جمعرات 6 نومبر 2025 - 21:29
خطابت؛ معاشرے کا ایک بڑا المیہ!

حوزہ/یہ دور فکری بیداری، شعور و آگہی اور وقت کی قدر کا دور ہے، مگر افسوس کہ برصغیر میں خطابت کا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ہاں ممبر و محراب کا تقدس اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن خطابت کا معیار رفتہ رفتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج اکثر خطیب حضرات اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ممبر پر جانا صرف بولنے کا نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور سکھانے کا عمل ہے۔

تحریر: مولانا سید محمد کوثر علی جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ دور فکری بیداری، شعور و آگہی اور وقت کی قدر کا دور ہے، مگر افسوس کہ برصغیر میں خطابت کا حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہمارے ہاں ممبر و محراب کا تقدس اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن خطابت کا معیار رفتہ رفتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے۔ آج اکثر خطیب حضرات اس بات کو بھول گئے ہیں کہ ممبر پر جانا صرف بولنے کا نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور سکھانے کا عمل ہے۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ اکثر تقاریر میں وقت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر ہم کسی ایک گھنٹے کی تقریر کا تجزیہ کریں تو صاف محسوس ہوگا کہ اس میں بمشکل چار یا پانچ نکات ہی ایسے ہوتے ہیں جو سامعین کے علم، ایمان یا فکر میں اضافہ کرتے ہیں۔ باقی وقت محض الفاظ کے شور اور جذباتی نعروں میں گزر جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ سامعین کی توجہ بھی بکھر جاتی ہے اور اصل مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے۔

یہ سوچنا ضروری ہے کہ آخر یہ کس نے کہہ دیا کہ جب تک خطیب ممبر پر چیخ و پکار نہ کرے، اور ایک گھنٹہ پورا نہ کرے، تب تک تقریر مکمل نہیں کہلائے گی؟ یہ طرزِ فکر اور اندازِ بیان بدلنے کا وقت آ گیا ہے۔ آج کے باشعور دور میں تقریر کی بنیاد اختصار، معنویت اور پیغام کی گہرائی پر ہونی چاہیے، نہ کہ صرف لمبائی پر۔

جو قومیں وقت کی قدر نہیں کرتیں، وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔ اگر ایک خطیب خود وقت شناس نہیں، تو وہ قوم کو مثبت سمت میں کیسے رہنمائی دے سکتا ہے؟ خطابت کا اصل مقصد یہ نہیں کہ سامعین محض متاثر ہوں بلکہ یہ ہے کہ وہ فکری طور پر متحرک اور عملی طور پر سنجیدہ ہوں۔

عوام الناس کو بھی چاہیے کہ وہ محفل یا مجلس کے حقیقی مفہوم کو سمجھیں۔ اگر کسی تقریر میں صرف چند باتیں ہی قابلِ عمل ہوں اور باقی وقت غیر ضروری الفاظ میں گزر جائے تو سامعین کو مودبانہ انداز میں متوجہ کرنا چاہیے کہ "جنابِ والا، آپ کی تقریر میں محض چند نکات ہی مفید تھے، باقی وقت کیوں ضائع کیا گیا؟" یہی اجتماعی شعور کا تقاضا ہے۔

خطابت کا مقصد دلوں کو گرمانا اور دماغوں کو جگانا ہے، نہ کہ صرف وقت بھرنا۔ اگر ہم ایران جیسے علمی مراکز کے مشہور خطیبوں — مثلاً استاد ڈاکٹر رفیعی — کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایک جملہ معنی و مفہوم سے لبریز ہوتا ہے۔ ان کی پوری گفتگو آیاتِ قرآنی، احادیثِ معصومینؑ اور علمی استدلال پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کے ہاں کوئی بات تکراری نہیں، ہر لفظ سوچا سمجھا اور وزن دار ہوتا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اسی علمی اور فکری معیار کو اپنائیں۔ خطابت کا مقصد شور نہیں، شعور ہونا چاہیے؛ وقت کا ضیاع نہیں، وقت کی برکت ہونا چاہیے؛ اور سامعین کی واہ واہ نہیں بلکہ ان کے دل و دماغ کی بیداری ہونی چاہیے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha