بدھ 30 اپریل 2025 - 12:06
ہندوستانی علماۓ اعلام کا تعارف | شمس العلماء مولانا ابن حسن جائسی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی

حوزہ نیوز ایجنسی | شمس العلماء مولانا ابن حسن سن 1291ہجری میں سرزمین لکھنؤ پرپیدا ہوئے ۔آپ کے والد حسن رضا شریف النفس انسان تھے اورآپ کی والدہ کا تعلق خاندان اجتہاد سےتھا۔ موصوف" شمس العلماء "کے لقب سے پہچانے جاتے تھے ۔ شمس العلماء نے ابتدائی اور متوسط تعلیم لکھنؤ میں مولانا لطف حسین نحوی ، مولانا سید علی نقی ، مولانا سید حسین ملاذ العلماء مولانا ابوالحسن اور بحر العلوم محمد حسین سے حاصل کی۔آپ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئےبحرالعلوم نے عراق جانے سے پہلے آپ کو اجازہ مرحمت فرمایا ۔

آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سےعراق کا رخ کیا اور حوزہ علمیہ کربلا میں اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا پھر اس کے بعدنجف اشرف کے جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا آپ نے نجف اشرف کے اساتذہ کے علاوہ حوزہ علمیہ سامراء کے اساتذہ کرام سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں آیت اللہ سید محمد باقر کربلائی، آیت اللہ سید کاظم طباطبائی، آیت اللہ آخوند ملا محمد کاظم خراسانی اور آیت اللہ اصفہانی (آقای شریعت) جیسے جلیل القدر علماء کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔موصوف کے اساتذہ نے آپ کی علمی لیاقت کو دیکھتے ہوئے اجازات سے نوازا۔ اساتذہ کے علاوہ آیت اللہ شیخ حسین مازندرانی، آیت اللہ سید علی آل کاشف الغطاء، اور آیت اللہ سید مصطفیٰ کاشفی نے بھی اجازات عطا فرمائے۔

شمس العلماء تدریس سے بہت لگاؤ رکھتے تھےآپ نے اپنے گھر سے تدریسی سلسلہ کو جاری رکھا اور بہت سے شاگردوں کی تربیت کی جن میں مولانا مرتضیٰ حسین فاضل کا نام سر فہرست ہے۔

موصوف کی عمدہ آواز لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی انکی تقریر میں ایک خاص کشش تھی،جس وقت "مرزا رفیع بازل" کی طویل مثنوی حملہ حیدری کے اشعار پڑھتے تھے تو لوگ وجد کرتے اورایسا محسوس ہوتا گویا جنگ خود ان کے سامنے ہو رہی ہو۔

مولانا ابن حسن جائسی کی علمی اور فقہی خدمات کا دائرہ وسیع ہے یہی وجہ ہیکہ آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ مولانا کی اہم تصانیف میں "رسالہ الرائ السدید فی مسائل الاجتھاد و التقلید"، "رسالہ راتب"، "ارث الخیار استدلالی"، "فضائل و مصائب اہل بیت" (دو جلد)، "حاشیہ مفصل بر رسائل شیخ"، اور "نھایۃ الاصول حاشیہ کفایۃ الاصول" شامل ہیں۔

آپ بہت خوش اخلاق منکسر المزاج اور مہمان نواز تھے مولانا محمد حسین انکی مہمان نوازی کے سلسلے سے اپنی کتاب تذکرہ بے بہامیں تحریر فرماتے ہیں کہ میں سن 1331ھ میں عتبات عالیہ کی زیارت کے لیے گیا تھا۔ واپسی پر مولانا ابن حسن بھی سامراء سے آ رہے تھے۔ میں نے انہیں پہچانا نہیں ۔ وہ مجھ سے پہلے مہمان خانے پہنچ چکے تھے۔ جب میں وہاں پہنچا، تو شام کا وقت تھا اور آہستہ آہستہ اندھیرا چھا رہا تھا۔ میں اپنے متعلقین کو گاڑی سے اتارنے میں مشغول تھا کہ اچانک انہوں نے مجھے میرے نام سے پکارا۔ میں حیران ہو گیا کہ یا اللہ یہاں میرا جاننے والا کون ہے جو مجھے پہچانتا ہے؟ جب میں نے بھی انہیں پہچا لیاتو آپ بیحد مسرور ہوئے اور بہت اخلاق سے پیش آئے اور مجھے اپنے گھر لے جاکر بہت مہمان نوازی کی۔

مولانا ابن حسن جائسی جس وقت سامراء میں مقیم تھے تو آپ کی علمی شہرت اس قدر بڑھی کہ بغداد سے ان کے پاس ایک خط آیا جس میں ان سےآیت اللہ سید محمد باقر کی جگہ تقسیم کے منصب قبول کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔شمس العلماء پہلے ہندوستانی عالم تھے جنہوں نے اس منصب کو قبول کیا۔

جب انگریزوں اور سلطان روم کی جنگ ہوئی تو تمام حقوق بند ہوگئے۔ آپ بہت تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد جنگ سے تنگ آکر کربلائے معلٰی سے دریا کے راستے بصرہ تشریف لائے اوروہاں سے سن 1335 ہجری میں لکھنؤ واپس آ گئے ۔جس وقت آپ لکھنؤ تشریف لائے تو علماء، فضلاء ، اکابر اور روساء کا مجمع آپ کے استقبال کیلیئے کھڑا تھا۔ بہت ہی شان و شوکت سے استقبال ہوا۔اللہ نے آپ کو ایک فرزند عطا کیا جسکو مولانا قائم مہدی کے نام پہچانا گیا ۔

آخرکار یہ علم و عمل کا درخشاں آفتاب 26 شعبان سن 1368 ہجری لکھنؤ میں وفات پائی اورمجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ حسینیہ غفرانمآب لکھنؤ میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی چھولسیمولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha