حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ممبئی/ عید الاضحیٰ کے پُرنور موقع پر جب ہر طرف جانوروں کی قربانی، منڈیوں کا جوش، اور گوشت کی پارسلوں کی تقسیم کا سماں تھا، اسی دوران شیعہ مسجد ایرانیان معروف مغل مسجد ممبئی میں مولانا نجیب الحسن زیدی نے ایک نہایت مختلف اور پر اثر موضوع پر گفتگو فرمائی۔ ان کا خطبہ جہاں قربانی کے اصل فلسفے کو اجاگر کرتا ہے، وہیں آج کے دور میں ایک عالم دین کی گمنام، مگر عظیم قربانی کو موضوع بناتا ہے۔
عید قربان: صرف جانور نہیں، انسان بھی روز قربان ہوتا ہے
مولانا زیدی نے خطبے کا آغاز ان الفاظ سے کیا: "عید قربان آتی ہے، جانوروں کی منڈیاں سجتی ہیں۔ چرچے ہوتے ہیں کہ کون سا بکرا زیادہ قیمتی ہے، کس کے سینگ بڑے ہیں، کس کے گوشت میں زیادہ ذائقہ ہے۔ لیکن کیا کوئی سوچتا ہے کہ انہی دنوں ایک اور قربانی ہر دن دی جا رہی ہوتی ہے، ایک ایسی قربانی جو نہ منڈی میں ملتی ہے، نہ ترازو پر تولی جا سکتی ہے۔"
انہوں نے فرمایا کہ یہ "خاموش قربانی" ہے، جو کسی عالم کو روز دینی پڑتی ہے۔ نہ اس کے لیے سلاٹر ہاؤس درکار ہوتا ہے، نہ لوگوں کی تالیاں۔ یہ وہ قربانی ہے جو ایک عالم مدرسے میں، مسجد میں، یا رفاہی مرکز میں ہر دن دیتا ہے۔
عالم کی خاموش قربانی: حالات، توقعات اور تنقید کا سامنا
مولانا زیدی نے زور دے کر کہا کہ: "جب سب لوگ عید کی خوشیوں میں مصروف ہوتے ہیں، ایک عالم آئندہ روز کے خطبے کی تیاری میں مصروف ہوتا ہے۔ اگر ذرا سی لغزش ہو جائے تو کچھ ‘بقراط’ فوراً تنقید کرنے آ جاتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "جب لوگ نئے لباس پہن کر سیلفیاں لے رہے ہوتے ہیں، ایک عالم اپنے بچوں کو پچھلی عید کے کپڑے سمجھا بجھا کر پہنا رہا ہوتا ہے۔جب لوگ گوشت کے پارسل بانٹ رہے ہوتے ہیں، عالم مسجد میں خدا کے خوف اور تقویٰ کی تلقین کر رہا ہوتا ہے۔"
بکرا اور عالم: قربانی کا فرق؟
مولانا زیدی نے معاشرے کے مزاج پر تنقید کرتے ہوئے کہا: "بکرے پر لوگ دولت لٹاتے ہیں، اسے سردی گرمی سے بچاتے ہیں، اخروٹ بادام کھلاتے ہیں۔ لیکن ایک عالم کے گھر کی بجلی کٹ جائے تو کسی کو پرواہ نہیں ہوتی۔ بکرا بیمار ہو جائے تو ویٹرنری ڈاکٹر بلائے جاتے ہیں، عالم بیمار ہو جائے تو یونانی نسخوں سے گزارا ہوتا ہے۔ بکرا ایک بار ذبح ہوتا ہے، لیکن عالم ہر دن ذبح ہوتا ہے۔ زمانے کے طعنوں سے، مدرسے کی غربت سے، معاشرے کی بے حسی سے!"
عالم کیوں قربان ہوتا ہے؟
انہوں نے کہا کہ ایک عالم دین اس لئے قربان ہوتا ہے کہ "کیونکہ وہ جانتا ہے، دنیا میری قربانی نہیں دیکھے گی، مگر میرا رب جانتا ہے۔ وہی میرے پسینے کو راہِ حق میں بہنے والے لہو سے تولے گا۔ وہی میرے صبر کو قربانی کی سند دے گا۔"
انہوں نے سوال اٹھایا: "جس عالم نے تمہارے بچوں کو حرفِ تہجی سکھایا، نکاح پڑھایا، جنازہ پڑھایا، تمہاری دعاؤں کی گھڑیوں میں تمہارے ساتھ کھڑا رہا — کیا وہ ایک شکریے، ایک عزت، ایک قدر کا مستحق نہیں؟"
انہوں نے آخر میں کہا کہ قربانی صرف گوشت و خون کا نام نہیں، قربانی وہی اصل ہے جو دل سے دی جائے، جو مسلسل دی جائے، جو کسی صلے کی امید کے بغیر دی جائے۔ اور عالم کی قربانی، اسی "ابراہیمی مدرسے" کی ایک زندہ مثال ہے۔ جو روز جیتا ہے، روز مرتا ہے، اور روز رب کو راضی کرنے کے لیے خود کو قربان کرتا ہے۔









آپ کا تبصرہ