تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی
حوزہ نیوز ایجنسی | دنیا بھر میں موجود حریت پسند آج جنت البقیع کے انہدام کے جانگداز المیہ پراس دن کی یاد میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں مختلف پروگرامز اور احتجاجی جلسوں میں شریک ہو کر اپنا احتجاج درج کراتے ہیں کہ 8 شوال کی تاریخ اس دردناک واقعہ کی یاد کو تازہ کرتی ہے ایک صدی سے زیادہ عرصہ ہونے آیا وہابیت و تکفیریت نے اس تاریخی قبرستان کو منہدم کر کے آنے والے کل کے لئے اپنے خون خرابے کی سیاست کا اعلان کر دیا تھا یوں تو اس واقعہ کو رونما ہوئے ا یک صدی ہو گئی لیکن جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کو منہدم کر دینے کا غم آج بھی تازہ ہے وہ قبرستان جس میں رسول رحمت کی بیٹی شہزادی کونین (بروایتے) اور ان کے ان فرزندوں کے مزارات مقدسہ تھے جنہوں نے بشریت کو علمی ارتقاء و تکامل کا وہ وسیع و عظیم افق عطا کیا جس پر پہنچ کر آج انسان ان کے شاگردوں کے سامنے جھکا نظر آ رہا ہے کہ قال الباقر و قال الصادق کے موجزن علم کے ٹھاٹھے مارتے سمندر کہ کچھ قطرے جابر ابن حیان و ہشام ابن الحکم نے بشریت کے حلقوم تشنہ میں ٹپکا دئیے تھے۔
کتنے عجیب خشک فکر اور کوڑھ مغز لوگ تھے جنہوں نے ان عظیم شخصیتوں کے مزارات مقدسہ کو زمیں بوس کر دیا جن سے کسی ایک مسلک و مذہب نے نہیں بلکہ بشریت نے استفادہ کیا اور آج تک کر رہی ہے۔
بقیع محض ایک قبرستان نہیں تھا جو ویران ہوا بلکہ ایک تاریخی دستاویز کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرکے کچھ لوگوں نے اپنی نابودی کی سطریں رقم کی تھیں اور آج مذہبی و تکفیریت کے جنون میں بے گناہوں کو مار کر بہشت میں جانے کی آرزو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔وہابیت و تکفیریت نے یہ چند مزارات مقدسہ کو مسمار نہیں کیا تھا انسانیت و شرافت کے تاج کو اپنے پیروں تلے روند کر دنیا کو بتلایا تھا کہ پہچانو ہم کون ہیں؟ ہمارا تعلق کس فکر سے ہے؟
جسطرح شیطان ہونے کے باوجود رحمانیت کے سامنے نابود ہے ویسے ہی یہ تکفیریت و وہابیت کے پتلے تعلیمات اہلبیت اطہار علیہم السلام اور بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے دئے گئے دربار خلافت میں تاریخی خطبہ کے سامنے نابود و نابود ہیں انکا وجود ویسے ہی ہے جیسے شیطان کا،یہ ہر اس جگہ گرجتے ملیں گے جہاں شیطان گرجتا ہے یہ ہر اس جگہ سے بھاگتے ملیں گے جہاں سے شیطان بھاگتا ہے۔یہ جہاں توحید کی بات ہوگی جہاں سجدوں کی پاسداری کی بات ہوگی مشرکین سے برأت کے اظہار کی بات ہوگی وہاں دُم دبائے بھاگتے نظر آئیں گے لیکن جہاں مسلمانوں کے قتل عام کی بات ہوگی، معصوم بچوں پر بارود کی بارش کی بات ہوگی، نہتھے لوگوں کو خاک و خون میں غلطاں کرنے کی بات ہوگی انکے قدموں کے نشان نظر آئیں گے۔
یقین نہ آئے تو دیکھیں شیطان کہاں ہنس اور گرج رہا ہے؟ کہیں یمنیوں کے سروں پر ہزاروں ٹن بارود برسا کر، کہیں انسانوں کی کھوپڑیوں سے فوٹبال کھیلتے ہوئے ،کہیں عراق کی زمیں کو لہو لہو کر کے کہیں شام کو ویرانے میں بدل کر کہیں نائجریا میں انصاف وعدالت کا گلا گھونٹ کر کہیں سعودی عرب میں شیخ النمبر کا سر قلم کر کے کہیں پاکستان و افغانستان کی زمینوں کو خون سے سیراب کرکے ،کہیں دھماکوں کے درمیان کہیں شعلوں کے درمیاں کہیں لاش کے بکھرے ٹکڑوں کے درمیان تو کہیں کٹے ہوئے سروں کی نمائش کے درمیان، کہیں مسجدوں میں خون کی ہولی کھیلتے ہوئے تو کہیں امام بارگاہوں میں خوںچکا ہاتھوں کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے…
اس کے قہقہہ بڑھتے ہیں اس کی ٹولیاں آباد ہوتی ہیں کہیں داعش کا ہاتھ تھامے کہیں النصرہ کا کہیں القاعدہ و طالبان تو کہیں بوکو حرام و الاحرار و جند اللہ کا۔ سب کی آوازیں ایک جیسی، سب کے رنگ ایک جیسے، سب کا انداز ایک جیسا، یہ عصبیت کے پتلے ،یہ نفرتوں کی آگ میں دہکتے آتشیں گولے، یہ عدم تحمل و برداشت کے دھویں میں کالے کالے سیاہ سائے، شیطان کے کارندے، یہ ابلیس کے ہم جولی نہیں تو اور کون ہیں ؟ جنہوں نے انسانیت پر وہ ظلم ڈھایا کہ بس… وہ ستم ڈھائے کہ الامآن …یہ جدھر نکلے آگ اور دہشت کا ماحول لیکر نکلے جدھر پہنچے حیوانیت کا بھنگڑا کرتے پہنچے درندگی کا ناچ ناچتے پہنچے۔
کسی زمانہ میں کہیں پڑھا تھا شاید کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ میں لکھا تھا ’’زر اگر دنیا میں اپنے ایک گال پر خون کا دھبہ لے کر آتا ہے تو سرمایہ، سامراجیت کی شکل میں سر سے پیر تک، اپنے ہر ایک مسام سے خون ٹپکاتے ہوئے نمودار ہوتا ہے۔‘‘ بات صحیح ہے سامراجیت کی پوری تاریخ جارحیت، دوسرے ممالک پر قبضوں اور تسلط، لوٹ مار اور قتل عام سے عبارت ہے لیکن آج مطلع کارزار بدلا ہوا ہے سامراج اپنے مہروں کو قتل و غارت گری کا ننگا ناچ نچوانے کے لئے جو کچھ ان کی ضرورت ہے اسے پورا بھی کر رہا ہے اور پھر گول میز کانفرنسوں میں دنیا میں امن و امان کی باتیں بھی ۔آج سرمایہ داری کا مکھوٹا ضرور دنیا کی سپر پاور نے پہنا ہوا ہے لیکن حقیقت میں سرمایہ دارانہ نظام جان بوجھ کر اسلامی نظام شاہنشاہی کی صورت سعودی عرب کے حوالہ کیا ہوا ہے جس کی تاریخ ہی خون خرابے سے عبارت ہے وہ آج حرم امن الہی کا رکھوالا ہے جسنے اپنی بے بضاعتی سے مسجد النبی و بیت اللہ کو کشتوں سے پاٹ پاٹ دیا ہے ۔جس نے قرآنی تعلیمات کا گلا گھوٹنے میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا وہ قرآن ساری دنیا میں بانٹ کر وحی الہی کا دنیا میں نشر کرنے والا بن رہا ہے۔
اگر بقول مارکس پیسہ نوع بشر کے ایک گال پر خون کا دھبا اور سرمایہ اس کے مساموں سے ٹپکتا لہو ہے تو آج کہا جا سکتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام جو نہ کر سکا وہ آج سعودی ریالوں کی جھنکار کر رہی ہے اور تکفیریت و وہابیت سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اپنے پورے تاریخی ظلم کے تجربات کے سایہ میں انسانیت کے سینہ پر بیٹھی اس گا گلا ریت رہی ہے اور اس کی پور پور سے خون ٹپک رہا ہے اور کوئی اس کے خلاف بولے تو کیا بولے؟ ۔۔
حقوق بشر و انسانیت کے نعروں کو بلند کرنے والی تنظیمیں اس کے خونی ناچ کے ساتھ ڈگڈگی بجا بجا کر محظوظ ہو رہی ہیں کہ کل تو امیر شام کا باپ اذان سے محمد رسول اللہ کا نام نہ نکال سکا لیکن آج ہماری ڈگڈگی کی ڈگ ڈگ ڈگ اور تکفیریت کے ننگے ناچ میں ضرور محمد رسول اللہ کا نام دہشت و ویرانی کا ترجماں بن جائگا جو نعرہ اللہ اکبر جو نعرہ محمد رسول اللہ جانوں کی حفاظت کے لئے بلند ہوتا تھا وہ جب جانوں کو لینے کے لئے بلند ہوگا تو کوئی خوش ہو نہ ہو امیر شام کے باپ کی تمنا ضرور مچل مچل کر اعلٰ ھبل و اعلا ھبل کے نعرہ لگا رہی ہوگی۔ایسے میں ضروری ہے کہ ہم دنیا کو پہچنوائیں کہ یہ کون لوگ ہیں اور انسانیت کے لئے کتنے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں؟
ان کے سیاہ کارنامے تو دیکھیں جو عالمی استکبار و سامراج کی پشت پناہی میں اس تکفیری ٹولے نے انجام دئیے بقیع تو محض ایک قبرستان تھا جس سے مسلمانوں کی قلبی وابستگی تھی جو انسانی عظمتوں کے محافظ عظیم خاکی پیکر میں ڈھلے انوار الہیہ کی پاکیزہ تربتوں کو اپنے دل میں سموئے تھا ، انہوں نے محض اسے ہی مسمار نہیں کیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اور بھی تاریخی و ثقافتی یادگاروں کو تباہ و برباد کیا حتی اسلام کا مرکز جانے والے شہر مدینہ تک کو نہیں بخشا چنانچہ تاریخ بتاتی ہے وہابیوں نے مکہ مکرمہ پرقبضہ کے بعد مدینہ منورہ کارخ کیا ، شہرکامحاصرہ کیا اور مدافعینِ شہر سے جنگ کے بعد اس پرقبضہ کرلیا ، جنت البقیع میں آئمہ علیہم السلام کی قبور اور اسی طرح باقی قبروں جیسے قبر ابراھیم فرزندپیغمبر(ص) ، ازواج آنحضرت کی قبور ، قبرحضرت ام البنین مادرحضرت عباس(ع) ، قبہ جناب عبداللہ والد گرامی رسول خدا(ص)، قبہ اسماعیل بن جعفرصادق علیہ السلام اور تمام اصحاب وتابعین کی تمام کی تمام قبورکو مسمار کر دیا اور اس فولادی ضریح کو بھی اکھاڑ دیا جسے اصفہان سے خاص طور پر بنا کر مدینہ لایا گیا تھا اور جسے امام مجتبی علیہ السلام امام زین العابدین علیہ السلام اور امام محمد باقر و صادق علیہما السلام کی قبور مطہر پر نصب کیا گیا تھا ان لوگوں نے نہ صرف اس ضریح کو وہاں سے اکھاڑا بلکہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا جناب عباس اور فاطمہ بنت اسد والدہ گرامی امیر المومنین علیہ السلام کو بھی ویران کر دیا جو آئمہ اربعہ علیھم السلام کے ساتھ ایک ہی قبے میں تھیں ۔[1]
اسی طرح مدینہ منورہ میں امام حسن اورامام حسین علیہماالسلام کے محل ولادت، شہدائے بدر کی قبور نیز حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ تعمیر کیا گیا وہ گھر بھی انہوں نے مسمار کر دیا جسے آپ نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے لئیے مدینہ میں بنایا تھا ۔[2]
بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ وہابیوں نے محض شیعہ آبادی کے علاقوں کو ہی تاراج کیا جب کہ حجاز اور شام میں ان کے کارناموں کامشاہدہ کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوگی کہ اہل سنت آبادی کے علاقے بھی ان کے حملات سے محفوظ نہ رہ سکے ۔
زینی دحلان مفتی مکہ مکرمہ لکھتے ہیں:’’ولما ملکوا الطائف فی الذیقعدة سنة ١٢١٧، الف ومائتین وسبعة عشرقتلوا الکبیر والصغیر والمامور والامر ولم ینج الامن
طال عمرہ ، وکانوایذبحون الصغیر علی صدرامہ ونھبوا الاموال وسبوا النساء‘‘۔[3]
١٢١٧ھ میں جب وہابیوں نے طائف پرقبضہ کیا تو چھوٹے، بڑے ، سردار و مزدور سب کوقتل کرڈالا ،بوڑھے افراد کے علاوہ کوئی ان کے ہاتھوں سے نجات نہ پاسکا ، یہاں تک ماؤں کی آغوش میں ان کے شیرخوار بچوں کے سرتن سے جداکردیئے، لوگوں کامال لوٹا اور عورتوں کوقیدی بنالیا … انکی داستان ظلم رقم کرنے کے لئے کتابیں درکار ہیں ،کل انہوں نے مدینہ و حجاز و طائف نہیں چھوڑا آج یمن کو نابود کر دینے کے درپئے ہیں ایسے میں جنت البقیع کے انہدام کے سلسلہ سے ہونے والے پروگراموں میں انکی جارحیت و ظلم سے پردہ اٹھانا ہمارا دینی ہی نہیں انسانی فریضہ ہے ،وہ دن دور نہیں جب عالمی سامراج و اسکتبار کے شانہ بشانہ ان ظالموں کو اپنے کئے دھرے کا حساب دینا ہوگا۔
حوالہ جات:
[1] دوانی، مقدمہ۔فرقہ وہابی ،ص: ۵۶محسن امین ،کشف الارتیاب؛صفحہ ٥٥
[2] ۔قزوینی، وہابیت از منظر عقل و شرع ص ۱۱۹
[3] زینی دحلان ،الدررالسنیة :ص،٤٥
آپ کا تبصرہ