۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
ڈاکٹر کلب صادق

حوزہ/ دینی طلاب کو وصیت کرتاہوں کہ جو ہم نہ کرسکے اسے یہ طلاب انجام دیں صرف رضائے الٰہی کے لئے بالکل بے خوف ہوکر کامل اخلاص اور صرف معبود بر حق پر توکل کرتے ہوئے ہمت سے کام لیں۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی

حوزہ نیوز ایجنسی | وصیت ایک مستحب عمل ہے مگر یہ کہ انسان پر حق اللہ یا حق الناس ہو تو واجب کی ادائیگی کا مقدمہ ہونے کے سبب واجب ہوجائےگی ۔وصیت یعنی انسان سفارش کرے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے کچھ امور انجام دیئے جائیں یا کہے کہ مرنے کے بعد اس کا کچھ مال کسی شخص کی ملکیت میں دے دیا جائے یا وقف کردیا جائے یا خیرات کے طور پر دے دیا جائے یا باقی اولاد وغیرہ کے لئے سر پرست معین کرے وصیت کرنے والے کو موصی اور جس کو وصیت کی جاتی ہے اسے وصی کہتے ہیں ۔

وصیت انبیاء اور آئمہ ؑ کی سیرت رہی ہے ۔ قرآن و روایات میں وصیت کی بہت تاکید کی گئی ہے نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں :

مسلمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ رات اس حالت میں بسر کرے کہ اس کے تکیہ کے نیچے وصیت نہ ہو۔(وسائل الشیعہ:۱۳۔۳۵۲)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں :بغیر وصیت کے مرنے والا انسان جاہلیت کی موت مرتاہے (گزشتہ حوالہ)

یہ کیسے ممکن تھا کہ حکیم امت جن کی زندگی اسلامی تعلیمات کے سایہ میں گزری اس اہم اسلامی تعلیم سے غفلت فرماتے لہذا آپ نے قرآنی سفارشات اور آئمہ ؑ ہدیٰ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے وصیتیں فرمائیں آپ کی وصیت کا ہر جملہ آپ کی ترجمانی کرنے کہ علاوہ آپ کے اعتقادات کی غمازی کرتا ہے جس کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔سردست بعض وصیتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے۔

۱۔ میرے ایصال ثواب کے لئے کثرت سے قرآنی مجید کی تلاوت کی جائے۔ ایصال ثواب کےلئے قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کی تاکید آپ کی نظر میں اس الٰہی کلام کی عظمت و منزلت کی بیان کررہی ہے آپ کی تقریر و تحریر قرآنی آیتوں سے آراستہ رہتی تھی۔ ایسی کتاب کہ جو انسانوں کےلئے کتاب ہدایت اور منشور حیات ہے آپ قرآنی آیتوں کے ذریعہ عالم انسانیت کو واقعی انسان اقدار کی طرف متوجہ فرماتےتھے خصوصا عدل و انصاف کے قیام اور ظلم و نا انصافی کے خاتمہ کی بہت زیادہ تاکید کرتے تھے

ایصال ثواب کےلئے قرآن کی وصیت غالبا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن کی حقیقت نور ہے لہذا روایتوں میں وارد ہواہے کہ اپنے گھروں کو تلاوت قرآن کے ذریعہ نورانی کرو(اصول کافی :۲/۶۱۰) اس دنیا سے گذرکر دوسری دنیا میں پہونچتے ہی انسان کو ہر قدم پر نور کی ضرورت پیش آتی ہے تلاوت کے ذریعہ خود تلاوت کرنےوالے کا دل بھی نورانی ہوتاہے اور جس کےلئےتلاوت کی جاتی ہے اسے بھی ثواب ملتاہے۔

اس مقام پر قابل غور امر یہ ہےکہ تلاوت کے علاوہ قرآنی آیتوں میں فکر و نظر سے کام لے اور اس کے پیغام کو اپنی زندگی میں عملی کرنے کی کوشش کرے میرے ایصال ثواب کی مجالس کے لئے ایسے اصلاحی خطیب کو دعوت دی جائے جس کابیان قرآن و اہلبیت کی تعلیمات پر مشتمل ہو۔

یقیناً آپ حکیم امت ؒ ،آپ کی حکیمانہ اور با بصریت نگاہیں ان تمام امور کی طرف مرکوز تھیں جن کےذریعہ قوم کی اصلاح ممکن ہے ان میں سےایک منبررسول ہے بشرطیکہ یہ منبر اہل کے اختیار میں ہوجس کامعیار آپ نے ایسے اصلاحی خطیب کی شکل میں بیان فرمایا جو قرآن اور اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات کا تذکرہ کرے۔ تاکہ ان تعلیمات پرعمل پیرا ہو کر اہماری قوم سعادت دارین کی منزلوں کو طے کرسکے۔

یہ امر تمام صاحبان فکر و نظرکےلئے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قوم کی اصلاح و افساد میں صاحبان منبر کا کتنا اہم رول ہے منبر پربیان ہونے والے مطالب کو سامعین اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں لہذا ذمہ داران قوم اور بانیان مجالس کا فریضہ ہے کہ اپنے مذہبی پروگراموں خصوصا مجالس میں ایسےخطباء کو دعوت دیں جو اصلاحی ہوں اوران کےمصلحانہ بیانات میں قوم کے درد کا علاج موجود ہو قوم کےحالات کو بہر بنانے کے لئے ہر فرد اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرے۔

۲۔ کوئی شخص میرے لئے ایصال ثواب کا خواہش مند ہو تو وہ کسی بھی مستحق کی تعلیم و تربیت اوراس کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرے۔

ان دونوں وصیتوں میں آپ نےتعلیم پرتاکید فرمائی ہے اس فرق کےساتھ پہلی وصیت میں اپنی تعلیمی معیار اوردوسری وصیت میں دیگرافراد قوم کی تعلیم و تربیت پر توجہ دلائی ہے۔

ایصال ثواب کے لئے مستحق افراد قوم کی تعلیم وتربیت اوران کی کفالت ایک ایسا امر ہے جس کے ذریعہ غالباً قوم وملت کو اس نکتہ کی طرف متوجہ کرنا چاہا ہے کہ اپنے مرحومین کے ایصال ثواب کے لئے قوم کو ایسے بنیادی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ قوم کی ترقی بھی ہو اور مرحومین کے لئے ثواب جاریہ کا سلسلہ بھی قائم رہ سکے مرحوم کا ہم وغم تعلیمی اورتربیتی ارتقا تھا۔

۳۔ میں دینی طلاب کو وصیت کرتاہوں کہ جو ہم نہ کرسکے اسے یہ طلاب انجام دیں صرف رضائے الٰہی کے لئے بالکل بے خوف ہوکرکامل اخلاص اورصرف معبودبر حق پر توکل کرتے ہوئے ہمت سے کام لیں۔ مذکورہ وصیت میں مولانا کلب صادق اعلیٰ اللہ مقامہ نے دینی طلاب کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا ہے اوراس کی انجام دہی کے لئے مختلف شرائط کا ذکر کیا ہے جیسے رضائے الٰہی، اخلاص، توکل،شجاعت اورہمت۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ فرض شناس اورمذکورہ شرائط کے حامل طلاب کی تربیت اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے دینی مدارس کا تعلیمی اورتربیتی نظام ہمہ جہت معیاری ہو اورمعیاری اساتیذ سے استفادہ کیا جائے جو تعلیم کے علاوہ تربیتی ذمہ داریوں کو بھی بحسن خوبی انجام دیں ضرورت اس بات کی ہے ہمارے مدارس کے تمام امور میں بینی و بین اللہ معیار اہلیت کو بنایا جائے البتہ ان باتوں کا اصلاً یہ مقصد نہیں ہے کہ ہمارے سارے مدارس غیر معیاری ہیں۔

دینی طلاب کی کما حقہ تعلیم وتربیت معیاری دینی مدارس پر منحصر ہے اورقوم کے عروج وزوال کا انحصار ان مدارس میں تربیت یافتہ طلاب پر ہے۔اور اپنی آخری وصیت میں فرمایا کہ دنیائے انسانیت میں دلوں کو آپس میں جوڑنے کی کوشش کریں تاکہ آپسی اخوت وبھائی چارگی کی فضا قائم رہتے ہوئے آگے بڑھیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .