تحریر: داؤد حسین بابا
حوزہ نیوز ایجنسی| کشمیر،جسے قدرت نے اپنی تمام تر خوبصورتی، رحمت اور برکتوں سے نوازا تھا، آج ایک ایسے بحران سے گزر رہا ہے، جس کی تکلیف ہر حساس دل محسوس کرتا ہے، یہ وہ سرزمین ہے جہاں کبھی دریاؤں کا پانی شفاف آئینے کی طرح بہتا تھا، جھیلوں کی گہرائیوں میں سکون کی لہریں رقص کرتی تھیں اور ہر طرف فطرت کی رنگینیاں بکھری ہوئی تھیں، مگر آج یہ سرزمین چیخ چیخ کر ہم سے سوال کر رہی ہے کہ آخر اس کا قصور کیا ہے؟
شراب نوشی، بے حیائی، جنسی بے راہ روی اور منشیات کی لعنت نے کشمیر کی پاکیزگی کو آلودہ کر دیا ہے۔ معصوم جانوں کا بے دردی سے دریاؤں میں پھینک دیا جانا صرف ایک جرم نہیں، بلکہ انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ سب دیکھ کر کلیجہ پھٹتا ہے کہ وہ زمین جہاں کبھی اولیاء کرام کی دعاؤں کی مہک تھی، وہاں آج گناہوں کی سیاہی چھا گئی ہے۔
ہم بھول گئے کہ جب انسان حد سے بڑھ جاتا ہے تو قدرت بھی اپنا انتقام لیتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے دریاؤں میں پانی کم ہوتا جا رہا ہے، جھیلیں سوکھ رہی ہیں اور فطرت ہم سے روٹھتی جا رہی ہے۔ ہم نے اپنی بداعمالیوں سے قدرت کی رحمتوں کو کھو دیا ہے۔ یہ خشک سالی محض ایک موسمی تبدیلی نہیں بلکہ ہمارے اعمال کا آئینہ ہے، جو ہمیں بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو یہ سرزمین مزید تباہی کی گواہ بنے گی۔
ہمیں واپس لوٹنا ہوگا۔ ہمیں اپنے رب کے سامنے جھک کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی۔ ہمیں اس نسل کو اخلاقیات اور دین کی روشنی میں واپس لانا ہوگا، ورنہ وہ دن دور نہیں جب یہ زمین ہماری بے حسی پر ماتم کرتی رہے گی اور ہم کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے۔ یہ وقت ہے سدھرنے کا، سنورنے کا اور اپنے کشمیر کو اس کی کھوئی ہوئی پاکیزگی لوٹانے کا، ورنہ نہ قدرت ہمیں معاف کرے گی اور نہ تاریخ۔
آپ کا تبصرہ