَیْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى یَوْمِ الْقِیَامَةِ وَسَوْفَ یُنَبِّئُهُمُ اللَّهُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ ﴿  سورة المائدة آیت ١٤ ﴾ 

( جن لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نصرانی ہیں ہم نے ان سے بھی عہد لیا اور انہوں نے بھی ہماری نصیحت (انجیل)کے ایک حصّہ کو فراموش کردیا تو ہم نے بطور سزا قیامت تک کے لئے ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا  اور عنقریب خدا انہیں ان باتوں سے باخبر کرے گا جو وہ انجام دے رہے تھے )

اس آیت میں عیسائیوں کی معصیت اور بد بختی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ خدا وند عالم نے گزشتہ انبیاء ؑ  کے واسطے ان سے عہد لیا تھا کہ وہ دین کی پیروی کریں گے اور وہ اس وعدے کو بھول گئے اس کی پابندی نہیں کی اور خدا نے ان کو دنیا میں بھی عذاب میں مبتلا  کیا ہے اور یہودیوں اور ان کے درمیان دشمنی و نفرت پیدا کردی ہے اور بروز قیامت بھی ان کو سزا دی جائے گی اس آیت کا بھی دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

۲۳ وَدُّوا لَوْ تَکْفُرُونَ کَمَا کَفَرُوا فَتَکُونُونَ سَوَاءً فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِیَاءَ حَتَّى یُهَاجِرُوا فِی سَبِیلِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِیًّا وَلا نَصِیرًا ﴿ سورة النساء آیت ٨٩ ﴾

مشرکین اور دشمنان دین کی تمنا ہے کہ تم بھی ان کی طرح کافر ہو جاؤ، جب وہ ایسے بدبخت ہیں تو تم ان کو اپنی دوستی  و محبت کا نشانہ نہ بناؤ جب تک وہ مسلمان ہو کر خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں اور اگر تم سے وہ کنارہ کشی کریں اور تمہارے دشمن اور تمہارے ساتھ جنگ پر تلے رہیں تو تم بھی ان سے جنگ کرو جب تک ان پر غلبہ حاصل نہ کر لو  اور  ان کو اپنا دوست نہ بناؤ۔

 یہ آیت بھی اس آیت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس کو ہم نے پہلے پیش کیا ہے اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اعلان ِ جنگ کیا ہے اور جنگ سے باز نہیں آتے ان کے لئے  کہاگیا ہے کہ ان کے ساتھ جنگ کرو۔

۲۴ قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَیْدِیکُمْ وَیُخْزِهِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْهِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ ﴿ سورة التوبه آیت ١٤﴾

وہ کافر جو تم سے جنگ پر تلے ہوئے ہیں ان کے ساتھ جنگ کرو خدا تمہارے واسطے سے انہیں عذاب دے گا  اور ان کو رسوا کرے گا اور  ان کے مقابلے پر تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے جہاد سے غمزدہ مومنین جن پر ان کافروں نے ظلم کیا ہے ان کے سینوں میں ٹھندک اور اطمینان  محسوس ہو گا ۔

اس آیت سے واضح ہوا کہ اس میں جنگ کرنے والے کافروں سے جنگ پر مومنین کی نصرت کا وعدہ کیا ہے پھر کس طرح اس آیت کو دہشت گردی سے جوڑنے کی حماقت کی جا رہی ہے ۔

۲۵ سَنُلْقِی فِی قُلُوبِ الَّذِینَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَکُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِینَ ﴿ سورة آل عمران آیت  ١٥١﴾

وہ مشرکین کہ جو اپنی بے راہ روی سے خدا کے راستہ سے دور ہیں ان کے دلوں میں تمہارا رعب اور تمہاری عظمت بٹھا دے گا ان کا ٹھکانہ آتش جہنم ہے  اور ظالمین کے لیے بہت بُرا ٹھکانہ ہے ۔

یہ آیت مسلمانوں کو اطمینان دینے کے لیے ہے کہ  وہ کافروں سے نہ ڈریں ان کی کثرت ان کے وسائل جنگ سے نہ ڈریں خدا ان کے دلوں میں مومنین کا خوف و ڈر پیدا کرے گا اور قیامت میں عذاب بھی دے گا اس آیت کا بھی دہشت گردی سے کوئی  تعلق نہیں بلکہ مومنین کو اطمینان و سکون دینا مقصود ہے ۔

۲۶ وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى یُقَاتِلُوکُمْ فِیهِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوهُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ ﴿  سورة البقرة آیت  ١٩١﴾

اور ان مشرکین کو جہاں پاؤ قتل کردو اور جس طرح انہوں نے تم کو آوارہ وطن کردیا ہے تم بھی انہیں نکال باہر کردو--- اور فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے. اور ان سے مسجد الحرام کے پاس اس وقت تک جنگ نہ کرنا جب تک وہ تم سے جنگ نہ کریں. اس کے بعد جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی چپ نہ بیٹھو اور جنگ کرو کہ یہی کافروں کی سزا ہے ۔

یہ آیت واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ ان کافروں سے مراد وہ ہیں کہ جو مکہ میں تھے جنہوں نے مسلمانوں کو اذیت دی ان کے مال چھینے  مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا  اور مکہ جیسے پُر امن و امان جیسی جگہ پر فتنہ برپا کیا تھا  اور فتنہ قتل سے بد تر ہے اور مکہ کے اندر جس کو خدا نے جائے امان بنایا ہے قتال نہ کرو جب تک وہ وہاں اعلان جنگ نہ کریں اگر وہ جنگ کریں تو ان کے ساتھ جنگ کرو اور قتل کرو اور یہ قاتلوں کے اعمال کی سزا ہے ۔

ہمارے ان مختصر  بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ آیات قرآنی کو سمجھنے میں کس قدر بعض افراد کو اشتباہ ہوا ہے اور خدا کے مقدس قرآن کو دہشت گردی سے جوڑ کر مسلمانوں کو اس دہشت گردی پر بھڑکائے جانے  کا بے بنیاد الزام لگایا گیا ہے اور گزشتہ بیانات سے بھی  اس نافہمی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

خدا ہم سب کو ہدایت سے نوازے

والسلام علی  من اتبع الھدی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .