حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ تقی الحیدری 1 ستمبر سن 1946 میں سرزمین مٹیا برج کلکتہ پر پیدا ہوئے۔آپ کے والد حکیم سید محمد نبی کلکتہ میں طبابت کرتے تھے اسی لئے محلہ مٹیا برج میں مستقل سکونت اختیار کی ۔
علامہ نے ابتدائی تعلیم مٹیا برج میں حاصل کی آپ کے والد نے دینی تعلیم کی طرف رجحان دیکھتے ہوئےموصوف کو فخر الاتقیاء مولانا وصی محمد پرنسپل وثیقہ عربی کالج فیض آباد کے سپرد کر دیا ۔ علامہ تقی حیدری سن ۱۹۵۶ عیسوی میں وثیقہ عربی کالج میں داخل ہوئے اور دینی تعلیم کے حصول میں مصروف ہوگئے۔ علامہ بلا کی ذہانت کے مالک تھے جس کی بناپر علمی مدارج کو طے کرتے چلے گئے۔ علامہ کے استاد مولانا وصی محمد لاولدتھے چنانچہ انہوں نے مولاناتقی الحیدری کو اپنے بیٹے کی جگہ سمجھا اور ان پر اپنی بھر پور توجہ مرکوز کردی ۔ ایسے کامل استاد کو پاکر موصوف کی علمی لیاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ مولانا وصی محمد کے علاوہ دوسرے اساتذہ نے بھی آپ کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جن میں : مولانا علی ارشاد مبارکپوری، مولانا سیدمحمد حسن ، مولانا ابرارحسین ، مولانا محمد احمد جونپوری وغیرہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔
سن 1965 عیسوی میں سطحیات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے نجف اشرف کا رخ کیا اور وہاں رہ کر آیت محمد تقی کاشانی، آیت الله شیخ آل راضی، آیت الله سیدجواد مصطفوی،آیت اللہ السیدجواد گلپائگانی، آیت اللہ عبدالکریم کشمیری ،آیت الله سید باقر الصدراورآیت اللہ سید محمد مدنی، آیت اللہ العظمیٰ محسن الحکیم، آیت اللہ العظمیٰ ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ العظمیٰ روح اللہ خمینی کےسامنے زانوے ادب طے کئے ۔
آپ سن 1970عیسوی میں ہندوستان واپس تشریف لائے۔ فخر الاتقیاء نے موصوف کی علمی صلاحیتوں کے پیش نظر وثیقہ عربی کالج میں استاد کی حیثیت سے منتخب کر لیا ۔ آپ نےجدید طرز پر درس دینا شروع کیا جس میں بہت مقبولیت ملی اور طلاب حد درجہ شوق سے آپ کے درس میں شریک ہونے لگے۔
آپ نے بے شمار شاگردوں کی تربیت کی جن میں مولانا سید محمد جابر جوراسی ، مولانا سید محمد محسن مدیر وثیقہ عربی کالج ، مولانا سید محمد اصغر، مولانا علی اکبر، مولانا منظر عباس، مولانا مصطفیٰ حسین اورمولانا محمد عباس وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
سن 1978 عیسوی میں مولانا وصی محمد کو نادرة الزمن مولاناسید ابن حسن نو نہروی پرنسپل مدرسۃ الواعظین نے طلب کیا اور آپ کو واعظین کا وائس پرنسپل بنادیا سن 1980 میں نادرالزمن کی رحلت کے بعد آپ کو پرنسپل مقر رکیا گیا۔
سن ۱۹۷۸ میں فخر الاتقیاء کے لکھنؤ جانے کے بعد علامہ تقی الحیدری کو وثیقہ عربی کالج کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ جس وقت علامہ نے وثیقہ عربی کالج کی ذمہ داری سنبھالی تو عمارت انتہائی بوسیدہ تھی کوئی حصہ سالم نہ تھا۔ آپ نے پوری عمارت کی تعمیر نو کرائی اور وثیقہ کی مسجد کی مرمت کرا کے اس کے فرش کو پھر سے مزین کرایا۔ ساتھ ہی فیض آباد کے مومنین کی مذہبی رہنمائی فرمائی علمائے فیض آباد میں اتحاد و اتفاق کو باقی رکھا۔
مولانا تقی الحیدری پوری ایمانداری کے ساتھ اپنے وظیفہ کو انجام دیتے رہےسن ۲۰۰۸ عیسوی میں ریٹائر ہوئے تو آپ کے شاگرد مولانا محمد محسن جونپوری کو مدرسہ کا پرنسپل بنایا گیا جو آج بھی اس منصب کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں مگرمولانا تقی الحیدری کی خدمات کے پیش نظر وہاں کی انتظامیہ کمیٹی نے فیض آباد کے ڈی ایم(D.M.) کی سر براہی میں یہ طے کیاکہ مولانا تقی الحیدری وثیقہ عربی کالج کے نگراں رہیں گے۔
علامہ حیدری ایک جید عالم، بہترین استاد اور پایہ کے خطیب ہی نہیں بلکہ بہترین شاعر بھی تھے لیکن ان کی شاعری کبھی منظر عام پر نہیں آئی ۔آپ نجف اشرف میں طالبعلمی کے زمانے سے معتبر شاعری کرتے تھے۔
آپ کا ایک شعر نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہو
مایوسیوں کے بعد جو دیکھا رخ حسین
آنسو خوشی کے آ گئے چشم حیات میں
علامہ پایہ کے خطیب تھے۔ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں آپ کی خطابت کا لوہا ماناجاتا تھا۔ مولانا کی خطابت نے فیض آباد کے مؤمنین کی سماعت کے معیار کو بلند کیاآپ کی خطابت میں قرآنی استدلال کے ساتھ فلسفیانہ فکر ہوتی تھی وہ منفرد انداز کے ذاکر و خطیب تھے۔ لوگ آپ کے خطاب کو سننے کے لئے دور دراز کے سفر ے کرلیتے تھے۔آپ بھی وضعداری برتتے اور ایسے مقامات پرضرور تشریف لے جاتے ۔ ہندوستان کے علاوہ خطابت کے سلسلے سے بیرون ملک برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، اور امریکہ کے سفر کئے۔
علامہ تقی الحیدری کو کتابوں کے مطالعہ کا بہت شوق تھا رات کا کھانا کھانے کے بعد ۲- ۳ بجے تک مطالعہ کرتے پھر نماز صبح کیلئے اٹھتے، تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد درس دینے چلے جاتے تھے۔
موصوف علماء کا بہت احترام کرتے تھے جب آپ کویہ معلوم ہوا کہ ہندوستان کے ایک مرکزی شہر میں عوام کے ایک گروہ نے بعض علماء کے خلاف نعرہ بازی کی ہے اور ان کی توہین کی ہے تو انہوں نے اس شہر میں احتجاجااًمجالس نہ پڑھنے کا تہیہ کر لیا۔ باوجود بعض حضرات کے شدید اصرار پرآپ نے اپنا عہد نہیں تو ڑا جبکہ جن علماء کے خلاف منصوبہ کے تحت توہین کی گئی تھی وہ خود اس شہرمیں مجالس پڑھتے تھے۔
آپ نے تمام مصروفیات کے با وجود قلم و کاغذ سے وابستہ رہے اور بہت سے غیر مطبوعہ آثار وثیقہ عربی کالج کی لائبریری میں موجود ہیں آپ نے آیت اللہ ابو القاسم کی کتاب البیان فی تفسیر القران کے ایک باب کا ترجمہ بنام "شاخسانہ تحریف" کیا جس کو علمی حلقوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اسکے علاوہ آپ نے کافی مضامین لکھے جو مجلہ الجواد، الواعظ اور ذوالفقار وغیرہ سے میں شائع ہوئے۔
آخر کار یہ علم و ادب کا آفتاب 4/نومبر سن۲۰۱۲ میں حرکت قلب ہونےکی وجہ سے لکھنؤ میں غروب ہو گیا۔ انتقال کی خبر بجلی کے مانند پھیل گئی۔ علماء لکھنؤ تعزیت کیلیئے جمع ہو گئے ۔جنازہ لکھنؤ سے فیض آباد لایا گیا۔مومنین کا مجمع جنازے کے استقبال میں کھڑا تھا ہر طرف قیامت کا سماں تھا نماز جنازہ مولانا شمیم الملت کی اقتداء میں ادا ہوئی نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ مولوی باغ نامی قرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج10، ص310، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2024۔









آپ کا تبصرہ