۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مفتی محمد عباس مظفرپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا مفتی سید محمد عباس ابن سید عبد الکریم رضوی کی پیدائش 1925 عیسوی میں سر زمین مظفرپور صوبہ بہار پر ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب امام علی رضا علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ کم سنی میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے۔ آپ کو بچپن سے ہی حصول علم اور کتب بینی کا بے پناہ شوق تھا۔ علم کے شوق میں بہت ساری پریشانیوں کا سامنا کرتے ہوئے تعلیمی مراحل طے کئے۔

آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ عباسیہ، پٹنہ (بہار) میں حاصل کی۔ اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے لکھنؤ پہنچے اور جامعہ سلطانیہ سے 1964ءمیں صدرالافاضل کی سند حاصل کی۔ مفتی محمد عباس علم تفسیر، حدیث، ، منطق، فلسفہ، اصول فقہ، خطابت اور دیگر علوم میں ماہر تھے۔

آپ کی مفید اور قیمتی زندگی لوگوں کو مقصد خلقت، ایمانداری، دیانتداری، تقویٰ اور پرہیز گاری کی طرف رغبت دلانے میں صرف ہوئی۔مظفرپور اور اطراف کے شہر، تحصیل، قصبہ، محلہ اور کالونی میں ان کی تربیت کے اثرات مرتب ہوئے۔ جوآج بھی لوگوں کے کردار، اخلاق اورعمل سے ظاہر ہے۔موصوف کے اصلاحی، سماجی اور اخلاقی کارنامے رہتی دنیا تک مشعل راہ بنے رہیں گے۔

مفتی محمد عباس نے ملک اور بیرون ملک میں اپنے فریضہ کو اچھی طرح نبھایا جن میں سنہ 1946 سے 1950 عیسوی تک محلہ کمرہ، مظفرپور کی جامع مسجد موقوفہ نواب محمد تقی خاں میں امام جمعہ و جماعت رہے سنہ 1950 عیسوی میں تنزانیا کےشہر "لنڈی" میں پیش نماز کی حیثیت سے دس سال خدمات انجام دیں۔ سنہ 1960 عیسوی میں اپنے وطن واپس آگئے اور سنہ 1961 عیسوی میں دوبارہ افریقہ کےشہر "مناما" کا رخ کیا اور پیش نماز ی کے فرائض کے ساتھ احکام ،اخلاق اور قرآن مجید کی تعلیم سے لوگوں کو مزین فرماتے رہے۔

ایک مدت تک فریضہ دینی کو انجام دینے کے بعد اپنے وطن کا رخ کیا اور سر زمین مظفرپور کے محلہ کمرہ کی جامع مسجد میں وظائف کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے اور اپنی آخری عمر تک امام جمعہ والجماعت کے عہدہ پر فائز رہے۔

آپ عزاداری کو اپنی حیات سمجھتے تھے اورجب تک باحیات رہے عزاداری کے فروغ میں منہمک رہے۔ عزاداری میں رسم و رواج کے نام پر کسی طرح کی نئی رسم کو داخل نہیں ہونے دیا۔ خود ماتم و سینہ زنی میں حصہ لیتے،نوحہ خوانی بھی کیا کرتے۔ آپ کی نگرانی میں مجلس، جلوس اورتعزیہ داری ہوتی رہی۔ موصوف عشرہ محرم الحرام کی مجلس ہر سال روایتی انداز میں امام بارگاہ سید محمد تقی خاں میں پڑھتے تو بلا تفریق مذہب و ملت تمام عاشقان امام حسین ان کی تقریر کو سننےکے لیے وقت کی پابندی کے ساتھ حاضر ہوتے۔مفتی محمد عباس مسلمانوں اوردیگر تمام مذاہب کے افراد کےدرمیان مقبول تھے۔

آخرکار یہ علم و فضل کا آفتاب 22 ذی الحجہ 1412 سنہ ہجری بمطابق 1992 عیسوی بروز پنجشنبہ سرزمین مظفرپور پر غروب ہو گیا، مجمع کی ہزار آہ و بکا ٕ کے ہمراہ جنازے کو آپ کی وصیت کے مطابق" کربلا لشکری پیر داؤدی پور" مظفرپور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ہند-دایرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص179، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.b

e/KnsZX_86jRw?si=8GBwZ6TdQytGukGf

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .