تحریر: مولانا سید حسین اختر رضوی اعظمی، سحر عالمی نیٹ ورک تہران ایران
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت شاہ عبدالعظيم بن عبداللہ بن علي بن حسن بن زيد بن حسن بن علي بن ابي طالب حسنی سادات کے علماء اور حدیث کے راویوں میں سے ایک ہیں ،آپ کی کنیت ابوالقاسم اور ابوالفتح ہے، آپ کا نسب چار پشتوں سےفرزند رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام سے ملتا ہے۔ تاریخ نے آپ کو متقی و پرہیزگار، امین، صادق، دین شناس عالم دین، شیعہ اصول دین کے قائل اور محدث جیسے عناوین سے یاد کیا ہے،تاریخ اسلام کے عظیم المرتبت فقیہ و محدث علامہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نےآپ سے منقول حدیثوں کو "جامع اخبار عبد العظیم" کے نام سے جمع کیا ہے۔
حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام چار ربیع الثانی سنہ ایک سو تہتر ہجری قمر ی مطابق تیرہ شہریور سنہ ایک سو اڑسٹھ شمسی اور سات سو نواسی عیسوی کو جمعرات کے دن فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے دور میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔(1) آپ کے والدماجد جناب عبداللہ بن علی قافہ اور آپ کی والدہ اسماعیل بن ابراہیم کی بیٹی فاطمہ تھیں۔(2) مشہور مورخ نجاشی کہتے ہیں: حضرت شاہ عبد العظیم علیہ السلام کی وفات کے بعد غسل دیتے وقت آپ کے لباس میں ایک رقعہ پایا گیا تھا جس میں آپ کا سلسلہ نسب یوں درج تھا: میں ابو القاسم بن عبد اللہ بن علی، بن حسن، بن زید، بن حسن بن علی بن ابی طالب ہوں۔ ( 3)محقق شہیر علامہ میر داماد علیہ الرحمہ بھی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: حضرت شاہ عبد العظیم علیہ السلام روشن نسب اور آشکار شرافت کے حامل تھے۔(4)
آپ کی شریکہ حیات جناب خدیجہ بنت قاسم بن حسن بن زید بن حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام تھیں جو آپ کی چچا زاد بہن تھیں ۔ آپ کے بطن سے دو بچے بنام محمد اور ام سلمہ پیدا ہوئے۔(5)خاتمۃ المحدثین علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ آپ کے ایک بیٹے کی خصوصیات کے بارے میں لکھتے ہیں: "محمد "ایک بزرگ شخصیت کے حامل تھے اور زہد و عبادت میں بہت زیادہ شہرت رکھتے تھے۔( 6)
حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام کو کئی اماموں کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا،آقا بزرگ تہرانی نقل کرتے ہیں کہ: حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام نےحضرت امام علی رضا علیہ السلام اورحضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے زمانے کو درک کیا اورحضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں اپنے ایمان کا اظہار کیا اورحضرت امام علی نقی علیہ السلام کے زمانہ امامت میں ہی اس دنیا ئے فانی سے رخصت ہوگئے۔(7)مگراستاد الفقہاء و المجتہدین آیت اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی رضوان اللہ علیہ نے حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام کے امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ ہم عصر ہونے کو رد کیا ہے۔(8) علامہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب رجال شیخ طوسی میں انہیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں ذکر کیا ہے۔(9) عزیز اللہ عطاردی نیز تصریح کرتے ہیں کہ شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام کی زندگی اور ان سے منقول احادیث پر تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نےحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، حضرت امام علی رضا علیہ السلام اور حضرت امام علی نقی علیہ السلام کو درک کیا ہے۔(10)
روایت میں ملتا ہے کہ حضرت شاہ عبدالعظیم حسنی علیہ السلام جب بھی حضرت امام محمد تقی علیہ السلام یا حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں مشرف ہوتے تو نہایت ہی ادب، خضوع و خشوع اور تواضع کا اظہار کرتے تھے اور نہایت ادب کے ساتھ ان ائمہ کو سلام عرض کرتے تھے اور ائمہ علیہم السلام ان کے سلام کا جواب دینے کے بعد انہیں اپنے ساتھ بٹھاتے تھے یہاں تک کہ ایک دوسرے کے گھٹنے آپس میں ملتے تھے اور امام علیہ السلام ان کی خیر و عافیت دریافت کرتے تھے، امام علیہ السلام کا یہ عمل دوسروں کےلئے موجب حسرت اور غبطہ ہوا کرتا تھا۔(11)
حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام کی زندگی بنی عباس کے دور میں شیعوں کی سرکوبی کے دوران گزری ہے، آپ بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح سالہا سال دشمن کے ظلم و بربریت کا شکار رہتے تھے، اسی لئے مدینہ منورہ ، بغداد اور سامرہ میں زندگی کے دوران تقیہ اختیار کرتے رہے اور اپنا عقیدہ پوشیدہ رکھتے تھے لیکن اس کے باوجودظالم و جابر متوکل اور معتز عباسی کے ظلم و بربریت کا شکار ہوتے تھے۔(12)
تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شاہ عبدا لعظیم حسنی علیہ السلام نے عباسی خلیفہ معتز کے ظلم و جور اور اذیت و آزار سے تنگ آکر اور شہید کرنے کے خوف سے حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے حکم پرسامرہ جو عباسیوں کا مضبوط گڑھ تھا شہر ری کی طرف ہجرت کی جب کہ بعض مورخین کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی بن موسی الرضا علیہ السلام کی زیارت کے ارادے سے خراسان کا سفر کیا اور درمیان راہ میں حضرت حمزہ بن امام موسی بن جعفر علیہ السلام کی زیارت کےلئے قیام کیا اور وہیں پر مخفیانہ زندگی بسر کرنے لگے۔(13)
مشہور مورخ نجاشی نے احمد بن محمد بن خالد برقی کے حوالے سے اس واقعے کو یوں نقل کیا ہے:حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام وقت کے ظالم اور جابر حکمران کے ہاتھوں سے فرار کرتے ہوئے شہر ری تشریف لائے اور وہاں پر" سکۃ الموالی "نامی محلے میں ایک شیعہ مؤمن کے گھر کے تہ خانے میں سکونت اختیارکی اور ہمیشہ عبادت و مناجات میں مشغول رہتے تھے، دن میں روزہ رکھتے اورراتوں کو نماز میں مشغول رہا کرتے تھے اور کبھی کبھی گھر سے پوشیدہ طور پر باہر آکر کسی قبر کی زیارت کےلئے کہ جو اس وقت آپ کی ضریح مبارک کے سامنے ہے جاتے تھےاورفرمایا کرتے تھے کہ یہ قبرحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی نسل سے کسی شخص کی قبر ہے۔ آپ اسی تہ خانے میں زندگی گزارتے تھے یہاں تک کہ آپ کی ہجرت کی خبر ایک کے بعد ایک شیعوں کے کانوں تک پہنچی اور اس طرح اکثر شیعہ آپ کے وہاں پر قیام سے با خبر ہو گئے تھے۔(14)
تاریخی کتب میں ملتا ہے کہ آپ کی رحلت پندرہ شوال سنہ دو سو باون ہجری میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے زمانے میں واقع ہوئی۔(15) آپ کی رحلت کی کیفیت کے بارے میں جو چیز تاریخ میں ثبت ہوئی ہے وہ دو قول یعنی طبیعی موت یا شہادت ہے۔ مشہور مورخ نجاشی نقل کرتے ہیں:حضرت شاہ عبد العظیم حسنی بیمار ہوئے اور اسی بیماری میں دنیا سے چل بسے۔(16)
علامہ شیخ طوسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام نے شہر ری میں وفات پائی اور ان کی قبر اسی شہر میں واقع ہے۔(17)اسی طرح سے ایک اور روایت میں آپ کو زندہ بہ گور کرکے شہید کئے جانے کی خبر دی گئی ہے۔مشہور مورخ طریحی لکھتے ہیں: حضرت ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں سے جو شخص شہر ری میں مدفون ہے وہ حضرت عبد العظیم حسنی ہیں۔(18)ملا محمد باقر بن اسماعیل بن عبدا لعظیم بن محمد باقر واعظ کجوری مازندرانی اس بارے میں کہتے ہیں کہ: رجال و انساب کی کتابوں میں حضرت شاہ عبد العظیم حسنی کے حالات زندگی کے بارے میں تحقیق کی گئی تو ان کی شہادت کی خبر کو موثق نہیں پایا گیا ۔(19)
علامہ محدث نوری علیہ الرحمہ کے مطابق کسی شیعہ مؤمن کو خواب میں رسول اسلام علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی تواس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان سے فرمایا: کل عبدالجبار بن عبد الوہاب رازی کے گھرمیں سیب کے باغ میں میری نسل سے ایک شخص دفن ہوگا، اس شخص نے اس باغ کو خریدا اور اسے حضرت شاہ عبدالعظیم حسنی اور دیگر شیعوں کی اموات کے نام وقف کر دیا۔ (20) اسی وجہ سے حرم عبد العظیم حسنی "مسجد شجرہ "یا" مزار نزدیک درخت" کے نام سے معروف ہوا۔(21)
فقیہ و محدث علامہ شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے ان کی قبر کی زیارت کے حوالے سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے مطابق شہر ری کا ایک شخص حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں وارد ہوا اور کہا: میں حضرت سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوکر آرہا ہوں تو امام علیہ السلام نے فرمایا: "اما انك لو زرت قبرعبد العظيم لكنت كمن زار قبر الحسين عليه السّلام " تمہارے نزدیک جو شاہ عبدالعظیم حسنی کی قبر ہے اس کی زیارت کا ثواب حضرت حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے ثواب کے برابر ہے۔(22)
محقق بصیر علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شاہ عبدالعظیم حسنی کی حالات زندگی تحریر کرتے ہوئے انہیں ایک متقی اور پرہیزگار عالم کے عنوان سے یاد کیا ہے۔(23) علامہ محدث نوری علیہ الرحمہ حضرت عبد العظیم حسنی کے فضائل کے بارے میں صاحب بن عباد کے رسالے سے نقل کرتے ہیں کہ: آپ ایک با تقوی، پرہزگار، امانتدار، گفتار میں صادق، دین شناس اور توحید، عدل جیسے اصول کے قائل تھے۔(24) آپ کا تقوی اور پرہیزگاری ائمہ اطہار علیہم السلام کے نزدیک آپ کے بلند درجات اور شان و منزلت کی علامت ہے۔(25)
فرزند رسول حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت شاہ عبدالعظیم حسنی کے سامرہ کے سفر کے دوران ان کی تصدیق کی۔ آپ انہیں ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں: اے ابا القاسم! تم ہمارے برحق ولی ہو تم اسی دین کے پیروکار ہو جو خدا کے نزدیک پسندیدہ اور جسے تم نے ہم سے حاصل کیا ہے، خدا تمہیں دنیا اور آخرت میں اپنی گفتار میں ثابت قدم رکھے۔(26)
مشہور مورخ ابو تراب رویانی کہتے ہیں کہ: میں نے سنا ہے کہ ابو حماد رازی کہتے تھے کہ میں سامرہ میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور بعض حلال و حرام کے مسائل کے بارے میں سوال کیا آپ نے جوابات مرحمت فرمایا اور جب میں نےواپسی کا ارادہ کیا تو امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر دینی امور کے بارے میں تمہیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو عبد العظیم حسنی بن عبداللہ حسنی سے سوال کرنا اور انہیں میرا سلام پہنچا نا ۔(27)
حدیث وروایت کی معتبر کتابوں میں شاہ عبد العظیم حسنی سے منقول حدیثوں کی تعداد ایک سو سے بھی زیادہ تحریر ہے۔ صاحب بن عباد کہتے ہیں کہ: آپ کثرت سے احادیث نقل کرتے تھے اور آپ نے حضرت امام محمد تقی اور امام علی نقی علیہما السلام سے حدیثیں نقل کی ہیں۔(28)
حضرت شاہ عبد العظیم حسنی علیہ السلام کا حرم مطہر حضرت امامزادہ حمزہ بن حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اور حضرت امامزادہ طاہربن ابی طاهر محمدمبرقع بن الحسن بن الحسین مبرقه بن عیسی بن یحیی بن الحسین بن زیدالشهید علیہ السلام کے ہمراہ شہرری میں تیسری صدی ہجری سے اب تک دوستداران اہل بیت علیہم السلام کی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے اور ہمیشہ ایران اور دنیا کے تمام ممالک سے زائرین و عاشقین آپ کی قبر مبارک پر حاضری دے کر اپنے خالی دامن مراد کو بھرتے ہیں ہمارا لاکھوں سلام ہو اس سفیر ولایت و امامت پر ۔
حوالہ جات
1. الذریعہ، ج۷، ص۱۶۹، بر آستان کرامت ص۵
2. عمدہ الطالب، ص۹۴.
3. رجال نجاشی، ص۲۴۸. الخوئی، معجم رجال الحدیث ج 10 ص 46 ، مهاجران آل ابوطالب، ترجمه محمدرضا عطایی، صفحه ۲۳۵
4. الرواشح السماویۃ، ص۸۶.
5. جنہ النعیم، ج۳، ص۳۹۰. عمدہ الطالب، ص۹۴
6. منتہی الآمال، ج۱، ص۵۸۵
7. الذریعہ، ج۷، ص۱۹۰ ، واعظ تہرانی کجوری ، روح و ریحان ج 3 ص 397
8. معجم رجال الحدیث، ج۱۱، ص۵۳
9. رجال طوسی، ص۴۰۱
10. عبدالعظیم الحسنی حیاتہ و مسندہ، ص۳۷
11. زندگانی حضرت عبد العظیم ص 30
12. بر آستان کرامت، ص۷
13. جنہ النعیم، ج۴، ص۱۳۱
14. رجال نجاشی، ص۲۴۸
15. الذریعہ، ج۷، ص۲۹۰
16. رجال نجاشی، ص۲۴۸، محمد جواد نجفی ، ستارگان درخشاں ج 4 ص 219
17. الفہرست، ص۱۹۳
18. المنتخب، ص۸
19. جنہ النعیم، ج۵، ص۳۶۰
20. خاتمہ مستدرک، ج۴، ۴۰۵
21. عمدہ الطالب، ص۹۴، بر آستان کرامت، ص۱۲
22. ثواب الاعمال، ص۹۹ ، عطاری قوچانی، زندگینامہ حضرت شاہ عبد العظیم حسنی ، ص 64 ، شیخ عباس قمی ، منتہی الآمال ج 1 ص 246 ، موسوی خوانساری، روضات الجنان ج 4 ص 211
23. خلاصۃ الاقوال، ص۲۲۶
24. خاتمہ مستدرک، ج۴، ص۴۰۴
25. بر آستان کرامت ص۹
26. امالی، ص۴۱۹ و ۴۲۰، روضہ الواعظین، ص۳۱ و ۳۲
27. مستدرک الوسائل، ج۱۷ ص۳۲۱
28. مسند الامام الجواد، ص۳۰۲ ، خاتمۃ المستدرک، ج۴ ص۴۰۴









آپ کا تبصرہ