تحریر: جوہر عباس ممبئی
حوزہ نیوز ایجنسی| ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو بنگلہ دیش ٹوٹ گیا کیوں کہ وہ بنا ہی ٹوٹنے کیلئے تھا۔ سید سلیمان ندوی کے بقول مسلمانوں کی طاقت ہی ان کی کمزوری ہے، اول یہ آندھی طوفان کی طرح چھا جاتے ہیں پھر اتنی ہی تیزی سے روبہ زوال ہو جاتے ہیں۔
اسے سیرتِ الہیہ کہیں یا قانونِ فطرت، دونوں ہی انسانی زندگی کے ہر شعبے کے عروج و زوال میں ایک خاص ارتقائی عمل اور ترتیب کو مدنظر رکھتے ہیں۔
جس ترتیب کی پاسداری نہ کی جائے تو تیزگامی بہت جلد عدم استحکام میں بدل جاتی ہے۔ بقول سردار جعفری:
لیکن ایسا انجم روشن جبین و تابناک
خود ہی ہوجاتا ہے اپنی تابناکی کا شکار
ہمالیہ کی برف رفتہ رفتہ پگھلتی ہے مگر گنگا جمنا کو خشک نہیں ہونے دیتی، سیلاب لمحوں میں زمین کو جل تھل کردیتا ہے لیکن کچھ ہی دنوں میں وہاں دھول اڑ رہی ہوتی ہے۔
تحریک خلافت، تقسیم ہند، قیام بنگلہ دیش اور موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو مسلمانوں کی ایک ہی مشکل ہے، آنا فانا نتیجہ دینے والے اقدامات میں ان کی دلچسپی۔
جسے جوشیلے نعروں سے جاہل عوام کے رگ و پے میں بسایا جاتا ہے، اور نتیجتا یہ سارے اقدامات جو کبھی اپنے وقت میں کامیاب ترین سمجھے جاتے ہیں ان کے سب سے بڑے شکار خود مسلمان نظر آتے ہیں۔
تقسیم ہوئی تھی مسلمانوں کی بہتری کیلئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی سرحد پہ مخالف تک نے تسلیم کیا کہ ہم نے مسلمانوں سے زیادہ بدلہ لے لیا، اور مشرق میں بنگالیوں نے مذہبی نعروں کے دم پر زبردستی ٹھونسی گئی یگانگی کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔
جب ایک ملک (مشرقی اور مغربی) بنا ہی بغیر منصوبے کے ہے تو چلے گا بھی بغیر منصوبے کے۔
زمینداروں کے ٹولے نے بغیر سیاسی تجربے کے ایک ملک بنالیا اور تب سے اب تک اسے وڈیروں کی طرح چلا رہے ہیں۔
باتیں ہزار منصوبہ ندارد
کانپور میں محمد علی جناح سے لوگوں نے پوچھا ہمارا کیا بنے گا تو موصوف نے کہا کہ باقیوں کی نجات کیلئے تم دوکروڑ درجۂ شہادت کو پالو۔
خان لیاقت نے کہا کشمیر کے پتھروں کیلئے پنجاب سے بڑی ریاست نہیں چھوڑ سکتا۔ نتیجہ مت پوچھئے۔
ڈاکٹر اسرار احمد نے شوقیہ بیان فرمایا کہ ہم لوگ سینتالیس میں کہتے تھے "ارے دونوں طرف سے پاکستان دبائے ہوگا کسی کی مجال ہے مسلمان کو چھو سکے" اس دوران وہ دونوں بازوؤں سے دبانے کا اشارہ بھی کررہے تھے، بس دیکھتے جائیں اور سر دھنتے جائیں۔
فرمایا نیا ملک چاہیئے کیوں کہ ہمارا ہیرو ولین، کھانا پینا اور لباس الگ ہے۔ کون کہتا کہ سرکار! مسلمانوں کے انٹرنل ہیروز کے درمیان بھی بعد المشرقین پایا جاتا ہے۔
۲۳ سال بعد آئین بنا اور اب تک اس میں ڈھائی سو سالہ قدیم امریکی آئین سے بھی زیادہ ترامیم ہوچکیں۔
سقوطِ ڈھاکہ کے برسوں بعد کسی افسر نے اس وقت کا عسکری منصوبہ مانگا تو اردلی نے کہا جناب وہ کبھی تھا ہی نہیں۔ زیڈ اے بھٹو نے کہا حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ مجھ سے کہیں کھوگئی۔
بنگلہ دیش میں دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئیں لیکن مغربی پاکستان کی پیشانی سے تیس لاکھ کے قتل اور ترانوے ہزار فوجیوں کی گرفتاری جیسا بے سروپا داغ بھی مٹائے نہیں مٹ رہا ہے۔
کیوں؟ کیوں کہ کسی کے پاس لانگ ٹرم منصوبہ نہیں تھا۔ سب کو اپنی زندگی میں فوری نتیجہ چاہیئے تھا بشمول محمد علی جناح۔
پاکستان کا ہر افسر چاہتا تھا اس کی گردن نہ پھنسے یحیا خان، جنرل نیازی، جنرل مٹھا، جنرل گل خان، زیڈ اے بھٹو کسی کا احتساب نہ ہوا کیوں کہ سب کے سب کسی بھی پلاننگ سے خالی تھے ایک کا ٹرائل یعنی سب کا ٹرائل۔ فوجی قیادت کو مفت خوری اور سیاستدانوں کو پولینڈ کی قرار داد پھاڑنے جیسا سینسیشن چاہیے تھا وہ مل گیا بس کافی ہے۔ بعد میں کیا ہوگا وہ دیکھا جائے گا۔
بعد والی ذلت کو کیسے کاٹا یہ بھٹو اور زاہد الاسلام سے پوچھئے۔
غرض اس تحریر کی یہ ہے کہ مسلمانوں میں اب بھی وہی سینسشنل ازم بک رہا ہے۔ آج کل انڈیا میں بیرسٹر اسد الدین اویسی بھی خوب مقبول ہیں جن کے منشورِ سیاست کا ایک ایک سینٹی میٹر سابقہ پیشرووں کی کاپی ہے۔
آغاز سے لیکر اب تک اویسی نے جناح کی طرح ذاتی مقبولیت تو بلاشبہہ کمائی مگر اس کی قیمت پہ گفتگو مسلمان کا شجر ممنوعہ ہے۔
صرف ٹائم لائن پہ نظر ڈالیں تو ۲۰۱۲ میں اکبرالدین اویسی نے اپنی مشہور واہیات تقریر کی اور ۲۰۱۴ آپ کے سامنے ہے، ورنہ آر ایس ایس تو ہمیشہ موجود تھی۔
مجلس لیڈران کبھی نتیجہ نہیں دیکھتے انہیں بس اپنی انتخابی مہم کے نعرے نظر آتے ہیں۔ مزید تسلی کیلئے مہاراسٹرا کے حالیہ نتائج دیکھ لیں۔
اویسی صاحب بڑے طمطراق سے کہتے نظر آتے ہیں کہ میں اگر بی جے پی کی بی ٹیم ہوں تو میری دو چار نشستوں کے علاوہ باقی سیٹوں پر وہ کیسے جیت جاتی ہے؟
اب کون سمجھائے کہ جناب عالی میدانِ انتخاب میں "مجلس اتحاد المسلمین" کا تشریف لے آنا ہی کافی ہے۔
یہ تیسری دنیا کی عوام ہے یہاں منطق فلسفہ نہیں چلتا، عوام الناس کو ڈیولپمنٹ کے نام پر لبھایا جاتا ہے، مکمل ہندو سیاست کرنے والی پارٹی کا نام بھی "ہندو جنتا پارٹی" نہیں رکھا جاتا تاکہ سننے والے کو لاشعوری الجھن نہ پیدا ہو، جب کہ آپ کی پارٹی "مجلس اتحاد المسلمین" کا ترجمہ سن کر ہی اسی فیصد عوام کا پتا پانی ہوجائے۔
کم از کم پارٹی کا نام اور نعرہ بدلے بغیر یہ حضرت تقدیرِ امت پہ مزید ڈانگ پھیریں گے۔ ایک قابل وکیل (جناح) کی طرح یہ اپنا کیس تو جتینا چاہتے ہیں لیکن موکل کا کیا بنتا ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عوام چاہے جتنا تنگ ہو جائے مگر ارباب اقتدار انہیں ہمیشہ اسٹیج پر رکھنا چاہتے ہیں۔
لہٰذا یہ بی ٹیم ہوں یا نہ ہوں، مگر فائدہ اے ٹیم سے زیادہ پہنچا رہے ہیں۔
انڈیا میں اب تک صرف دوپارٹیوں نے خالص مذہبی نعرہ لگایا، لیکن شدید مقبولیت اور اکثریت کی نمائندہ ہونے کے باجود اکالی دل اور شیو سینا اپنے صوبے سے باہر نہیں نکل سکیں۔ آپ تو ہیں ہی چودہ فیصد۔
لہٰذا اگر طویل المدتی منصوبہ بندی نہیں ہے تو مزید آفات کیلئے تیار رہیں۔
"ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات" میں صرف قوت بازو کا انحطاط زیر بحث نہیں ہے، کاتبِ تقدیر کیلئے ایک اندھا مقلد اور کوتاہ نظر بھی کمزوروں والی سزا کا مستحق ہوتا ہے۔
مسلمان نگاہ اٹھائیں، غیر ممالک میں اقلیتیں کیسے رہتی ہیں ایک بار اس پر غور کریں، ان کی حکمت عملی پہ نظر دوڑائیں، اور سکون سے آمادگی کریں، یہ حالات یقینا بدلیں گے مگر صرف اس وقت جب ہم اس مدعو لہ تبدیلی کیلئے آمادہ ہوں۔ ہماری صفوں میں ظلم و زیادتی نہ ہو، اب تک تو یہی دیکھا ہے کہ پہلے مخلوق اپنی تیاریاں پوری کرکے مکمل لاچار ہوجائے، اس کے بعد کار ساز مطلق اپنی حدود اختیار کا اظہار فرماتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ السّلام کیلئے بھی بند دروازہ کھلا مگر اس وقت جب وہ پہلے ہی دوڑ لگا چکے تھے۔
بنگالی برادران کو "یوم فتح" مبارک
آپ کا تبصرہ