حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سید امیر علی خلف جناب سید سعادت علی شاہ عباس کے زمانہ میں عربی ممالک سے ایران آئے اور ایران سے ہندوستان آکر قیام پذیر ہوئے؛ آپ کی ولادت سن 1280 ہجری بمطابق سن 1849 عیسوی میں بنگال کے ایک علاقہ "چن سورہ" میں ہوئی، ان کے والد محترم کا تعلق موہان ضلع انّاؤ سے تھا جو بعد میں بنگال ہجرت کرگئے تھے اسی لئے انہیں موہانی کہا جاتا ہے۔
موصوف نے ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن، احکام اور تاریخ اسلام کی تعلیم بھی جید علماء کی خدمت میں حاصل کی جس کے ذریعہ فقہ اور دیگر علوم دینی سے آگاہی حاصل ہوئی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ہوگلی(کلکتہ) کے کالج میں ادبیات اور تاریخ پڑھی، سن 1868عیسوی میں فارغ ہوئے، سن 1869عیسوی میں لندن کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر وکالت و عدالت کی تعلیم حاصل کی ؛ تقریباً پانچ سال بعدہندوستان واپس آئےاور علمی، اجتماعی و دینی خدمات کا آغاز کیا۔
علامہ نے اس قدر محنت اور لگن سے پڑھا کہ اجتہاد کی منزل تک پہنچ گئے اور اس کی دلیل بزرگ علماء کے نظریات ہیں، مثلاً مصر کے ایک سنی مؤرخ نے کہا: "یہ اور ان جیسے شیعہ علماء، احکام شرعی میں اجتہا دکا حق رکھتے ہیں"۔
سن 1878عیسوی میں شہر کلکتہ میں قاضی بنے اور سن 1884عیسوی میں کلکتہ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عنوان سے پہچانے گئے۔ موصوف اردو اورہندی کے علاوہ عربی اور فارسی میں بھی مہارت رکھتے تھے کیونکہ عربی کے بغیر ادبیات سمجھ میں نہیں آسکتی اور فارسی زبان ہندوستان میں اس زمانہ کی رائج زبان تھی۔ علامہ کو مطالعہ کا بہت زیادہ شوق تھا چنانچہ شیکسپیئر، شیلر اور ولٹر جیسے اہم مورخوں کی کتابوں کا مطالعہ کیا یہاں تک کہ خود صاحب نظر ہوگئے۔
سن 1887 عیسوی میں سی آئی اے کا خطاب حاصل کیا۔ سن 1890 میں بنگال کی عدالت "بنگال علیا" میں جج کے مشاور بنے ، آپ ہندوستان کے پہلے انسان تھے جو اس عہدہ پر فائز ہوئے، یہ منصب سن 1904عیسوی تک برقرار رہا۔ پھر تمام مناصب سے کنارہ کشی کرکے لندن کی جانب گامزن ہوئے اور وہیں مقیم ہوگئے۔
موصوف کی شہرت ان کی علمی و ہنری صلاحیت کی بنا پر ہندوستان اور برطانیہ میں بام عروج پر پہنچ گئی جس کے نتیجہ میں بڑے سے بڑے عہدہ دار اور صاحبا ن منصب آپ کی صلاحیت کے قائل ہوتے ہوئے آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔
چونکہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصف تک مسلمانوں کے حالات ناگفتہ بہ تھے اسی لئے انہوں نے اس راہ میں قدم اٹھایا اور وکالت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔
مولانا ہندوستانی سیاست میں سرگرم عمل رہے اور فرنگی سیاست کو بے نقاب کرڈالا، اس کام کے لئے آپ نے "جمعیت اسلامی وطن" نام کی کمیٹی بھی تشکیل دی۔ یہی وجہ ہے کہ زرکلی نے الاعلام میں ان کی شان میں یہ جملہ لکھا کہ وہ آخری زمانہ کے ایسے بزرگ تھے جو دین اسلام کے دفاع کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو کہ مولانا امیرعلی حقوق کی آزادی اور عوام کی گردنوں کو طوق غلامی سے آزاد کرنے والوں کی صف اوّل میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے حق میں بہت زیادہ تقاریر کیں، درس دیئے اور نوشتہ جات تحریر کئے جس کے سبب حکومت ہند کی جانب سے آزار و اذیت میں بھی مبتلا ہوئے۔
جب عرب اور ترک میں لڑائی ہوئی اور مولانا امیر علی نے دیکھا کہ عیسائی زخمیوں کی احوال پرسی کے لئے سب موجود ہیں لیکن دوسرے گروہ کو کوئی نہیں پوچھتا تو آپ نے کچھ خیّر حضرات کی مدد سے ڈاکٹروں کا اہتمام کیا اور عرب و ترک کے مسلمانوں کے علاج کی خاطر روانہ کیا، یہ کمیٹی جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کئی سال تک اس کار خیر میں سرگرم عمل رہی۔
جنگ کے دوران جب ڈاکٹروں کے لیڈر نے مولانا امیرعلی سے سوال کیا کہ کیا صرف زخمی مسلمانوں کا علاج کریں؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارا پہلا مقصد تو یہی ہے کہ مسلمانوں کا علاج کیا جائے لیکن بوقت ضرورت یہودی اور عیسائیوں کے علاج سے بھی دریغ نہ کرنا۔
مولانا امیر علی ان غیرتمند مسلمانوں میں سے تھے جنہیں حکومت عثمانیہ کے خاتمہ کا خوف کھائے جاتا تھا، وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ یہ حکومت مغربی دھوکہ دھڑی کا شکار ہوجائے کیونکہ یہی ایک حکومت ایسی تھی جو مخالفین کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھی۔ یہی وجہ تھے کہ مولانا موصوف نے اس حکومت کو بچانے کے لئے ہندوستان، عرب اور ترک کے مسلم حکمرانوں کو خطوط بھی لکھے کہ وہ اس امر میں حمایت کریں، آپ نے اس ضمن میں بہت سے تقریریں کیں اور مضامین بھی تحریر کئے حتی یورپ اور برطانیہ کے سربراہوں سے بھی متعدد بار اس موضوع کے تحت گفتگو کی۔
مولانا موصوف نے تاریخ، فقہ، عقائد و احکام اور سیاست میں بے شمار کتابیں تالیف کیں جو دشمنوں کی انجمنوں میں بھی لائق تحسین قرار پائیں۔ ان کی کتابوں میں سے: زندگی حضرت محمد اور ان کی تعلیمات، مسلم تاریخ کا خلاصہ، روح اسلام، احکام شریعت محمدی، آداب اسلام، تنقید الکلام فی احوال شارع الاسلام و مختصری از احکام شریعت برای دانشجویان وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
خداوند عالم نے موصوف کو دو نعمتوں سے نوازا جو وارث امیر علی اور طارق امیرعلی کے نام سے معروف ہیں۔ علامہ محسن امین کے مطابق ان کا پہلا بیٹا حکومت ہند میں کافی نفوذ کا مالک رہا اور چھوٹا بیٹا عدالت میں قاضی کے عنوان سے پہچانا گیا۔
آخرکار یہ علم و سیاست کا چمکتا ستارہ سن 1347ہجری بمطابق سن 1928عیسوی میں اچانک حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب انگلینڈ میں غروب ہوگیا اورمؤمنین کی موجودگی میں مسلم قبرستان میں سپرد لحد کیا گیا، موصوف نے اپنی قبر کی جگہ اپنی زندگی میں اپنی جیب خاص سے خریدکر محفوظ کرلی تھی۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص 147دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020
۞۞۞