پیر 17 فروری 2025 - 14:22
یومِ معلم

حوزہ/١٨ شعبان المعظم کی وہ تاریخ تھی جس میں شمع علم فروزاں کی لو خاموش ہو گئی، ستارہ تبلیغ ڈوب گیا، اخلاص عمل کا راہی تھک کر سو گیا، پوری ملت کو بیدار کرکے وہ آخری نیند میں چلا گیا، جس نے اپنی قوم کے ضمیر کو کبھی سونے نہیں دیا۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی|١٨ شعبان المعظم کی وہ تاریخ تھی جس میں شمع علم فروزاں کی لو خاموش ہو گئی، ستارہ تبلیغ ڈوب گیا، اخلاص عمل کا راہی تھک کر سو گیا، پوری ملت کو بیدار کرکے وہ آخری نیند میں چلا گیا، جس نے اپنی قوم کے ضمیر کو کبھی سونے نہیں دیا؛ افسوس کے وہ باضمیر خود آغوش اجل میں چین کی نیند سو گیا وہ اک ایسا چراغ حقیقت تھا جس کی لو سے ابھی تک مکاتب کے چراغ روشن کیے جا رہے ہیں، اسی کے سنگ اخلاص سے تعمیر شدہ تنظیم کی عمارتیں ہیں، پورے ملک میں قحط الرجال کے زمانے میں افراد کا جائز احتکار کیا گیا جن چنندہ افراد کو آپ نے مقصد تبلیغ کے لیے روانہ کیا ان کے اخلاص عمل پہ شک عمری ذہنیت کی اندھی تقلید کے سوا کچھ نہیں اور بانی تحریک کی نیت پر شک سفیانی صفت افراد کی مجبوری کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اس نصف صدی میں اگر ہندوستان میں اردو بولی یا لکھی جا رہی ہے یا سمجھی جا رہی ہے تو یہ بانی تنظیم کی محنتوں کا خراج ہے اس طرح یوم معلم پر محسن ملت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا جسکا احسان شرف زبان وقلم پر ہی نہیں دیندار معاشرہ کی رگوں میں بھی اس کا پلایا ہوا لہو ہے جس نے جادہ سید سجاد ع پر چل کر سماج کی پہنائی ہوئی تمام تر اذیتوں کی بیڑیاں طعنوں کی ہتھکڑیاں اور مخالفتوں کے طوق خاردار کو زیر لب تبسم کے ساتھ پہن کر امام ع کا سچا چاہنے والا ہونے کا ثبوت فراہم کیا اس نےملک عزیز کی پر خوار راہوں پر چلنا ایسا سمجھا کہ پھول گویا اسکی راہوں میں بچھے ہوئے ہیں کبھی کشمیر کی پہاڑیوں کی چوٹیوں کا سفر تو کہیں بنگال کی کھاڑیوں اور جھاڑیوں کا اذیت ناک سفر تو کبھی راجستھان کے ریگزار تو مہارشٹرا کا طویل و عریض سفر اس گنگا جمنی تہذیب میں شریعت کے گھاٹ سے اہل شعور کو سیراب کرنا رسم و رواج کی کڑیوں میں جکڑی ہوئی قوم کو آزادی کا مژدہ سنانے والی ذات عالی وقار کو خطیب اعظم غلام عسکری طاب ثراہ کہتے ہیں جو اپنے دور کا خطیب ادیب طبیب تھا جسکے پیچھے رقیب بھی دست با خنجر تھے جنھیں حسد کی بیماری نے گھیر رکھا تھا ہزاروں مخالفتوں کی باد مسموم میں بھی معصوم کے مقاصد کی شمع اخلاص جلا کر اپنی ذات کو فانوس بنادیا اور آنے والے ہر حملہ سے تحریک کو محفوظ کر گیا دوہزار ایک میں جب جامعہ امامیہ سے فراغت کا شرف ملا اور مبلغ ثانی کی ڈگری حاصل کی اور شوق تبلیغ وہ دیا دل میں ٹمٹمانے لگا جسکی اصل کا سرا خطیب اعظم مرحوم سے ملتا ہے تو انھیں کے بنائے ہوئے قانون کے فراغت کے بعد طالب علم کو میدان عمل میں اتارا جائے تاکہ تعلیم و تربیت جو حوزہ کی چہار دیواری میں ہوئی ہے اس کی آزمائش کی جا سکے جس تلوار پر صیقل ہو چکی ہے اسکے استعمال کے لیے میدان عمل کی فراہمی بھی ایک ضروری امر تھا تعلیم و تربیت کا اصل اسکا حقیقی استعمال ہے۔

بہر کیف اسی غرض سے تنظیم کے دفتر میں خدمت کا موقع ملا اور وہاں سے دورۂ تبلیغ کی غرض سے بحیثیت انسپیکٹر کے تقرر عمل میں آیا اور اعظم گڑھ ضلع کے چالیس مکاتب کے امتحان کا بار گراں ہمارے نحیف کاندھوں پر آیا شوق تبلیغ جوش عبادت و خدمت اور ایک جزبہ کے آٹھ دس سال سے مال امام مدرسہ میں کہا رہے ہیں اب اسکے نمک کا حق ادا کرنا ہے اس ارادہ نے قدموں میں ناتوانی کی زنجیروں کو توڑ دیا اور اپنے نحیف سے وجود کے ساتھ نکل پڑے۔

اس زمانہ کا شہرت یافتہ جملہ ہے بچے سے بھاری بستہ ہم بھی اسی جملہ کا شکار اپنے آپ کو محسوس کرنے لگے جب چالیس مکاتب میں ممتاز آنے والے طلبہ کے لیے انعامات کا ایک بڑا سا تھیلا جب دفتر سے دیا جانے لگا اور اسے ہر جگہ کمر پر لاد کر جانا تھا اسی دوران کا ایک حسین ترین واقعہ ہے جو بیاض ذہن سے محو نہیں ہوتا جس سے خطیب اعظم مرحوم کی شخصیت عظمت اور لوگوں کے دلوں میں انکی بے پناہ محبتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کسی گاوں میں امتحان کی غرض سے جانا تھا شہر سے سات کلو میٹر کے فاصلے سے ایک آٹو رکشہ پکڑا اور اسکے بعد وہاں سے چار کلو میٹر پیدل چلنا تھا دھوپ کی شدت گرمی اپنے عفان پر، تھی کمر پر اپنے وجود سے بھاری بھر کم تھیلا تھکن سے چور ، لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ جب مسافت عبادت مکمل ہوئی جب اس گاؤں کے گلیارے میں پہونچے تو دیکھا نیم کے پیڑ کی چھاؤں میں ایک با رونق بزرگ بیٹھے ہوئے ہیں اور کڑوے درخت کے نیچے ٹھنڈی ہوا کا لطف اٹھا رہے ہیں ان کی نظر جیسے ہی میرے بوسیدہ وجود پر پڑی دیکھا میرے چہرے سے تھکان کے آثار صاف نظر آرہے تھے میرا پورا وجود پسینہ میں شرابور تھا پیشانی کی شکنوں سے پسینہ کی بوندیں ٹپک رہی تھی میری اس حالت کو دیکھ کر انھوں نے منھ ہاتھ دھونے اور پینے کے لیے پانی منگوایا اور مجھے دیکھ دیکھ کر انکی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسوؤں گرنے لگے یوں تو کسی کا رونا بہت برا لگتا ہے مگر پتہ نہیں کیوں انکا میری سمجھ کے حساب سے میرے لیے رونا مجھے بہت اچھا لگا کہ چلو کسی نے تو محنت کو محبت کی آنکھوں سے سراہا اور میرے چار کلو میٹر کے اس بوجھل سفر پر کسی کو ترس آیا ہم نے ان کو چپ کرواتے ہوئے پوچھا کہ آپ پریشان نہ ہوں یہ سب تو دین کی خدمت ہے اور ہمارا فریضہ ہے، لیکن ان کے جواب نے میرے ہوش اڑا دیئے اور ایک لمحہ کے لئے تو غیض و غضب نے ہمیں گھیر لیا جب اس بزرگ نے کہا کہ ہم آپ پر نہیں رو رہے ہیں میری خوش فہمی کا مانو جنازہ نکل گیا ہو ہم نے بڑے ادبی لہجہ میں پوچھا پھر آپ کس کو رو رہے ہیں اور کیوں رو رہے ہیں؟

اُنھوں نے برجستہ کہا: میں مولانا غلام عسکری طاب ثراہ کو رو رہا ہوں، کیونکہ آپ تو جوان ہیں اور صرف چار کلو میٹر پیدل چلیں ہیں اور آپ کی حالت خراب ہے مگر قبلہ مرحوم بزرگی ضعیفی کے باوجود وہاں سے پیدل آتے تھے جہاں سے آپ کو رکشہ ملا تھا جبکہ اس دور میں راستہ بھی آسان نہیں تھا کہیں جنگل تھا تو کہیں کیچڑ کادے والا راستہ مگر مرحوم گیارہ کلو میٹر پیدل چل کر اس گاوں میں آتے تھے اور پھر یہاں مکتب کا جایزہ تعلیمی جایزہ لیتے تھے مسجد میں جایے چڑھا کر مجلس کا اعلان کرتے تھے اور نماز جماعت کے بعد تبلیغ دین وہ بھی مفت میں کیا کرتے تھے اور اسی طرح واپس جاتے تھے نہ کوئی سواری اور نہ کوئی ساتھی وہ اور انکی تنہائی مگر اخلاص کی وہ ہمالیائی چوٹی پر براجمان تھا جہاں پوری شیطنت مل کر بھی اس کے قدم لڑکھڑا نہیں سکتی تھی اس بیان نے میرے وجود کو لرزہ بر اندام کردیا یقین جانیے وہاں سے اگر مجھے آگے چلنا پڑتا تو شاید میں سب کچھ چھوڑ کر دست بردار ہو جاتا مگر یہ بھی حقیقت ہیکہ خدا کسی بندے کو اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا لکھنا بہت آسان ہیکہ گیارہ کلو میٹر پیدل چلے مگر جو چار کلو میٹر چل چکا ہے اسکے جگر سے پوچھو کے چلنا کیا ہوتا ہے ای سی روم میں بیٹھ کر تبلیغات کے دفتر کھول کر معلمین و مبلغین کا استحصال و استعمال بہت آسان ہے مگر منزل عمل میں قدم بہت مشکل ہے خدمت دین مبین اور وہ بھی مخلصانہ روش پر چلتے ہوئے ایک بہت بڑے جگر کا کام ہے کسی کی محنتوں کو نظر انداز کرنا آسان ہے مگر راہ حق کا مجاہد بن کر اپنے اخلاق و کردار سے خدمت دین کرنا بہت مشکل ہے یہ تحریر طنز نہیں ہماری زندگیوں کی حقیقت ہے اس کڑوی دوا کا مستحق میں سب سے پہلے اپنے آپ کو سمجھتا ہوں۔

رب کریم خطیب اعظم کی مغفرت فرمائے اور جوار رحمت و عصمت میں جگہ عنایت فرمائے۔

ایک سورۂ فاتحہ کی گزارش ہے!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha