حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ سبط حسین جائسی 15 شعبان سن 1284 ہجری میں سرزمین لکھنؤ پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد رمضان علی جائسی خاندان اجتہاد کے عظیم فردتھے۔ موصوف کی تربیت علمی ماحول میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم مولانا حبیب حیدر سے حاصل کی ۔ آپ نے قرآن مجید، حدیث، تفسیر، فقہ ، منقولات اور معقولات کی تعلیم مولانا محمد حسین بحر العلوم، ملاذالعلما سید بچھن ، تاج العلما سید علی محمد سے حاصل کی اور طب میں حکیم محمد جی سے کسب فیض کیا ۔آیت اللہ سبط حسین جائسی کی علمی شخصیت کو دیکھتے ہوئے علماء نے آپ کو"اعلم العلماء" جیسے لقب سے یاد کیا ہے۔
آپ بہت ذہین اور محنتی انسان تھے طالب علمی کے زمانہ میں اساتذہ سے جو کچھ حاصل کرتے دوسرےطلبا کو درس دے کر اس میں اورنکھار پیدا کرلیتے تھے ۔ اعلم العلماء کو علم اصول فقہ اور علم فقہ سے اتنا لگاؤ تھا کہ فقہ جعفری کے علاوہ دیگر مذاہب اربعہ کی فقہ و اصول کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے بھی تھے ۔ اسی لیے آپ کو ابتدا ہی سے تقابلی مطالعہ کا شوق رہا۔
سن 1901 عیسوی میں لکھنؤ سے تعلیم مکمل کر کےعراق کا رخ کیا اور نجف اشرف، کربلا ئے معلیٰ اور سامرا کے مجتہدین کرام سے کسب فیض کیا۔ جن میں: آیت اللہ بزرگ میرزا محمد حسین شیرازی ،آیت اللہ مرزا حبیب اللہ رشتی،آیت اللہ شیخ علی یزدی ، آیت اللہ مرزا محمد حسین شہرستانی کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ اعلم العلماء نے آیت اللہ شہرستانی اور آیت اللہ شیرازی کے درس میں تیرہ سال شرکت کی اور فقہ و اصول کے دو دورےمکمل کئے اور تیسرے دورے میں بھی شرکت فرماکر درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔
حجت الاسلام مولانا محمود الحسن خان نےآپ کے علمی شخصیت اور مسلم الثبوت مجتہد ہونے کو بیان فرمایا: مولانا سبط حسین مسلم الثبوت مجتہد تھے جب وہ شہر جونپور تشریف لائے تو ان کا رسالہ عملیہ چھپا جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان کے فتاووں پر عمل کیا جاتا تھا اور وہ رسالہ جامع عباسی کی شکل میں تھا جس پر انہوں نے حاشیہ کی صورت میں فتووں پر اپنا نظریہ ظاہر کیا ہے ، اعلم العلماء کی شخصیت جونپور بلکہ پورے ہندوستان میں ممتاز تھی انکے بعد ہندوستان میں کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہوئی ۔آپ کربلا معلیٰ عراق میں درس خارج دیتے تھے اور یہی فضیلت بیان کی جائےکہ آپ کربلا میں درس خارج دیتے تھے تو آپ کی شخصیت کو پہچاننے کیلئے کافی ہے۔
آپ تحصیل علم کو بہت پسند فرماتے تھے ایک دن اپنے استاد کے درس کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگے اگر آیت اللہ شہرستانی اور زندہ رہتے تو میں زندگی بھر ان سے کسب فیض کرتا رہتا۔آیت اللہ شہرستانی بھی موصوف کا بہت احترام فرماتے اور درس خارج کہنے کی فرمائش کرتے تھے ، مگر مولانا سبط حسین نے استاد محترم کے احترام میں درس خارج شروع نہیں کیا ۔
آیت اللہ سبط حسین جائسی کو سن 1309 ہجری میں آیت اللہ شیخ مازندرانی کربلائی، آیت اللہ حاجی شیخ حسین نے اور سن1311 ہجری میں آیت اللہ میرزا محمد حسن شیرازی، تاج العلماء سید علی محمد اور میرزا حسین شہرستانی نے اجازات سے نوازا۔
لکھنو کے علماء نے آپ کا زبردست استقبال کیا اور آپ کی علمی عظمت کا سب نے لوہا مانا۔ مولانا علن طاب ثراہ کے بعد مولانا سبط حسین بر صغیر کے مرجع مان لیے گئے ۔ ایک جلسہ میں اکثر علماء موجود تھے جس میں عراق سے آئے ہوئے ایک عالم دین بھی موجودتھے اس میں آیت اللہ سبط حسین سے علم اصول فقہ پر مذاکرہ ہوا تو عراقی عالم نے برجستہ آپ کی علم اصول میں مہارت کی تائید فرمائی۔
آپ کو درس و تدریس سے بہت لگاؤ تھا جس کی مدرسہ سلیمانیہ پٹنہ اور مدرسہ منصبیہ میرٹھ کا پرنسپل ہونا تائید کرتاہے۔ اعلم العلماء اپنے عہد کے سب سے بڑے اصولی تھے جس کی وجہ سے طلاب عظام اور علمائے کرام نے کسب فیض کیا ۔
آپ کے شاگردوں میں : زبدۃ العلماء ابولحسن مجتہد،مفتی محمد علی، آیت اللہ سید علی، آیت اللہ سید علی بحرینی، آیت اللہ مرزا محمد تہرانی، آیت اللہ سید اصفہانی، شمس العلماء سبط حسن،حکیم محمد عباس سرسوی، مولانا محمد ابراہیم زنگی پوری، مولانا محمد یعقوب زنگی پوری اور مولانا سید اولاد حسین نوگانوی وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔
علم طب میں موصوف کا کوئی ثانی نہ تھا ۔ آپ نے حیرت انگیز علاج کیے اور حیران کن تشخیص و تجویز فرمائی،چنانچہ جانسٹھ ضلع مظفرنگرمیں ایک مریضہ کا علاج قربۃ الیٰ اللہ کیا جسکو اطباء نے دق تجویز کر دیا تھا اور ایک مدت سے بیمار تھی آپ کے علاج سے صحت پاکر برسوں اچھی رہی جو کروٹ نہ لے سکتی تھی وہ گھر کے سب کام انجام دینے لگی۔
آیت اللہ سبط حسین نے اپنی تمام ترمصروفیات کے باوجود تحقیق و تالیف کا دامن ہاتھ سےنہیں چھوڑا آپ کے آثار میں: مناہج الاصول، تحقیق الاصول، عرائس الافکار فقہ استدلالی ، مشارع الشرائع اصول فقہ، حواشی جامع عباسی ، اور حواشی تحیۃ الاحکام، معارج الفقہ استدلالی، تاج الکرامہ فی اثبات الامامہ وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں ۔
اعلم العلماء علم اصول ، فقہ ، عقائد ، کلام ، تفسیر، طب وغیرہ کے علاوہ عربی ، فارسی اور اردو ادب میں بھی مہارت رکھتے تھے ۔ آپ بہترین شاعر تھے مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی فرمائی ہے۔ حضرت حرکے مرثیے کے بند کا ایک بیت بطور نمونہ حاضر ہے: "عفو تقصیر پہ دیتی ہے گواہی توبہ ¬ورنہ انجام وہ ہوتا کہ الہی توبہ" آپ کے بیٹے محمد باقر صاحب شمسؔ کو آپ سے میراث میں تاریخ و ادب ملا اور اسی کی وجہ سےمشہور دانشور شمار کئے گئے ۔
آیت اللہ سید سبط حسین جائسی نے اپنی عمر کے آخری حصے میں جونپور میں سکونت اختیار کی اور وہاں کے لوگ آپ سے کسب فیض کرتے رہے۔ آخر کار یہ علم و اجتہاد کا درخشاں آفتاب 19/ جمادی الثانی 1372 ہجری میں سرزمین جونپور پر غروب ہو گیا اور چاہنے والوں کی ہزار آہ و بکا ء کے ہمراہ صدر امامباڑہ جونپور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص331، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2021ء۔