۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
رمضان المبارک کے بائیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کر دے، اور اس میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اسی دوران مجھے اپنی بہشت کے درمیان بسا دے، اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی । ماہ رمضان کے بائیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ أللّهُمَّ افْتَحْ لي فيہ أبوابَ فَضْلِكَ وَأنزِل عَلَيَّ فيہ بَرَكاتِكَ وَوَفِّقْني فيہ لِمُوجِباتِ مَرضاتِكَ وَأسْكِنِّي فيہ بُحْبُوحاتِ جَنّاتَكَ يا مَجيبَ دَعوَة المُضْطَرِّينَ
خدایا! میرے لئے اس مہینے میں اپنے فضل کے دروازے کھول دے، اور اس میں اپنی برکتیں مجھ پر نازل کر دے، اور اس میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر، اور اسی دوران مجھے اپنی بہشت کے درمیان بسا دے، اے بےبسوں کی دعا قبول کرنے والے۔

فضل یعنی اضافہ اور زیادتی۔ عطا کرنے والا ہر وہ چیز جو حق سے زیادہ عطا کرے اسے فضل کہتے ہیں۔ خدا وند عالم اپنے بندوں پر جو احسان، کرم، رحمت کرتا ہے وہ اس پر لازم نہیں ہے بلکہ وہ اپنے لطف و کرم سے عطا کرتا ہے جو اس کا فضل ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔ اِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ۔ بے شک فضل اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ (سورہ آل عمران، آیت ۷۳)
قرآن کریم نے فضل کی مختلف قسموں کی جانب اشارہ کیا ہے۔
۱۔ وہ خصوصیات جو اللہ نے ایک امت کو عطا کی۔ جیسے بنی اسرائیل کو جناب موسیٰ علیہ السلام کی پیروی کے سبب دیگر تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی۔ ارشاد ہوا۔ یا بَنی‏ إِسْرائیلَ اذْکُرُوا نِعْمَتِیَ الَّتی‏ أَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ أَنِّی فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعالَمینَ۔ اے بنی اسرائیل! ان نعمتوں کو یاد کرو جو ہم نے تمہیں عطا کی اور (یاد کرو کہ) ہم نے تمہیں تمام لوگوں پر فضیلت دی۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۴۷)
۲. ‌انسان کی ایک جنس کو دوسری صنف پر فضیلت دی۔ الرِّ‌جَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّـهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّـهُ ۚ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُ‌وهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِ‌بُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرً‌ا۔ مرد عورتوں کے محافظ و منتظم (حاکم) ہیں (ایک) اس لئے کہ اللہ نے بعض (مردوں) کو بعض (عورتوں) پر فضیلت دی ہے اور (دوسرے) اس لئے کہ مرد (عورتوں پر) اپنے مال سے خرچ کرتے ہیں۔ سو نیک عورتیں تو اطاعت گزار ہوتی ہیں اور جس طرح اللہ نے (شوہروں کے ذریعہ) ان کی حفاظت کی ہے۔ اسی طرح پیٹھ پیچھے (شوہروں کے مال اور اپنی ناموس کی) حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں اور وہ عورتیں جن کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو انہیں (نرمی سے) سمجھاؤ (بعد ازاں) انہیں ان کی خواب گاہوں میں چھوڑ دو اور (آخرکار)۔ انہیں تنبیہ کرو۔ پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو پھر ان کے خلاف کوئی اور اقدام کرنے کے راستے تلاش نہ کرو۔ یقینا اللہ سب سے بلند اور بڑا ہے۔ (سورہ نساء، آیت ۳۴)
۳. کبھی اللہ نے کچھ لوگوں کو زیادہ امکانات اور سہولتیں عطا کی۔ جنمیں سے کچھ لوگوں نے اس کا صحیح مصرف کیا اور کچھ نے غلط مصرف کیا۔ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّـذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْـرًا لَّـهُـم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّـهُـمْ ۖ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ وَلِلّـٰهِ مِيْـرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ ۗ وَاللّـٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ ۔ اور جو لوگ اس چیز پر بخل کرتے ہیں جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے وہ یہ خیال نہ کریں کہ بخل ان کے حق میں بہتر ہے، بلکہ یہ ان کے حق میں برا ہے، قیامت کے دن وہ مال طوق بنا کر ان کے گلوں میں ڈالا جائے گا جس میں وہ بخل کرتے تھے، اور اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا وارث ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے جانتا ہے۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۸۰)
۴. کبھی اللہ نے مومنین کو اپنی خاص امداد سے نوازا۔ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّـٰهُ وَعْدَهٝ اِذْ تَحُسُّوْنَـهُـمْ بِاِذْنِهٖ ۖ حَتّـٰٓى اِذَا فَشِلْتُـمْ وَتَنَازَعْتُـمْ فِى الْاَمْرِ وَعَصَيْتُـمْ مِّنْ بَعْدِ مَآ اَرَاكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۚ مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الـدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۚ ثُـمَّ صَرَفَكُمْ عَنْـهُـمْ لِيَبْتَلِيَكُمْ ۖ وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ ۗ وَاللّـٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ۔ اور اللہ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کر چکا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے، یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں اختلاف کیا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے، بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے، پھر تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تمہیں آزمائے، اور البتہ تمہیں اس نے معاف کر دیا ہے، اور اللہ مومنین پر فضل کرنے والا ہے۔ (سورہ آل عمران، آیت 152)
۵. کبھی اللہ کا فضل عام ہوتا ہے۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّـٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُـمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِيْنَ۔ اور اگر اللہ کا بعض لوگوں کو بعض لوگوں کے ذریعے سے دفع کرا دینا نہ ہوتا تو زمین فساد سے پُر ہو جاتی، لیکن اللہ دنیا والوں پر بہت مہربان ہے۔ (سورہ بقرہ۔ آیت ۲۵۱)
۶. کبھی اللہ نے بعض شخصیتوں اور بعض اولیاء پر خاص فضل فرمایا۔ جیسے بعض انبیاء علیہم السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام پر اس کا خاص فضل ہوا۔ اسی طرح بعض مومنین پر فضل فرمایا۔ جیسے ارشاد فرمایا: جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو گئے انکو مردہ تصور نہ کرنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے یہاں سے رزق پاتے ہیں۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۶۹) فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ۔ اللہ نے اپنے فضل سے جو انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں۔ (سورہ آل عمران، آیت ۱۷۰)
کبھی کبھی اللہ کا فضل و کرم ایمان و اطاعت کے سبب بعض مومنین کے شامل حال ہوتا ہے۔ اللہ کا فضل بعض لوگوں کے ساتھ صرف دنیا میں ہے، بعض کے ساتھ صرف آخرت میں ہیں اور بعض کے ساتھ دنیا و آخرت دونوں میں ہے۔
وَأنزِل عَلَيَّ فيہ بَرَكاتِكَ۔ اور اس ماہ میں اپنی برکت ہم پر نازل فرما۔
یعنی خدایا!ہم پر برکت نازل فرما چاہے وہ آسمانی برکتیں ہوں یا زمینی برکتیں ہوں۔
وَوَفِّقْني فيہ لِمُوجِباتِ مَرضاتِكَ۔ اور اس ماہ میں اپنی خوشنودی کے اسباب فراہم کرنے کی توفیق عطا کر۔
گذشتہ فصلوں میں بیان کیا جا چکا ہے کہ انسان جو بھی نیک عمل انجام دیتا ہے بغیر توفیق الہی کے ممکن نہیں ہے۔ چاہے خدا کا شکر ہی کیوں نہ ہو۔ کیوں کہ بغیر اسکی دی توفیق کے اس کا شکر بھی ممکن نہیں ہے۔
واسْکِنّی فیهِ بُحْبوحاتِ جَنّاتِکَ. اور اس کے دوران مجھے اپنی بہشت کے درمیان بسا دے۔
یعنی وہ جنت عطا کر دے جہاں ہر طرح کا سکون و آرام اور نعمتیں میسر ہوں۔
لیکن جنت تک پہنچنا آسان نہیں کیوں کہ جنت میں شہداء ہوں گے، جنت میں توبہ کرنے والے اور مغفرت پانے والے ہوں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آگاہ ہو جاو! جسے آل محمد علیہم السلام کی محبت میں موت آئی وہ شہید ہے۔ اسکی مغفرت ہو چکی ہے، وہ توبہ کیا ہوا ہے۔ (بحارالانوار، جلد23، صفحہ233)
ظاہر ہے اللہ نے جنت اہلبیت علیہم السلام کی محبت میں خلق کی اور انہیں اس پر اختیار دیا اور ان کے اسماء کو باب جنت پر لکھا۔ جیسا کہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شب معراج جب میں جنت میں گیا تو اس کے دروازے پر لکھا تھا لا الله الا الله، محمد حبیب الله، علی ولی الله،فاطمه امة الله، الحسن و الحسین صفوة الله، علی مبغضیهم لعنه الله۔ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے حبیب ہیں، علی علیہ السلام اللہ کے ولی ہیں، فاطمہ سلام اللہ علیہا کنیز خدا ہیں، حسنین علیہماالسلام انتخاب خدا ہیں اور انکے دشمنوں پر اللہ کی لعنت ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۲۷، صفحہ ۳)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .