حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید نعیم عباس عابدی 25/فروری ۱۹۵۱عیسوی میں سرزمین نوگانواں سادات ضلع امروہہ پر پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد مولانا سید محمد سبطین کا شمار اپنے وقت کےعظیم علماء میں ہوتا تھا۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے گھر ہی پر حاصل کی ۔مولانا سید محمد سبطین نےاپنے فرزند کو نحو میر ، صرف میر ، میزان و منشعب جیسی کتابیں پڑھا کر علم و اخلاق سے آراستہ کیا۔
مولانا سید نعیم عباس عابدی سنہ ۱۹۶۷عیسوی میں اپنے تایا زاد بھائی مولانا سید کلب محمد عرف مولانا شبن کے ساتھ منصبیہ عربی کالج میرٹھ پہونچے وہاں کے شفیق و مہربان استاد مولانا سید شبیہ محمد موسوی نے آپ کا داخلہ لیا۔ منصبیہ میں رہ کرمولانا سید شبیہ محمد موسوی،مولانا سید ابرار حسین امروہوی، مولانا سید سخی احمد سرسوی، مولانا سید افضال حسین سرسوی اور مولانا محمد رفعت حسین جیسے کریم النفس اساتذہ کرام سے تین سال کسب فیض کیا۔
سنہ۱۹۷۱ عیسوی میں سرزمین علم و اجتہاد لکھنو کا رخ کیااور وہاں کی مشہور درسگاہ جامعہ ناظمیہ میں داخل ہوئے اور امیر العلماء زعیم جامعہ کی سرپرستی میں رہ کرمولانا روشن علی، مولانا ہاشم علی،علامہ محمد حسین خان نجفی ، مولانا سید مرتضی حسین، عندلیب ہند مولانا ابن حسن، مولانا سید محمد شاکر امروہوی، مولانا شہنشاہ حسین جونپوری، مولانا مجتبی حسین اعظمی بالخصوص استاد الاساتذہ مولانا سید رسول احمد جیسے علماء کرام کے سامنے زانوئے ادب طے کئے۔
تقریباً ۲۹ سال کی عمر میں تبلیغ دین کی ذمہ داری کو نبھانے کی غرض سے سنہ ۱۹۸۰ عیسوی میں ماہ مبارک رمضان میں قصبہ منگلور ضلع ہریدوار میں امام جمعہ والجماعت کی حیثیت سے وارد ہوئے۔ اور وہیں پر قیام کرنے کو اپنا دینی فریضہ سمجھا اور خالص جذبہ سے قومی و مذہبی خدمات انجام دینے میں مصروف ہوگئے۔ تعلیم اور علم کی اہمیت کے پیش نظر ماہ شوال کی ابتداء میں دینی درسگاہ بنام " علم الہدی " کی بنیاد رکھی جس کے سبب منگلور میں علوم آل محمد کے درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہوا ۔ رفتہ رفتہ درسگاہ "علم الہدی " میں تقریباً 150 طلباء تحصیل علم میں مصروف ہو گئے تو مولانا ناصر حسین رجیٹوی اور مولانا احمد حسین منگلوری کی معاونت سے بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں :مولانا شمس الحسن بگھروی، مولانا عون محمد رجیٹوی ، مولانا صابر علی عمرانی ، مولانا سید شمیم الحسن اجمیری ، مولانا سید راحت عباس منگلوری ، مولانا غلام علی اور مولانا غلام عسکری وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔
قومی خدمات کے ساتھ ساتھ مولانا موصوف کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کا خیال آیا تو راہی ایران ہوئے اور قم المقدسہ کے مدرسہ حجتیہ میں داخلہ لیا مگر چھ ماہ ہی گذرے تھے گٹھیا کے مرض کی ابتداء ہو چکی تھی۔ بادل ناخواستہ مجبوراً ایران کو خیر باد کہا اور ہندوستان واپس آکر منگلور ہی میں دینی خدمات میں مصروف ہو گئے۔
سن 1985 عیسوی میں آپ اپنے وطن نوگانواں سادات واپس تشریف لائے، جہاں آپ نے صدرالعلماء کے ہمراہ دینی درسگاہ جامعہ المنتظر کی علمی و روحانی خدمت کا بیڑا اٹھایا۔ آپ نے درس و تدریس کے ذریعے علم و عرفان کے چراغ روشن کیے، اور قلیل مدت میں ہی اس درسگاہ نے برق رفتاری سے ترقی کے منازل طے کیے۔ جامعہ المنتظر، اپنی علمی عظمت اور تربیتی خدمات کے باعث خطے کی ایک نمایاں علمی و دینی مرکز بن کر ابھرا۔
سن 1993 عیسوی میں صدرالعلماء مولانا سید سلمان حیدر رکی وفات کے بعد اس درسگاہ کی ذمہ داری اور پرنسپلی آپ کی کاندھوں پر آگئی۔موصوف نے اس عظیم ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا اور اپنی حکیمانہ قیادت، شبانہ روز محنت اور علم دوستی کے باعث مدرسہ کو ترقی کی ان بلند پایہ منازل تک پہنچا دیا کہ اس کا شمار ہندوستان کے ممتاز اور معتبر دینی اداروں میں ہونے لگا۔ طلباء کی تعلیم و تربیت آپ کی خصوصی توجہ کا مرکز رہی۔ آپ کے اخلاص اور فکری بصیرت کے نتیجے میں مدرسہ کے کثیر فضلاء فارغ التحصیل ہو کر عراق، ایران، اور سیریا جیسے علمی مراکز میں حصولِ علم میں مصروف ہوئے، اور وہاں علم و تقویٰ کے نور سے منور ہو کر ملت کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔
موصوف نہ صرف ایک جلیل القدر معلم، مبلغ اور مدیر تھے بلکہ خطابت کے میدان میں بھی ایک یگانہ روزگار شخصیت تھے۔ فنِ خطابت آپ کو وراثت میں ملا تھا، چنانچہ بچپن ہی سے تقریر و بیان کی طرف فطری رجحان نمایاں تھا۔ میرٹھ جانے سے قبل ہی ضلع سہارنپور کے قصبہ ہلوانہ میں آپ نے پہلی بار عشرۂ محرم میں منبر پر جلوہ افروز ہو کر اپنے خطیبانہ سفر کا آغاز کیا۔ منصبیہ عربی کالج کے بزرگ اساتذہ نے آپ کی علمی تربیت کے ساتھ ساتھ فنِ ذاکری کے اصول و آداب بھی نہایت اخلاص سے سکھائے، جو آپ کے مستقبل میں زادِ راہ بنے۔
میرٹھ میں قیام کے دوران آپ کو خطابت کے بے شمار مواقع میسر آئے، اور جلد ہی آپ کی شہرت پورے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ آپ نے وطنِ عزیز کے گوشے گوشے میں مجالس کو خطاب کیا اور بعد ازاں عالمی سطح پر بھی آپ کی خطابت کے چرچے ہونے لگے۔ بارہ سال تک لندن میں منبرِ امام حسینؑ پر خطابت کے جوہر دکھائے، اور کینیا، تنزانیہ، کویت، مسقط، دبئی اور پاکستان سمیت مختلف ممالک میں ایسی یادگار مجالس سے سامعین کے قلوب کو منور کیا جو مدتوں یاد رکھی جائیں گی۔
آپ کا اندازِ بیان نہایت سادہ، سلیس اور مؤثر تھا۔ رواں زبان میں علمی و اصلاحی مطالب کو اس انداز سے پیش کرتے کہ سامعین کے دل و دماغ پر گہرا اثر چھوڑتے۔ آپ مجلس میں شور و غوغا کے قائل نہ تھے۔ آپ فرماتے تھے: ‘شور شرابے سے بات سر سے گزر جاتی ہے، اور جو بات آہستگی اور نرمی سے کہی جائے، وہ دل میں اتر جاتی ہے۔ آپ ہمیشہ احترامِ منبر کو ملحوظ رکھتے اور مجالس میں مستند و معتبر بات کہنے پر زور دیتے۔ بے مقصد گفتگو سے اجتناب اور باوقار خطابت کو آپ اپنی عملی زندگی کا اصول بنائے رہے، اور دوسروں کو بھی اسی کی تلقین کرتے رہے۔
مولانا سید نعیم عباس عابدی کی پوری زندگی تبلیغِ دین، اصلاحِ قوم، تربیتِ شاگرداں اور ذکرِ محمد و آلِ محمدؐ میں بسر ہوئی۔ آپ ایک بیباک خطیب اور نڈر مقرر تھے موصوف نے کبھی عوامی خوشنودی کو مقصد نہیں بنایا، بلکہ ہمیشہ رضائے الٰہی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے منبرِ حسینیؑ پر خطاب فرمایا۔ آپ نے ذاکری جیسے مقدس فن کو کبھی مصلحت پسندی کی نذر نہ ہونے دیا، اور نہ ہی کسی دباؤ یا مصلحت کے تحت اپنے کلام کی حق گوئی کو محدود کیا۔
آپ کی فکر میں آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہریؒ کے اس زرین قول کی گہری چھاپ تھی: ‘جب مصلحت پسندی زیادہ ہو جائے تو حق بیانی کی قوت سلب ہو جاتی ہے۔’ یہی وجہ تھی کہ آپ بلاخوف و خطر قوم کو اس کی کوتاہیوں، کمزوریوں اور خامیوں کی طرف توجہ دلاتے تھے، اور بے باک انداز میں اصلاحی کلمات ادا کرتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے: جب تک قوم کی خامیوں کا ذکر نہیں کیا جائے گا، اُس وقت تک اصلاح کا عمل ممکن نہیں۔ بے جا تعریف و توصیف درحقیقت قوم کے ساتھ خیانت ہے۔
آپ کی بے باک خطابت نے نہ صرف سامعین کے دلوں میں اثر چھوڑا بلکہ قوم کو خوداحتسابی اور فکری بیداری کا شعور بھی عطا کیا۔ آپ کہنا تھا: منبر کو اصلاحِ امت کا ذریعہ بنانا چاہیے نہ کہ محض مسرت انگیز باتوں سے خوشنودی حاصل کرنے کا وسیلہ۔ یہی اصول آپ کی زندگی اور خطابت کا بنیادی سنگِ میل تھا جس پر آپ ہمیشہ کاربند رہے۔
سن 1980 عیسوی میں آپ شادی جلیل القدر عالم دین، صدرالعلماء مولانا سید سلمان حیدرؒ کی دخترِ نیک اختر سے ہوئی۔ اس مبارک رشتۂ ازدواجی نے علم و عمل کے دو چراغوں کو ایک مقدس بندھن میں پرو دیا۔ خداوندِ عالم نے اس بابرکت عقدنکاح کو سعادتوں سے نوازا اور آپ کو تین بیٹوں سید مرتضیٰ عابدی، سید محمد عابدی، اور سید روح اللہ عابدی اور پانچ صالح و فاضلہ بیٹیوں جیسی رحمت سے سرفراز فرمایا۔
آخری ایّامِ حیات میں مولانا نعیم عباس نے جامعۃ المنتظر کی انتظامی ذمہ داریاں حجت الاسلام مولانا قرۃ العین مجتبیٰ کے سپرد فرما دیں اور خود دیگر دینی و اصلاحی مشاغل میں مشغول ہو گئے۔ آپ علمی، تبلیغی اور قومی سطح پر ایک مقتدر شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ 7 جنوری 2025عیسوی کو آپ کے شاگردوں اور قدردانوں نے آپ کی نصف صدی پر محیط بے مثال خدمات کے اعتراف میں ایک پُر وقار جلسۂ تجلیل منعقد کیا، جس میں ملک بھر کے جید علما و فضلا، دانشوران، اور مومنین کی کثیر تعداد نے شرکت فرمائی۔ اس تقریب میں آپ کی علمی خدمات، تبلیغی کاوشیں، اور قوم و ملت کیلئے قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔
آخرکار یہ علم و فضل کا آفتاب، تقریباً 73 سال کی بابرکت عمر گزار کر، مختصر علالت کے بعد۲۵/ فروری ۲۰۲۵ بمطابق ۲۶ شعبان ۱۴۴۶ بروز منگل دہلی کے ہولی فیملی اسپتال میں غروب ہو گیا ۔ آپ کی خبر ارتحال سے نوگانواں سادات ہی نہیں بلکہ پورے علمی و دینی حلقے غمگین، ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل سوگوارہوگیا۔ آپ کا پیکرِ خاکی دہلی سے نوگانواں سادات لایا گیا، جہاں مومنین، طلاب، علما، اور شاگردوں کے جم غفیر نے غم و اندوہ میں ڈوبے ہوئے آپ کےجنازہ کا استقبال کیا۔ اورہزاروں آہوں اور سسکیوں کے درمیان، جامعۃ المنتظر کے صحن میں جہاں آپ نے عمر بھر خدمت انجام دی سپردِ خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج10، ص310، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2024









آپ کا تبصرہ