حوزہ نیوز ایجنسیl
تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین عالی جناب مولانا شبیہ الحسن خان زید عزہ
قرآنی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا(کی خلقت)کسی غرض و مقصد کے تحت ہے یہاں تک کہ قرآن مجید کے سورہ بقرہ کی ۲۱ ویں و ۲۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:"اے انسانو !پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے والوں کو بھی خلق کیا ہے شاید کہ تم اسی طرح متقی اور پرہیزگار بن جاؤ[1] اس پروردگار نے تمہارے لئے زمین کا فرش آسمان کا شامیانہ بنایا ہے اور پھر آسمان سے پانی برسا کر تمہاری روزی کے لئے زمین سے پھل نکالے ہیں"۔
ارشاد ہوتا ہے "جعل لکم"یعنی دنیا کی خلقت انسان کے لئے ہے اور حقیقت میں انسان دنیا میں ٹوکری میں رکھے پھل کی طرح ہے، دنیا کی خلقت کا مقصد اور اس کی نعمتیں اور جو کچھ بھی زمین و آسمان میں ہے سب انسان ہی کی وجہ سے ہے پوری دنیا کو انسان کے لئے مسخر بنایا، چاند، سورج، زمین و غیرہ سب انسان کی خدمت کے لئے ہیں۔
سوال:
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پوری دنیا انسان کے لئے ہے اور اس کی خلقت کی غرض بھی انسان کی خدمت ہے تو غرض خلقت انسان کیا ہے؟ یا خداوند عالم نے انسان کوکیوں خلق فرمایا ہے؟
اس سوال کا جواب قرآن کی متعدد آیات میں مختلف او رالگ الگ انداز سے بیان ہوا ہے لہذا جواب دینے کے لئے کچھ آیتوں کو جمع کر کے نتیجہ بیان کرنا ضروری ہے۔
۱۔ سورہ ذاریات میں غرض خلقت(انسان)کو "عبادت"سے متعارف کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے کہ"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"[2] میں نے جنات و انسان کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے"۔ لہٰذا خلقت کا مقصد عبادت ہے ۔ البتہ عبادت کا مفہوم وسیع ہے یعنی تسلیم امر خدا اور اس کی بندگی جیسے نماز، روزہ وغیرہ اس کے مظہر ہیں، علم حاصل کرنے والوں کی خدمت اور خدا کی راہ میں طلب کمال و جستجو کمال کی کوشش کرنا بھی ایک طرح سے عبادت ہو سکتی ہے۔
مفسرین نےاس آیت شریفہ کےذیل میں امام جعفر صادقؑ کا فرمان اس طرح نقل کیا ہےکہ" خدا وند عالم نے انسانوں کو صرف اپنی معرفت کے لئے خلق کیا ہے [3]"۔
۲۔ سورہ ہود میں ارشاد ہوتا ہے:لوگ ہمیشہ اختلاف کا شکاررہے ہیں سوائے ان کے جن پر خدا نے رحم کر دیا اور اسی لئے انھیں پیدا کیا ہے۔[4]
بعض لوگ اس آیت سے یوںمفہوم اخذ کرتے ہیں کہ غرض خلقت "وحدت" ہے کچھ دوسرے مفسرین نے فرمایا کہ خلقت کا مقصد "رحمت"ہے البتہ ان معانی کےدرمیان کوئی تضاد نہیں پا یا جاتا کیونکہ معاشرے میں"وحدت" حقیقت میں خدا کی "رحمت"ہے لیکن جوبات ٓایت کےسیاق سے مناسب و شایستہ ہے وہ بحث "رحمت"ہے، یعنی خداوند عالم چاہتا ہے کہ اپنی رحمت کو بندوں تک پہنچائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ:خداوند عالم نے لوگوں کو پیدا کیا ہے تاکہ وہ خدا کی رحمت کے مظہر قرار پائیں۔
۳۔ دوسری کچھ آیتوں میں انسان کی پیدائش و خلقت کو"آزمایش(امتحان)"سے تعبیر کیا گیا ہے اور فرمایا کہ:اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمہاری آزمایش کرے کہ تم میں حسن عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے"۔[5]
مزے کی بات تو یہ ہے کہ خدا نے یہ نہیں فرمایا:"اکثر عملا"میں( خدا)نہیں چاہتا کہ دیکھوں کون زیادہ عبادت انجام دیتا ہے بلکہ(یہ فرمایا)میں چاہتا ہوں دیکھوں کون بہترین عمل انجام دیتا ہے"احسن عملا"نہ"اکثر عملا"ہاں!اچھا عمل زیادتی عمل کے منافی نہیں ہے۔ اس آیت کے لحاظ سے کہ انسان کی خلقت کی اغراض میں سے ایک غرض"آزمایش و امتحان"ہے جس سے لوگوں کے عمل کی کیفیت معلوم ہوتی ہے۔
۴۔ سورہ انشقاق کی چھٹی آیت میں انسان کی خلقت کی غرض کو ملاقات پروردگار سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے "يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلَىٰ رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلَاقِيهِ""اے انسان تو اپنے پروردگار کی طرف جانے کی کوشش کر رہا ہے تو ایک دن اس کا سامنا کریگا"[6]۔
۵۔ بعض دوسری آیتوں میں خلقت کی غرض"علم"کو بیان کیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے " اللہ ہی وہ ہے جس نے ساتوں آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور زمینوں میں بھی ویسی ہی زمینیں بنائی ہیں اس کے احکام ان کے درمیان نازل ہوتے رہتے ہیں تاکہ تمہیں یہ معلوم رہےکہ وہ ہر شئ پر قادر ہے۔ [7]
اس آیت میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے کہ:ہم نے دنیا کو خلق کیا تاکہ تم قدرت خدا کو جان لو، حقیقت میں علم، معرفت اور دانش انسان کی خلقت کا مقصد ہے۔[8]
۶۔ کچھ آیتوں میں خلقت کا مقصد مناسب تعبیر میں انتہا و غایت ہے کہ جس کی طرف انسان بڑھ رہا ہے اس کو"خدا"یوں بیان فرماتا ہے :"الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ"[9](جو مصیبت پڑنے کے بعد یہ کہتے ہیں)ہم خداہی کے لئے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں واپس جانے والے ہیں"۔اور دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:"کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹا کر نہیں لائے جاؤگے"۔[10] حقیقت میں یہ آیت خلقت انسان کے مقصد نہایی کو"خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے"بیان کرتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے پیدائش و خلقت کی اغراض میں سے ایک غرض ہو۔
نتیجہ:
قرآن مجیدمیں خدا ارشاد فرماتا ہے کہ"انسان کی پیدائش کا مقصد"علم، رحمت، ملاقات، آزمایش، عبادت اور خدا کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ مذکورہ موارد میں کون سے مورد اصلی ہیں اور کون سےفرعی ! مفسرین نےاس مقام پر بہت سے احتمالات بیان کئے ہیں لیکن "خدا سے ملاقات"اور "اس کی طرف بازگشت"اصلی ہدف لگتاہے کیونکہ خود خداوند عالم نے اسے بلند ترین غرض خلقت اور انسان کےانتہائی کمال کے عنوان سے ذکر کیاہے۔
انسان اس کی طرف(خدا)حرکت کر رہا ہے اور اس حرکت کے لئے مقدمہ کے طور پر انسان کو علم عطا کیا گیا ہے اور اس راستے میں"آزمایش " بھی ہے ۔جس وقت امتحان میں کامیابی حاصل ہو جائے اور"خدا کی عبادت"کرنے لگے تو رحمت الہی انسان پر نازل ہونے لگتی ہے اور"انتہائی کمال" یعنی خدا اور اس کی ملاقات حاصل ہو جاتی ہے۔ اس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ "خلقت انسان" کےمقاصدطول میں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ ان میں ہر ایک ،دوسرے کے تحقق اور اثبات کے لئے مقدمہ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ذکر بھی ہو سکتے ہیں۔ اور کبھی کبھی کسی مرحلے میں ایک دوسرے کے لئے مقدمہ ہوتے ہیں تاکہ انسان ہدف نہایی تک پہنچ سکے یعنی "خدا سے ملاقات"کر سکے۔
[1] بقرہ، آیت ۲۱، يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
ایضاً بقرہ آیت ۲۲،الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً
[2] ذاریات، آیت ۵۶
[3] روایت میں آیا ہے: لیعبدون ای لیعرفون
[4] ہود، آیت ۱۱۹، إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔
[5] ملک، آیت ۲،الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ
[6] ملاقات کیا ہے یہ ایک مفصل بحث ہے جسکے تبٗین کی گنجائش یہاں نہیں ہے کہ ملاقات کا مطلب قیامت کے روز ہے یا معنوی و دل کی نگاہ سے دیکھنا مراد ہے۔
[7] طلاق، آیت ۱۲، اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا
[8] وہی روایت کی جو اس سے پیلے ذکر کی گئی ہے (لیعبدون ای لیعرفون)
[9] سورۂ بقرہ آیت ۱۵۶
[10] مؤمنون، آیت۱۱۵، أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ۔