۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن ہندوستان

حوزہ/ واعظین اور ذاکرین کا مرتبہ بہت بلند ہے یہ فضائل و مصائب اہلبیت کے ناشر ہیں جہاں دشمنوں نے فضائل اہلبیت کو چھپانے کی کوشش کی وہاں ان واعظین نے بڑھ چڑھ کر فضائل و مناقب بیان کیے اور ان کی باطل کوششوں کو ناکام کیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علماء و ذاکرین اور واعظین کی خدمت میں مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کچھ گذارشات کی ہے جسکا مکمل متن اس طرح ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

عزادارن مظلوم کربلا سلام علیکم 

عزیزان گرامی ہمارا دین ہمارا مذھب ہماری شریعت سب شہدائے کربلا کا صدقہ ہے اور آج  ہم انہی قربانیوں کے صدقہ میں مسلمان ہیں اس لیے ان کی یاد منانا اور ان کا تذکرہ کرنا ہمارا فرض ہے یہی وجہ ہے کہ اس عظیم عبادت میں قوم کی ہر فرد حصہ لیتی ہے مرد عورت بچے بوڑھے جوان سبھی اس مجلس میں حصے دار ہوتے ہیں ہر کوئی اپنا فریضہ ادا کرتا ہے۔

یہاں ہم ان تمام عزاداروں کو تین گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں بانیان مجلس، سامعین مجلس اور واعظین و ذاکرین مجلس آج ہمارا روئے سخن  واعظین و ذاکرین کی طرف ہے۔

بات کو شروع کرنے سے پہلے یہ واضح کردینا ضروری ہے یہ پیغام مجمع علماء و خطباء دکن کی جانب سے ہے اس کا مطلب یہ اس خطاب میں وہ خود بھی شامل ہیں اس مختصر بیان میں دو باتوں کی جانب توجہ دلانی ہے ایک ذاکرین و واعظین کی عظمت اور دوسرے ذاکرین و واعظین کی سنگین ذمہ داریاں۔

واعظین اور ذاکرین کا مرتبہ بہت بلند ہے یہ فضائل و مصائب اہلبیت کے ناشر ہیں جہاں دشمنوں نے فضائل اہلبیت کو چھپانے کی کوشش کی وہاں ان واعظین نے بڑھ چڑھ کر فضائل و مناقب بیان کیے اور ان کی باطل کوششوں کو ناکام کیا ۔خود ائمہ علیہم السلا۔ نے ان کی حوصلہ افزائی کی انہیں تحفے تحائف دیے اور شیعہ قوم نے بھی انہیں اونچا مقام دیا اور دل و جان سے ان کی خدمت کی اور مالی امداد سے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔

جب ذکر اہلبیت کے صدقے میں ذاکر کی سماج میں توقیر ہے عزت و وقار ہے تو وہیں اس کی چند اہم ذمہ داریاں بھی ہیں ان میں سے چند اہم باتوں کو ہم یہاں پیش کررہے ہیں اس کے مخاطب سب سے پہلے ہم خود ہیں بعد میں ہمارے ہم صنف افراد ہیں:

۱۔جذبہ خلوص

ذکر اہلبیت خوشنودی خدا کا باعث ہے اس لیے عبادت ہے اور اگر عبادت خلوص و قربۃ الی اللہ سے خالی ہو تو باطل ہے۔ خلوص کا تقاضہ یہ ہے امیر غریب ہر ایک کی مخلصانہ دعوتوں کو یکساں طور پر قبول کریں۔ یہ منبر صرف بانیان مجلس یا سامعین کی خوشنودی اور زور خطابت دکھاکر واہ واہی بٹورنے کیلئے نہیں بنایا گیا بلکہ اسے تبلیغ دین ،ہدایت اسلام ، اور فضائل و مصائب اہلبیت کی نشر و اشاعت کیلئے رکھا گیا ہے حق بیانی کیلئے بنایا گیا ہے اس لیے خطیب کو منبر پر خلوص کے ساتھ اپنے فریضہ کو ادا کرنا چاہیے۔
  
۲۔ایام محرم کو تجارتی موسم نہ بنائیں

ذاکرین اور واعظین سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے بال بچوں سے جدائی کو تحمل کرتے ہوئے دور دراز علاقوں کا سفر کرتے ہیں تاکہ ذکر حسین کا فریضہ انجام دیں اور مومنین بھی خاص طور سے ان ایام میں آنسو بہانے آتے ہیں لیکن اگر ان صعوبتوں سے ذاکر کا مقصد صرف مال دنیا کمانا ہو اور وہ اس ذاکری کو تجارتی منڈی میں تبدیل کردے اور مجالس کی سودے بازی میں لگا رہے تو کیا اسے منبر پر جانا زیب دیتا ہے خدارا ایام محرم کو تجارتی موسم نہ بنائیں۔

آج کل واعظین اور ذاکرین کو مدعو کرنے میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون مشہور ہے کون علاقائی اور مقامی ہے کس میں فن گویایی ہے اور کس کے ذکر میں لذت سماع پایا جاتا ہے کس کی مجلس میں زیادہ واہ واہ ہوتی ہے اور سامعین کس کے نام پر زیادہ جمع ہوتے ہیں انہی کو مدعو کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایسے ذاکروں کے نخرے بڑھ جاتے ہیں گویا ذاکری کو کاروبار میں تبدیل کرنے میں کہیں نہ کہیں بانیان مجلس کا بھی ہاتھ  ہے۔

۳۔ذاکرین و واعظین کی جانب سے حق تلفی

بعض ذاکرین اور واعظین ایک ہی دن میں ۱۸ اور ۲۰ مقامات پر ذکر کرتے ہیں مگر دوسروں کو ذکر کا موقعہ نہیں دیتے جبکہ دوسرے بھی اہلیت رکھتے ہیں یہ اس لیے ہوتا ہے کہ آج کل واعظین و ذاکرین کو مدعو کرنے میں اہلیت سے زیادہ ذاتی تعلقات، باہمی مراسم، یاری دوستی اور گروپ بندی دیکھی جاتی ہے اس قسم کے بندھنوں کو توڑنا اور آداب مجلس کے مفاسد کو دور کرنا بھی خطباء و ذاکرین و واعظین کی ذمہ داری ہے بانیان مجلس کو دوسرے خطباء کی جانب رجوع کروانا ان کی معرفی کرنا بھی آپ ہی کی ذمہ داری ہے تاکہ دوسروں کو بھی اپنی صلاحتیوں کو پیش کرنے کا موقعہ ملے اس طرح استحصال ختم ہوجائے اور آپ غاصبین حقوق کی فہرست میں آنے سے بچ جائیں۔

۳۔ذکر اہلبیت میں اہلیت بھی ایک شرط ہے 

ذاکرین و واعظین کی اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ فضائل ہوں یا مصائب تفسیر آیات ہو یا تشریح احادیث، تاریخی روایات ہوں یا فقہی مسائل ان تمام مطالب میں معتبر مستند اور صحیح کتابوں سے بیان کرے ایسی باتیں بیان کرے جو علماء و فقہا کی تصدیق شدہ ہوں اس لیے کہ عام لوگ جو کچھ منبر سے بیان کیا جاتا ہے اسے صحیح سمجھ لیتے ہیں اس لیے کہ سامعین میں ہر کوئی اہل علم اور تاریخ داں نہیں ہوتا کہ سچ کو جھوٹ سے تمیز دے سکے اور سچ کو قبول کرلے اور جھوٹ کو وہیں رہنے دے لوگوں سے بھی یہ گلہ ہے کہ لوگ یوں تو قانونی معلومات کیلئے وکلاء ، امراض کی تشخیص کیلئے  اطباء  کے پاس جاتے ہیں اور ہرمسئلہ میں اس کے  ماہرین سے رجوع کرتے ہیں لیکن امور اسلام  ، مسائل دین ، احکام شریعت، تفسیر و قرآن اور احادیث و روایات کو ہر شخص سے سن کر قبول کرلیتے ہیں بلکہ انہیں چاہیے کہ ان مسائل کو ان سے دریافت کریں جو ماہر ہوں معتمد ہوں جن میں تقوی و دیانت بدرجہ اتم ہوں۔

۴۔شکل و صورت اسلامی ہونا چاہیے 

واعظین کرام اسلام کے مبلغ ہیں انبیاء اور ائمہ کے بعد لوگوں میں دین کی رہنمائی کے ذمہ دار ہیں بشارت و انذار کے فرائض انجام دینے والے ہیں تو ان پر لازمی ہے کہ وہ منبر کا احترام کریں اپنے حلیہ کو اسلامی رکھیں منڈھی ہوئی داڑھی اور موٹی موٹی مونچھیں ، سیاسی لیڈروں کی وضع و قطع کی پیروی اور جہلاء میں مقبولیت پانے کیلئے انہی کے غیر معقول حلیہ میں ڈھلنا ایک ذاکر حسین اور واعظ کیلئے زیب نہیں دیتا۔

بس آخر میں اتنا کہیں گے کہ آپ کی ذمہ داری سنگین ہے قوم کا سدھار اور بگاڑ آپ کے ہاتھوں میں ہے اگر آپ ان مجالس میں توحید نبوت امامت اور قیامت کے مسائل ٹھوس دلائل ، مضبوط براہین، اور مستند حوالوں کے ساتھ احادیث معصومین علیہم السلام ، صحیح تاریخ اور فقہ جعفری کے مسائل دلنشیں انداز میں  اور واقعات کربلا و شام اور مصائب آل محمد صحت روایات کے ساتھ بیاں کریں گے تو ذوق سماعت رکھنے والی ہماری قوم اپنے علم و عمل کے ساتھ بلند مقام پر نظر آئے گی بلکہ اہلبیت علیہم السلام کی پیروی کے سانچے میں ڈھل کر اقوام عالم کو راہ حق کی دعوت دے گی۔بس اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ مجلس کا مقصد وہی ہے جو امام حسین کی قربانی کا مقصد تھا یعنی دین کی حفاظت امام عالی مقام نے دین کو خود پر قربان نہیں کیا بلکہ دین کیلئے خود کو قربان کردیا۔والسلام

تبصرہ ارسال

You are replying to: .