حوزه نیوز ایجنسی | حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
"الْإِعْجَابُ یَمْنَعُ الِازْدِیَادَ" (حکمت 38)
خود پسندی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔
تشریح:
انسان فطرتی طور پر ترقی اور برتری کا طلبگار ہے۔ دوسری طرف کمال، برتری اور ترقی کی حقیقت کو بھی انسان پر واضح ہونا چاہیے تاکہ وہ راستہ بھٹک نہ جائے۔
اسی لیے خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:
"إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَیْهِ رَاجِعُونَ" (البقرہ:156)
یعنی ہم سب خدا ہی کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔
اس روشن بیان کے مطابق، کمال اور ترقی کا مطلب ہے خدا کے قریب ہونا اور اس تک پہنچنا۔ ترقی کا مطلب ہے خدا کے راستے پر چلنا اور خدا تک پہنچنا۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کے بلند ترین درجات پر پہنچنے کے باوجود بھی کوئی ترقی یا کمال حاصل نہیں ہوا۔
چونکہ ہر راستے کے اپنے آفات ہوتے ہیں، ترقی اور کمال تک پہنچنے کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ عجب اور خود پسندی ہے۔ اس بات کی اہمیت اس قدر ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ایک اور نورانی کلام میں فرماتے ہیں:
"سَیِّئَةٌ تَسُوءُکَ، خَیْرٌ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ حَسَنَةٍ تُعْجِبُکَ" (حکمت 46)
وہ برا کام جو تمہیں ناخوش (اور پشیمان) کرے، خدا کے نزدیک اس نیک کام سے بہتر ہے جو تمہیں غرور اور تکبر میں ڈال دے۔
لہٰذا، کمال، ترقی اور سیر الی الله کے حصول کے سلسلے میں، گناہ پر پشیمانی، اس کا اعتراف اور نفس کو توڑنا، اس نیک کام سے زیادہ مؤثر ہے جو تمہیں نفس کا اسیر بنا دے۔ کیونکہ اسیر اور قیدی انسان کبھی پرواز نہیں کر سکتا۔
"علمی و ثقافتی سروس، حوزہ نیوز ایجنسی"









آپ کا تبصرہ