بدھ 19 فروری 2025 - 21:17
خطیب اعظم کی تبلیغی راہ میں زحمت اور سادگی!

حوزہ/چہرہ پُرعزم تھا اور ماتھے پر پیسنے کی بوندیں، دین کی راہ میں مشقتوں کی گواہ تھیں؛ نگاہوں کے اندر وہ ایمانی حرارت تھی کہ جس منجمد وجود پر کچھ دیر پڑ جائے اسے موم کی طرح پگھلا دے، لبوں کی مسکراہٹ سالہائے سال کی تھکاوٹوں پر غالب آ کر اس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ منزلیں جب قدم چومنے لگیں تو تھکاوٹوں کے شہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور حصول ہدف کے قلعہ پر کامیابی کے ساتھ تبسم ہی کا پرچم لہراتا ہے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| چہرہ پُرعزم تھا اور ماتھے پر پیسنے کی بوندیں، دین کی راہ میں مشقتوں کی گواہ تھیں؛ نگاہوں کے اندر وہ ایمانی حرارت تھی کہ جس منجمد وجود پر کچھ دیر پڑ جائے اسے موم کی طرح پگھلا دے، لبوں کی مسکراہٹ سالہائے سال کی تھکاوٹوں پر غالب آ کر اس بات کا احساس دلا رہی تھی کہ منزلیں جب قدم چومنے لگیں تو تھکاوٹوں کے شہر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور حصول ہدف کے قلعہ پر کامیابی کے ساتھ تبسم ہی کا پرچم لہراتا ہے۔

شیروانی پسینے سے یوں بھیگ چکی تھی کہ گویا آنے والا موسلا دھار بارش میں بھیگ کر آیا ہے، لیکن نہ گرمی کا گلہ نہ تھکن کا اظہار منزل پر پہنچتے ہی بیگ ایک طرف رکھا اور کہا فوراً اعلان کر دیں اس مجلس کے بعد مؤمنین سے گفتگو کر کے دوسرے قریے کے لیے نکلنا ہے؛ کسی نے کہا: حضور ابھی تشریف لائے آرام فرما لیں! کہا: نہیں ابھی تو بہت آگے جانا ہے، زندگی میں آرام ہی آرام کیا ہے کچھ کام بھی کر لیں۔مجلس ہوئی مؤمنین سے خطاب کیا، دین و دنیا کی اصلاح کی باتیں کیں، علاقے کی تعلیمی صورت حال کا جائزہ لیا؛ ضروری پوائنٹس ڈائری نکال کر نوٹ کیے، مؤمنین کرام سے فرداً فرداً احوال پرسی کی، پھر آگے کی منزل کی طرف آنے والا چل دیا، کچھ بھلے مؤمنین ساتھ ہو لیے، دوسرے دیہات میں پہنچتے پہنچتے شام ہو چلی تھی، کسی نے کہا: چلیں اب یہاں آرام کر لیں! مجلس تو مغربین کے بعد ہوگی، آپ نے اس سے پہلے بھی آرام نہیں کیا، مسلسل چلے جا رہے ہیں، بڑا خوبصورت جواب دیا:

تھکن بہت تھی مگر سایہ شجر میں جمال

میں بیٹھتا تو میرا ہم سفر چلا جاتا

اب کہنے کو کچھ نہ تھا، بس سب مل کر دعا ہی کر سکتے تھے، مالک اس مجاہد و درد مند و مسیحائے قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھ! جسے راتوں میں مصلائے عبادت پر مالک سے راز و نیاز میں دیکھتے ہیں اور دن میں خلق خدا کے لیے مصروف عمل، جب گھر کے بارے میں تھکن کے بارے میں پوچھو تو جواب آتا:

جو سارے دن کی تھکن اوڑھ کر میں سوتا ہوں

تو ساری رات مرا گھر سفر میں رہتا ہے

ایسے لوگوں کے لیے ہم جیسے لوگ دعا ہی کر سکتے ہیں۔

کھیتوں کی پگڈنڈی پکڑے ایک دیہات میں پہنچے کیچڑ سے گزرتے ہوئے پاجامے کو ٹخنوں سے اوپر کیے لوگ دیکھتے رہے، لیکن کوئی مدد کے لیے نہیں آیا؛ لگتا ہے اس سے پہلے کوئی بظاہر کامیاب مجلس ہو چکی تھی، نہ کسی نے بیگ سنبھالنے کی پیش کش، نہ کوئی استقبال کے لیے، شاید لوگ باور کر چکے دین چرانے والا چور پھر آ گیا ہے، بعض نے دیکھا بھی تو بچوں سے کہا: کواڑیں بھیڑ کر کنڈی چڑھا دو! پھر آ گئے عقیدہ خراب کرنے والے وہی مولوی صاحب، لیکن وہ انسان چلتا رہا سیدھے مسجد پہنچا کنوئیں سے پانی بھرا کپڑوں کو صاف کیا نماز پڑھی اور مؤمنین کا انتظار کرنا شروع کیا، کچھ مؤمنین آئے، کچھ چلے گئے، جو رکے انہیں بڑے دلنشیں انداز میں دین کے اصولوں کے بارے میں سمجھایا اثر یہ ہوا انہیں میں سے ایک نے بیگ اٹھایا مولانا چلئیے کیا ہم مر گئے ہیں، ہمارے گھر جتنے دن چاہئیں قیام کریں! کہتے کہتے کندھا جھک گیا اور بیگ نیچے آگیا، کسی جوان سے کہا: بیٹا مولانا کا بیگ گھر پہنچا دو! اور خود سوالیہ نظروں سے استفسار کیا! سرکار بیگ میں کیا لیکر چلتے ہیں؟ جواب تھا "تبلیغ دین کے لیے جو بھی ضروری سامان ہو سکتا ہے بیگ میں موجود رہتا ہے، ضروری کتابیں، توضیح المسائل سے لیکر بچوں کے انعامات، ڈائری، فائل، رسید بک و کپڑے تہمد شیروانی۔۔۔"

کہنے والے نے کہا: لیکن بیگ تو کچھ زیادہ ہی بھاری ہے جیسے پتھر بھرے ہوں؛ مسکرا کر جواب دیا: زیادہ بھاری تو نہیں ہے، لیکن آپ کی عادت نہیں ہے اس لیے زیادہ بھاری ہے، یہ کہہ کر بات کو ٹال دیا، ایک جوان نے لیجا کر بزحمت بیگ کو کمرے میں رکھ دیا۔

بات آئی گئی ہو گئی رات میں بہت سے لوگ آئے جو مولوی صاحب کی شخصیت سے متاثر تھے، کچھ نے کہا: ہم کچھ مدد کرنا چاہتے ہیں، آپ کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، کہا: میرے لیے نہیں ادارے کے لیے کچھ کر سکتے ہوں تو کریں! یہ کہہ کر میزبان سے کہا: ذرا بیگ سے رسید بک تو نکالیں! میزبان نے اب جو رسید بک نکالنے کے لیے بیگ کھولا تو حیران رہ گیا! سامنے چھوٹا سا اسٹوو رکھا تھا ساتھ تھلییوں میں کچھ دال چاول۔ رسید بک لا کر دی اب رسید کٹ جانے کے بعد مؤمنین کے جانے کا انتظار بہت طاقت فرسا تھا، ایک بات ختم ہوتی دوسری شروع، ایک سوال کا جواب ہوتا، دوسرا سامنے آجاتا، بڑی مشکل سے جب لوگ چلے گئے اور خلوت ہوئی تو سوال منھ پر آ گیا۔ حضور یہ اسٹوو دال چاول لیکر چلنے کی ضرورت کیا ہے؟ جواب دیا: اس لیے کہ بعض مؤمنین آپ کی طرح مسجد میں ملتے ہیں تو یا کھانے کا اہتمام کر دیتے ہیں یا گھر لے آتے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کوئی نہیں پوچھتا، یہ ساری چیزیں اس لیے ساتھ رکھتا ہوں کہ اگر کوئی نہ پوچھے تو کسی کے سامنے سوال کرنے کی شرمندگی نہ اٹھانی پڑے اور کبھی کئی کئی دن سفر پر رہنا ہوتا ہے جب بھوک لگتی ہے تو کسی باغ میں یا کسی مناسب جگہ بیٹھ جاتا ہوں، اسٹوو روشن کرتا ہوں، پتیلی چڑھا دیتا ہوں، دال چاول بھی بنانا آتا ہے اور کھچڑی بھی خدا کے فضل سے اچھی بن جاتی ہے اور کہیں کہیں تو خود بھی کھاتا ہوں اور مؤمنین کو بھی کھلاتا ہوں، اللہ کا فضل ہے تبلیغ کا کام یوں جاری رہتا ہے۔

راہ تبلیغ میں اب ایسے غلام عسکری رحمۃ اللّٰہ علیہ کہاں؟ جو ہر چیز سے بے نیاز ہو کر بس دین خدا کے بارے میں سوچتے تھے۔

الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن

ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha