۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
پیغام عاشورہ

حوزہ/جس وقت امام حسینؑ نے دیکھا کہ آپ کی نصیحتوں کا حکومت بنی امیہ کے کارندوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور یزید بھی ایک برا شخص ہے اور اس سے بیعت کرنا بھی جائز نہیں ہے اور اس سے فرار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مکہ اور کربلا میں ہر جگہ وہ لوگ آپ کے درپے ہیں کہ یا بیعت لیں یا آپ کو شہید کر دیں تو آپ شجاعانہ طور پر دشمن کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور آخری لمحہ تک جنگ کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسیl

تحریر:حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا سيد عارف عباس نقوی

جس وقت امام حسینؑ کے قیام کے مرحلوں غور و فکر کریں تو معلوم ہوتا ہے  کہ امامؑ نے حکومت بنی امیہ کے ساتھ تین قسم کے برتاؤ کئے ہیں۔ جو کہ ہمیں در حقیقت ایک ستمگر حکومت کے ساتھ جنگ کے مراحل کی تعلیم دیتے ہیں اور وہ مراحل مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔د۔ دشمن کو نصیحت کرنا

            جس وقت ولید بن عتبہ نے امامؑ کو مشورہ دیا کہ یزید سے بیعت کر لیں ، اوروہ  حکم یزید پہنچاتا ہے تو امامؑ اس کے لئے دلیل پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں :"کہ ہم پیغمبرﷺ کے اہل بیت ہیں۔ اور پیغمبرﷺ نے فرمایا ہے کہ خلافت اور جانشینی ابو سفیان کی نسل  پر حرام ہے تو میں کس طرح یزید کی بیعت کرلوں، جبکہ پیغمبرﷺنے ان لوگوں کے بارے میں اس طرح فرمایا ہے۔[1]

            اور اس وقت بھی جب لشکر حر سے سامنا ہواتو ان سے خطاب میں بھی فرمایا[2] اور اسی طرح جب عمر بن سعد سے کربلا میں سامنا ہوا تو پہلے ان لوگوں کو نصیحت کی۔[3]

۲۔د۔بلا وجہ شہادت سے کنارہ کشی

            جس وقت مدنیہ  کے حاکم نے یزید کے حکم کے مطابق ارادہ کیا کہ امام حسینؑ کو شہید کر دے[4] تو حضرت نے رات کی تاریکی میں مدینے سے نکلنے کا ارادہ کیا  اور جس وقت مکہ میں بھی آپ کے قتل کی سازش برملا ہوگئی تو اس وقت بھی آپ شہر سے خارج ہوگئے اور عراق کی طرف چلے گئے [5]  اس شخص کے سوال کے جواب میں جو آپ سے مدینہ سے نکلنے کا سبب پوچھتا ہے فرماتے ہیں:"میری اہانت کی گئی لیکن  میں نے صبر کیا اور میرے مال و اسباب کے خواہاں ہوئے پھر بھی میں نے صبر کیا (لیکن جس وقت)میرے خون کے پیاسے ہوگئے تو میں نکل گیا[6] امامؑ کی اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے جس وقت مؤمن کی جان خطرے میں پڑجائے تو اس وقت جائز نہیں ہے کہ ظالم و ستمگر کے مقابل صبر کیا جائے اور کمترین مخالفت یہ ہے کہ، ہجرت کرلی جائے۔

            اسی طرح جب کربلا میں حرّ اور اس کے بعد عمر بن سعد سے سامنا ہوا تو ان لوگوں سے فرماتے ہیں کہ :"کوفہ کے لوگوں نے مجھے بلایا ہے اگر تمہیں پسند نہیں تو واپس چلاجاتا ہوں ۔[7](یعنی آپ کا ارادہ تھا کہ دشمن کے حیلوں سے بچ جائیں لیکن ان لوگوں نے قبول نہیں کیا)۔

۳۔ د۔ قیام سے شہادت تک

            جس وقت امام حسینؑ نے دیکھا کہ آپ کی نصیحتوں کا حکومت بنی امیہ کے کارندوں پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے اور یزید بھی ایک برا شخص ہے اور اس سے بیعت کرنا بھی جائز نہیں ہے اور اس سے فرار کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ مکہ اور کربلا میں ہر جگہ وہ لوگ آپ کے درپے ہیں کہ یا بیعت لیں یا آپ کو شہید کر دیں تو آپ شجاعانہ طور پر دشمن کے مقابل کھڑے ہوتے ہیں اور آخری لمحہ تک جنگ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ"لا والله لااعطيکم(ب)يدی اعطاء الذليل و لاأفرّفرارالعبيد"[8] خدا کی قسم میں ذلیل اور رسوا شخص کی طرح تم سے  بیعت نہیں کروں گا اور غلاموں کی طرح راہ فرار بھی اختیار نہیں کروں گا، "الا ترون الحق لايعمل به والباطل لا يتناهی عنه ليرغب المؤمن في لقاءالله و انی لا اری الموت الا سعادۃ و الحياۃ مع الظالمين الا برماً" کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل کو کوئی روک نہیں رہا ہے تاکہ مؤمنین خدا سے ملاقات کے مشتاق ہوں اور(اس ماحول میں)میں موت کو خوشبختی کے سوا اور ظالموں کے ساتھ زندگی گذارنے کو نقصان اور گھاٹے کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہوں۔


[1] بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۱۲، امالی صدوق سے نقل کرتے ہیں۔

[2] موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۳۳۵۔ ۳۳۷، از تاریخ طبری، ج۳، ص۳۰۶؛ العوالم، ج۱۷، ص۲۲۷؛ الفتوح، ج۵، ص۸۷ سے منقول ہے۔

[3]  ایضا، ص۳۸۷

[4] بحار الانوار، ج۴۴، ص۳۱۲،امالی صدوق سے نقل کرتے ہیں۔

[5] موسوعۃ کلمات امام حسینA، ص ۳۱۹۔ ۳۲۱

[6] ایضاً، ص۳۵۷، مختلف منابع سے نقل کرتے ہیں (میرے خون کے طلابگار ہوئے تو میں نکل گیا)۔

[7] ایضاً، ص۳۸۲ اور ۴۲۰ تاریخ طبری، ج۳، ص۳۱، الارشاد، ص۲۲۷

[8]  بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۱، موسوعۃ کلمات امام حسینؑ، ص۱۹۲

تبصرہ ارسال

You are replying to: .