پیر 17 فروری 2025 - 14:04
خطیبِ اعظم؛ مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ

حوزہ/ مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ اپنے وقت کے ایک عظیم اور شعلہ بیان خطیب تھے، اردو زبان دنیا میں آپ کی خطابت شہرہ آفاق تھی اور خطابت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والے خطیب تھے آپ نے خطابت کو ایک نیا رخ دیا اور خطابت میں فضائل و مناقب کے ساتھ تعلیماتِ اسلام اور پیغامِ اہل بیت علیہم السّلام کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کو خطابت کی روح اور اسے اہم جزء کے طور پیش کیا کہ جو دیگر پڑھے لکھے بابصیرت، متدین، ایماندار خطباء و ذاکرین کے لیے ایک راہ، سمت اور اسوہ قرار پایا۔

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین سید کرامت حسین جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| خطابت صرف بولنے، شوشے چھوڑنے اور جملے بازی کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک فن ہے جس میں مؤثر انداز، دلنشین لہجہ، مدلل گفتگو اور سامعین کو قائل کرنے کی صلاحیت شامل ہوتی ہے۔ ایک اچھا خطیب نہ صرف الفاظ کا انتخاب عمدہ کرتا ہے، بلکہ اپنی آواز، جسمانی حرکات، اور جذباتی اثر کو بھی استعمال میں لاتا ہے، تاکہ اس کا پیغام سننے والوں کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑے اور سب سے اہم بات خطابت کا ایک مقصد ہوتا ہے، جس کے لیے خطابت کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے، حقیقی خطابت وہی ہے جو سننے والوں کے خیالات کو متاثر کرے، ان کے جذبات کو ابھارے اور ان کے عمل میں تبدیلی لانے کی قوت رکھتی ہو جو سامعین کی زندگی میں انقلاب پیدا کرے۔

مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ اپنے وقت کے ایک عظیم اور شعلہ بیان خطیب تھے، اردو زبان دنیا میں آپ کی خطابت شہرہ آفاق تھی اور خطابت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے والے خطیب تھے آپ نے خطابت کو ایک نیا رخ دیا اور خطابت میں فضائل و مناقب کے ساتھ تعلیماتِ اسلام اور پیغامِ اہل بیت علیہم السّلام کے ذریعے معاشرے کی اصلاح کو خطابت کی روح اور اسے اہم جزء کے طور پیش کیا کہ جو دیگر پڑھے لکھے بابصیرت، متدین، ایماندار خطباء و ذاکرین کے لیے ایک راہ، سمت اور اسوہ قرار پایا، آپ اپنے منفرد اندازِ بیان، علمی گہرائی، اور مدلل خطابت کی بدولت سامعین پر گہرا اثر چھوڑتے تھے۔ آپ کی خطابت میں قرآن، حدیث، تاریخ و منطق اور معاشرے کی اصلاح و فلاح کا حسین امتزاج پایا جاتا تھا، جس کی بدولت آپ ہر طبقے کے افراد کو اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہتے۔

آپ کی بھاری گرجدار آواز میں ایسا درد اور ایسی تاثیر تھی کہ سننے والے مسحور ہو جایا کرتے ، اور اندازِ بیان ایسا ہوتا کہ پیچیدہ سے پیچیدہ موضوع بھی آسانی سے ذہن نشین ہو جاتا۔ آپ محض ایک روایتی خطیب نہیں تھے بلکہ ایک فکری رہنما تھے، جو اپنی خطابت کے ذریعے قوم کی فکری و علمی تربیت بھی کرتے تھے۔

اصلاحِ معاشرہ میں آپ کی خطابت کا کردار:

1. عقائد و اعمال کی درستی :

آپ اپنی خطابت میں توحید، نبوت، امامت اور قیامت جیسے بنیادی اسلامی عقائد کو مضبوطی سے پیش کرتے اور ان پر وارد ہونے والے شبہات کا مدلل جواب دیتے۔ لوگوں کو خرافات سے نکال کر حقیقی اسلامی تعلیمات کی طرف راغب کرتے تھے۔

2 بدعات اور غلط رسم و رواج کے خلاف آواز:

خطیب اعظم نے اپنی خطابت کے ذریعے معاشرے میں رائج غیر اسلامی رسوم و بدعات کے خلاف بھرپور آواز بلند کی۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ دین کو اصل تعلیمات کے مطابق سمجھا جائے نہ کہ غیر ضروری رسومات کا حصہ بنایا جائے۔

3. اخلاقی اور سماجی اصلاح:

آپ کے بیانات کا ایک نمایاں پہلو اخلاقی تربیت تھا۔ معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائیوں، جیسے جھوٹ، غیبت، ناانصافی، اور ظلم کے خلاف سخت مؤقف رکھتے تھے اور سامعین کو عملی اصلاح کی ترغیب دیتے تھے۔

4. اتحاد بین المسلمین:

آپ ہمیشہ فرقہ واریت کے خلاف تھے اور امتِ مسلمہ کو جوڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ اپنے بیانات میں اتحاد، اخوت اور باہمی رواداری پر خاص زور دیا کرتے تھے

5. تعلیم و تربیت پر زور:

مولانا سید غلام عسکری نے بارہا تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور قوم کو علمی میدان میں ترقی کرنے کی ترغیب دی۔ وہ کہتے تھے کہ جب تک مسلمان تعلیم حاصل نہیں کریں گے، وہ حقیقی معنوں میں ترقی نہیں کر سکتے

اور تعلیم و تربیت کی زبانی تبلیغ نہیں کرتے تھے بلکہ تنظیم المکاتب جیسے بے مثال ادارے کی تاسیس و بنیاد رکھی اور پورے ھندوستان میں دینی علمی مکاتب و مراکز کا جال بچھا دیا

خلاصہ یہ کہ آپ نے اپنی خطابت کو محض روایتی مجلسوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اصلاحِ معاشرہ کا ایک انقلابی ذریعہ بنایا۔ آپکے الفاظ میں وہ قوت تھی جو سننے والوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر دیتی اور انہیں اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے پر آمادہ کرتی۔ آپ کی خطابت آج بھی ایک مشعلِ راہ ہے، اور آپ کے دیئے گئے اصلاحی نکات علمی اصلاحی اور معاشرتی ترقی کے لیے ہمیشہ قابلِ عمل رہیں گے ۔

۱۸ شعبان ۱۴۴۶ھ

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha