۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ سید علی اختر رضوی  گوپالپوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | ادیب عصر علامہ سید علی اختر رضوی شعورؔ گوپالپوری 15ذی قعدہ سنہ 1367ہجری بمطابق 19 ستمبر سنہ 1948عیسوی میں سرزمین گوپال پور ضلع سیوان صوبہ بہار پر پیدا ہوئے ، آپ کے والد سید مظہر حسین رضوی تھے۔ آپ کا خطاب "ادیب عصر" اور تخلص "شعورؔ " تھا ۔ آپ اردو ادب کے بہترین فنکار اورنادرۃ الزمن شاعر تھے۔

مولاناتین سال کی عمرمیں شفقت پدری سے محروم ہو گئے۔ ان کی تربیت میں مادر گرامی نے وہ کردار ادا کیا کہ آسمان علم و ادب کا درخشاں ستارہ بنا دیا۔ والدہ کی خواہش تھی کہ آپ عالم وفاضل بنیں۔ موصوف نے ناصر الایمان میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اس کے بعد مدرسہ ناظمیہ لکھنؤ کی جانب عازم سفر ہوئے اور مفتی سید احمد علی، مولا نا سید رسول احمد گوپالپوری ، بابائے فلسفہ مولاناسید ایوب حسین سرسوی، مولانا روشن علی خاں، افتخارالعلماء مولانا سعادت حسین خاں اورعلامہ محمد شاکر امروہوی جیسے جیّد علماءسے کسب فیض کیا۔

شعورؔ گوپالپوری سن 19٧1 عیسوی میں محمد صالح انٹر کالج حسین گنج میں فارسی لکچرار کے عہدہ پر منتخب کر لئے گئے،آپ نے آخری سانسوں تک اس فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیا اور بے شمار شاگردوں کی تربیت فرمائی۔ موصوف نےمدرسہ ناظمیہ، الہ آباد اور بہار بورڈ سے آخری اسناد حاصل کیں۔

علامہ کو کتاب اورکتب خانہ سے بہت زیادہ دلچسپی تھی اسی لئے اپنے وطن گوپال پور میں ایک کتابخانہ کی تاسیس کی جس میں بیشمار کتابوں کے علاوہ بعض قدیمی اورخطی نسخے بھی موجود ہیں، اس کا نام علامہ کی وفات کے بعد"مکتبہ مینار شعور" رکھاگیا۔

موصوف نےضرورت کے پیش نظر بعض جگہوں پر مساجدا ور امامباڑوں کی تعمیر و توسیع میں سرگرمی دکھائی اور اپنے دست تعاون کے ذریعہ پایۂ تکمیل تک پہنچایا جن میں سر فہرست بھاگلپور کی مسجد ہے۔

علامہ نے ہندوستان کے مختلف اور متعدد علاقوں میں مجالس عزا خطاب کیں جس میں برسوں میرٹھ میں عشرۂ اولیٰ اور شیخ پورہ حسین آباد میں اربعین کا عشرہ سرفہرست ہے۔ آپ کا خطاب عام فہم ہوتا تھا، نو جوان نسل بھی آپ کو بہت پسندکرتی تھی، اہلسنت حضرات بھی آپ کی مجلس میں شریک ہوتے تھے۔ آپ نے بہت سی مذہبی اور ادبی کانفرنسوں کو اپنی محنت شاقہ سے کامیاب بنایا جن میں مجلس علما ء و واعظین کی کانفرسیں سر فہرست ہیں۔

آپ نے اپنی کثیر مصروفیات کے باوجود تصنیف و تالیف سے گریز نہیں کیا بلکہ ایک بڑا سرمایہ اہل علم کے لئے فراہم کرنے میں رات دن ایک کردیا، جن میں سے: ترجمہ رسالۂ عملیہ امام خمینی(یہ آپ کا سب سے پہلا قلمی کارنامہ تھا جو انقلابِ اسلامیِ ایران سےنو سال قبل، اشدّ ضرورت کے پیش نظر دو جلدوں میں شائع ہوا) ، ترجمہ کتاب الغدیر علامہ امینی (اس ترجمہ کی دوجلدیں چوری کے سبب ضائع ہوگئیں تو ان دو جلدوں کا ترجمہ مرحوم کے فرزندارجمند مولانا سید شاہد جمال رضوی نےایران پہنچنے کے بعد انجام دیا)، مصائب آل محمد ترجمہ سوگنامۂ آل محمد، ترجمہ الحیات 3 جلدیں، ترجمہ تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار (جو طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے خود مکمل نہ کرسکے اور بستر علالت پر رہتے ہوئے طلاب سے املا کراکے مکمل کیا)، ترجمہ کتاب الزھر الربیع بہ نامِ "خوشبو بہار کی"، غدیر کے چار علامتی شاعر، شعور شہادت (کربلا اور شہادت امام حسین سے متعلق مضامین) ، شعور ولایت ( ولایت اور غدیر سے متعلق مضامین) وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ آپ کے قلمی آثار تیس جلدوں پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ موصوف نے بے شمار علمی، تحقیقی اور ادبی مضامین تحریر فرمائے جو ہندوستان و پاکستان کے مقبول جرائد میں شائع ہوئے جن میں سے اصلاح (کھجوا)، الجواد(بنارس)، الواعظ(لکھنؤ)،سرفراز(لکھنؤ)، الغدیر(دہلی)، المنتظر(لاہور) اور ادراک(گوپالپور) قابل ذکر ہیں۔ موصوف کے مضامین کو موضوعی اعتبار سے مرتب کرکے شائع کیا جارہا ہے۔

بعض کتابیں غیر مطبوعہ ہیں جن میں سے (1)شعورآخرت(مجموعہ ادعیہ، زیارات و مسائل)، (2)شعورخطابت (مجموعہ مجالس، 500 صفحات پر مشتمل)، دانشوران غدیر(حالات علماء، مکتب غدیر)، شعوراکمال دین (آیہ اکمال پر پانچ مجالس کا مجموعہ)، تحفہ اثناعشریہ کا معیار تہذیب(زیرطباعت)، کلیات شعور( مجموعہ کلام)۔

ترجمہ الغدیر کے سلسلہ سے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصرمکارم شیرازی کی فرمائش پر ایران تشریف لے گئے جہاں قم المقدسہ اور مشہد مقدس کی زیارات سے مشرف ہوئے۔ آپ کو مراجع عظام نے امورحسبیہ کے اجازے بھی مرحمت فرمائے جن میں سے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپائیگانی اورآیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصرمکارم شیرازی کے اسماء سرفہرست ہیں۔

علامہ اچھے خطیب، مصنف اور مؤلف ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھے تھے آپ نے شاعری کی تمام اصناف مثلاً قصیدہ، نوحہ، غزل ،قطعات اور رباعیات پر طبع آزمائی کی ہے جو معتبر جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ مجموعہ کلام مرتب ہوچکا ہے جو کلیات شعور کے نام سے چارسوصفحات پر مشتمل ہے۔

اللہ نے آپ کو چھ نعمتیں اور ایک رحمت عطا کی۔ فرزندوں کے نام اس طرح ہیں: سید محمد اختر رضوی ، مولانا سید شاہد جمال رضوی نجفؔ، سیدمحمدقیصررضوی، سید کوثرعلی، سیدمحمد افسر، سید ریاض جعفررضوی۔

آخر کار یہ علم و ادب کا درخشاں آفتاب 54سال کی عمر میں 27 ذیقعدہ سنہ 1422 ہجری بمطابق 1٠فروری سنہ 2٠٠2 عیسوی میں غروب ہو گیا ، مولانا سید لیاقت حسین (ممتازالافاضل) کی اقتدا میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور چاہنے والوں کی ہزار آہ و بکا کے ساتھ گوپالپور میں موجود اپنےآبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص109 ، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .