۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
رمضان المبارک کے بیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں بہشت کے دروازے مجھ پر کھول دے اور دوزخ کی بھڑکتی آگ کے دروازے مجھ پر بند کردے، اور مجھے اس مہینے میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما اے مؤمنوں کے دلوں میں سکون نازل کرنے والے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے بیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’أللّهُمَّ افْتَحْ لي فيہ أبوابَ الجِنان وَأغلِقْ عَنَّي فيہ أبوابَ النِّيرانِ وَوَفِّقْني فيہ لِتِلاوَة القُرانِ يامُنْزِلَ السَّكينَة في قُلُوبِ المؤمنين‘‘
خدایا! اس مہینے میں بہشت کے دروازے مجھ پر کھول دے اور دوزخ کی بھڑکتی آگ کے دروازے مجھ پر بند کردے، اور مجھے اس مہینے میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما اے مؤمنوں کے دلوں میں سکون نازل کرنے والے۔
خطبہ شعبانیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّ أَبْوَابَ الْجِنَانِ فِی هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُغَلِّقَهَا عَنْكُمْ وَ أَبْوَابَ النِّیرَانِ مُغَلَّقَةٌ فَاسْأَلُوا رَبَّكُمْ أَنْ لَا یُفَتِّحَهَا عَلَیْكُمْ‘‘۔ اے لوگو یقینا اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ اس کو تمہارے اوپر بند نہ کرے اور جہنم کے دروازے اس مہینے میں بند کردئے گئے ہیں اپنے پرودگار سے درخواست کرو کہ تمہارے لئے ان کو نہ کھولے۔
جب اللہ نے اس ماہ رمضان میں جنت کے دروازے کھول دئیے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے ہیں تو اب انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے پرورگار سے یہی چاہے کہ جنت میں چلا جائے اور جہنم سے بچ جائے۔ لیکن اس کے لئے صرف دعا کافی نہیں ہے بلکہ عمل بھی لازم ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف دعا کرنے کا حکم دیا ہے بلکہ عمل کی بھی دعوت دی ہے۔ کیوں کہ جنت کوئی لاوارث میراث نہیں کہ جو چاہے قبضہ کر لے بلکہ اللہ نے جنت کو جزا اور جہنم کو بطور سزا قرار دیا ہے تو اس عادل پروردگار کی اس جزا یا سزا کے لئے اس کی قیمت ادا کرنی ہو گی۔ یعنی جیسے انسان کے عقائد، احکام اور اخلاق ہوں گے اللہ اسی کے مطابق اسے جنت یا جہنم عطا کرے گا۔
ظاہر ہے جنت کو اللہ نے انسان کے دنیوی اعمال کا نتیجہ رکھا ہے یقینا اس پروردگار نے اس میں کچھ اہم خصوصیات بھی رکھی ہوں گی تا کہ انسان انکی تمنا کرے۔
قرآن و احادیث میں جنت کی بہت سی خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ رضوان الہی۔’’ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّـہ أَكْبَرُ‘‘ یعنی خدا کی خشنودی سب سے افضل ہے۔ (سورہ توبہ، آیت ۷۱) جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: جب اہل بہشت بہشت میں مستقر ہو جائیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ بہشت کی نعمات میں سے سب سے افضل اور قیمتی نعمت خدا کی خشنودی اور خدا کی محبت ہے جو خدا اہل بہشت کے ساتھ رکھتا ہے۔ (بحارالانوار، جلد ۸، صفحہ ۱۴۰)
۲۔ کھانا پانی۔ اللہ کی خوشنودی کے بعد بہشت کی دوسری اہم نعمت اس کی غذا اور پانی ہے۔
قرآنی آیات کی روشنی میں جنتی جب چاہیں جتنا چاہیں جو پھل چاہیں گے ان کے لئے موجود ہو گا۔ اسی طرح گوشت۔ یا جس غذا کا بھی دل چاہے گا وہ وہاں انہیں میسر ہو گا۔
قرآن و احادیث کی روشنی میں غذا کی طرح جنت میں مختلف قسم کے مشروبات بھی میسر ہوں گے۔ جیسے دودھ، شہد کی نہریں وغیرہ۔
۳۔ لباس۔ صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ جنت میں جنتیوں کو بہترین لباس بھی ملے گا۔
۴۔ شادی۔ اللہ کی جانب سے جنتیوں کے لئے ایک اہم نعمت پاکیزہ خواتین سے شادی ہے۔
۵۔ ہر چیز بھلی لگے گی۔ جنت کی ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہاں انسان جو چیز بھی دیکھے گا وہ اسے بھلی لگے گی۔
اسی طرح مختلف آیات میں جنت کی دیگر بہت سی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے جیسے امنیت، سکون اور ہر نعمت کا ہمیشہ باقی رہنا وغیرہ ہے۔
جس طرح جنت میں مختلف قسم کی نعمتیں ہیں اسی طرح وہاں مختلف درجات ہیں جو جتنا عظیم ہو گا اس کا درجہ بھی اتنا ہی بلند ہوگا۔
عامہ اور خاصہ کی کتب میں موجود روایات کی روشنی میں جنت کے ۸ دروازے اور جہنم کے ۷ دروازے ہیں۔
جنت کے ۸ دروازے مندرجہ ذیل ہیں۔
باب المجاہدین۔ نام ہی سے ظاہر ہے کہ اس دروازے سے وہی داخل ہوگا جس نے دنیا میں جہاد کیا ہو۔ چاہے جہاد اصغر ہو یعنی اسلحہ لے کر دشمن سے جہاد ہو یا جہاد اکبر ہو یعنی نفس کو مار دینا اور خواہشات کو کچل دینا۔
باب المصلین۔ اس دروازے سے نمازی داخل ہوں گے۔ ظاہر ہے نماز وہ عظیم عبادت ہے جس کے سلسلہ میں روایت ہے کہ جسکی نماز قبول ہو گئی اس کے سارے اعمال قبول ہو گئے اور جسکی نماز رد ہو گئی اس کے سارے اعمال رد ہو گئے۔ یا امام جعفر صادق علیہ السلام کی وصیت کہ جو بھی نماز کو خفیف سمجھے گا اسے ہماری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔
باب الصائمین۔ اس دروازے سے روزہ دار جنت میں داخل ہوں گے۔ ظاہر ہے جنت متقین کا مقام ہے اور روزہ انسان کو متقی بناتا ہے۔
باب الصابرین۔ اس در سے اللہ کے صابر بندے جنت میں داخل ہوں گے۔ صبر وہ عظیم نعمت ہے جس کا ذکر اللہ نے نماز جیسی عظیم عبادت کے ساتھ کیا۔ ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ‘‘ اے ایمان لانے والو! صبر اور نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (سورہ بقرہ، آیت ۱۵۳)
باب الشاکرین۔ اللہ کے شاکر بندے اس در سے جنت میں داخل ہوں گے۔ شکر کے سلسلہ میں ہم اس سے قبل گفتگو کر چکے ہیں۔
باب الذاکرین۔ اللہ کے وہ بندے جوہمیشہ اللہ کو یاد کرتے ہیں وہ اس در سے جنت میں داخل ہوں گے۔ ذکر ہی اللہ کی اطاعت و عبادت کا محور ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا کہ ’’أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي‘‘میرے ذکر کےلئے نماز پڑھو۔ (سورہ طہ، آیت۱۴)
باب الحاجین۔ حج کرنے والے اس در سےجنت میں داخل ہوں گے لیکن ظاہر ہے وہی حاجی اس در سے داخل ہوں گے جن کا حج اللہ کے لئے ہوگا۔
باب المعروف۔ نیک کام کرنے والے اس در سے جنت میں داخل ہوں گے.
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: نیک کاموں میں اپنے بھائیوں سے رقابت کرو اور اہل معروف بنو۔ کیوں کہ جنت کا ایک دروازہ ہے جسے باب معروف کہا جاتا ہے۔ اس میں وہی داخل ہوگا جو دنیا میں نیک کام کرتا ہوگا۔ (نور الثقلین ، ج4،ص506)
لیکن جہنم کے دروازے صرف سات ہیں۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے جہنم کے دروازوں کے نام بتائے۔
جحیم جو سب سے اونچا دروازہ ہے
لظی۔ اس دروازے سے داخل ہونے والے کے بدن اور چہرے کی کھال نوچی جائے گی۔
سقر۔ گرم آگ
حطمہ۔ بھڑکتی ہوئی آگ
ہاویہ ۔ ایسی آگ جسمیں شعلے ہوں۔
سعیر۔ جلنے والا
جہنم (میزان الحکمہ،ج1، ص471، ح2904)
بارگاہ معبود میں دعا ہے کہ ہمیں توفیق دے کہ ہمارا ایمان قوی ہو اور ہم ایسے اعمال انجام دیں کہ جنت میں داخل ہوں اور جہنم سے دور ہو جائیں۔ یہی ماہ رمضان کی اکثر دعاوں کا محور ہیں۔
’’وَفِّقْني فيہ لِتِلاوَة القُرانِ يامُنْزِلَ السَّكينَة في قُلُوبِ المؤمنين‘‘ اور مجھے اس مہینے میں تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما اے مؤمنوں کے دلوں میں سکون نازل کرنے والے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: ’’ خیارکم من تعلم قرآن و عـلمه‘‘ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ (نہج الفصاحہ۔ صفحہ ۴۷۳)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: ’’مَن قَرَاَ فى شَهرِ رَمضانَ آیَة مِن کِتابِ اللهِ کانَ کَمَن خَتَمَ القُرآنَ فِى غَیرِه مِن الشُهُورِ‘‘ جو بھی ماہ رمضان میں قرآن کریم کی ایک آیت کی تلاوت کرے گا گویا اس نے دوسرے مہینوں میں مکمل قرآن کی تلاوت کی۔ (بحار الانوار،جلد ۹۳، صفحہ ۳۴۱)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .