ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | امام زادہ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام شہر قم کے واجب التعظیم امامزادوں میں سے ایک ہیں۔ آپ اہلِ علم تھے اور آپ نے امام محمد تقی جواد علیہ السلام سے احادیث و روایت نقل کی ہیں۔ آپ کو ’’مُبَرقّع‘‘ (یعنی نقاب پوش) اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ اپنے چہرے کو نقاب سے ڈھانپتے تھے۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام رضوی سادات کے جدِّ امجد ہیں اور مشہور ہے کہ قم اور رَی کے اطراف کے ساداتِ بُرقعی انہی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کا مزار مبارک قم کے محلہ چہل اختران میں واقع ہے۔
امامزادہ موسیٰ مبرقع علیہ السلام صاحبِ کرامات و فضائلِ کثیرہ تھے۔ بے شمار زائرین نے ان کے در سے اپنی حاجتیں اور مرادیں پائی ہیں۔ ان کی کرامات میں مریضوں کو شفا دینا، حاجات کی برآوری، بلاؤں اور مشکلات کا دُور ہونا شامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ آپ اس لئے ہمیشہ نقاب پہنتے تھے تاکہ پہچانے نہ جائیں اور اسی وجہ سے آپ کو ’’مبرقع‘‘ کہا گیا۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ کا چہرہ حضرت یوسف علیہ السلام کے مانند بے حد حسین تھا کہ جب آپ بازار سے گزرتے تو لوگ اپنی دکانیں چھوڑ کر آپ کے چہرے کو دیکھنے لگتے، لہٰذا آپ نے نقاب اوڑھنا شروع کیا تاکہ کسی کے لئے مشکل کا سبب نہ بنیں۔
امام محمد تقی جواد علیہ السلام سے روایت منقول ہے کہ جو شخص حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی زیارت کرے، اسے امام علی رضا علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ملے گا۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام امام محمد تقی علیہ السلام (امام جوادؑ) کے دوسرے فرزند تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت سمانہ سلام اللہ علیہا تھیں۔ آپ سن 214 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور خانوادہ امامت میں پرورش پائی۔
جب 220 ہجری میں امام محمد تقی علیہ السّلام کو بغداد بلایا گیا اور آپؑ وہاں شہید ہو گئے تو اُس وقت حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی عمر تقریباً 6 سال تھی۔ والد ماجد کی شہادت کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی امام علی نقی علیہ السلام کی سرپرستی میں فکری اور روحانی کمال تک پہنچے۔ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام اپنے بھائی کے مطیع و فرمانبردار تھے اور ان سے خالصانہ ارادت رکھتے تھے۔
شیعہ محدثین نے آپ کی وثاقت اور اعتماد کی تصدیق کی ہے اور آپ سے متعدد روایات نقل کی ہیں۔ جب عباسی حکومت کا ظلم و جبر کچھ کم ہوا تو حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام سن 256 ہجری میں قم تشریف لائے۔ قم میں آپ کو اصحابِ ائمہؑ، شیعہ رہنماؤں اور مؤمنین کی جانب سے بے حد محبت و احترام ملا۔
آپ نے قم میں 40 سال قیام فرمایا اور اس دوران اہلِ قم، علماء اور بزرگوں کی جانب سے ہمیشہ عزت و تکریم پاتے رہے۔ بالآخر آپ 22 ربیع الثانی 296 ہجری کو 82 سال کی عمر میں وفات فرما گئے۔ آپ کا جنازہ شیعیانِ قم نے نہایت شان و شوکت کے ساتھ اٹھایا اور آپ کو آپ ہی کے گھر میں دفن کیا گیا۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی، جان، مال اور عزت و آبرو کو اپنے امام اور برادر بزرگ امام علی نقی علیہ السلام کی ولایت کے دفاع کے لئے وقف کر دیا اور امام علی نقی علیہ السّلام کے حکم سے آپ نے قم کی جانب ہجرت کی۔
حضرت موسی مبرقع علیہ السلام واجب التعظیم امامزادہ، قابلِ اعتماد عالم و راوی تھے۔ شیعہ علماء اور محدثین نے آپ سے بہت سی احادیث نقل کی ہیں۔ آپ نے اپنی پوری بابرکت زندگی میں اپنے والد امام محمد تقی علیہ السلام اور بھائی امام علی نقی علیہ السّلام کی اطاعت کی اور اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
حضرت ابو احمد سید موسیٰ مبرقع علیہ السلام نے شہرِ قم کو اپنی قیام گاہ کے طور پر منتخب کیا اور وہاں دینی، ثقافتی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے اپنی اولاد کے ہمراہ مکارمِ اخلاق کو فروغ اور اہلِ بیت علیہم السلام کی ثقافت کو قم اور اس کے اطراف میں عام کیا۔ اسی طرح آپ نے سماجی تعلقات اور قبائل و اقوام کے باہمی روابط میں بھی مؤثر کردار ادا کیا۔
حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام کی نسل کے بعض افراد کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک کے متولی، نیز دیگر روضوں، مساجد اور اوقاف کے انتظامات کے ذمہ دار رہے ہیں۔
اس خاندان کے بزرگان نے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں قم، کاشان، آوہ (آبه) اور ان کے نواحی علاقوں میں نقابتِ سادات کی ذمہ داری سنبھالی تھی، نیز منصبِ امیرالحاج بھی انہی کو سپرد کیا گیا تھا۔ اہلِ قم نے ان کی دینی، تبلیغی اور سماجی قیادت کو دل و جان سے تسلیم کیا تھا۔
قم کے روضوں اور مساجد، نیز مشہدِ اردہال جیسے مقامات کی تولیت کے فرامین بعد کی صدیوں میں بھی — مثلاً دورانِ تیموریہ، صفویہ اور قاجاریہ — انہی سادات کے نام پر جاری ہوتے رہے، جن کے دستاویزی شواہد آج بھی موجود ہیں۔ ان حضرات نے دیگر مذہبی مناصب بھی سنبھالے، جن میں امامتِ جماعت اور تبلیغ و خطابت بھی شامل ہیں۔









آپ کا تبصرہ