۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
آیۃ اللہ العظمیٰ سید راحت حسین رضوی گوپالپوری

حوزه/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی، کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیۃ اللہ سید راحت حسین رضوی سنہ 1297 ہجری میں گوپالپور ضلع سیوان صوبہ بہار میں پیدا ہوئے، آپ کے والد محترم کا نام " سید ظاہر حسین رضوی"  تھا۔ 

علامہ شیخ آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو عالم جلیل اور فقیہ کامل کہہ کر یاد کیا ہے ۔ مزید معلومات کے لئے کتاب نقباء البشر فی القرن الرابع عشر جلد 2، صفحہ 716 کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ 

سرزمین گوپالپور  ہمیشہ علماء  کے وجود سے آباد رہی ہے  اس سر زمین کے مشہور علماء میں آیۃ اللہ راحت حسین گوپالپوری کا نام سرفہرست ہے۔ 

 موصوف نے ابتدائی تعلیم،  جناب سخاوت حسین صاحب اور مولانا  امیر حسنین صاحب  سے حاصل کی ۔ اس کے بعد موضع کھجوه ضلع سارن  اور مظفر پورمیں عربی کی ابتدائی کتب مولانا سید حسن صاحب قبلہ اورمولانا سید عابد حسین صاحب قبلہ وغیرہ سے پڑھیں۔ 

سنہ 1319ہجری  میں ، لکھنؤ کا  سفر کیا اور مدرسہ سلطان المدارس  میں رہ کر مجرب اساتذہ  مثلاً مولانا سید محمد مہدی صاحب(صاحب کتاب لواعج الاحزان)،ظہور الملۃ مولانا سید ظہور حسین بارہوی لکھنوی صاحب، مولانا سید حسن باخدا صاحب، باقر العلوم آیۃ اللہ  سید محمد باقر رضوی لکھنوی صاحب (صاحب اسداء الرغاب) اور مولانا سید عابد حسین صاحب   وغیرہ سے کسب فیض کیا ۔  

علامہ کی علمی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے مدرسہ سلطانیہ میں مدرس کی حیثیت سے منتخب کرلیا گیا تھا لیکن آپ نے مدرسہ کو ترک کیا اور سنہ 1324ہجری میں نجف اشرف روانہ ہوئے اور وہاں کے نامی گرامی فقہا ءکے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے، ان فقہاء میں آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی، آیۃ اللہ سید حسین رشتی، آیۃ اللہ محمد علی رشتی، آیۃ اللہ حسین ابن محمود قمی، آیۃ اللہ ابراہیم اردبیلی،  آیۃ اللہ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی (صاحب کتاب عروۃ الوثقیٰ) آیۃ اللہ محمد کاظم خراسانی، شیخ الشریعہ آیۃ اللہ فتح اللہ اصفہانی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔  
 
علامہ راحت حسین صاحب سنہ 1334ہجری  میں اکثر فقہاء سے اجازۂ اجتہاد لے کر نجف اشرف سے  ہندوستان واپس آئے۔ آپ نے ایران و عراق کے آیاتِ عظام کو اجازے بھی مرحمت فرمائے جن میں سے آیت اللہ مرعشی نجفی صاحب سرفہرست ہیں۔ آیت اللہ مرعشی نجفی صاحب نے اس اجازہ کا تذکرہ اپنی کتاب "المسلسلات فی الاجازات، جلد1، صفحہ94" پر کیا ہے اور اس اجازہ کی تصویر بھی لائے ہیں۔
 
موصوف مسلّم الثبوت مجتہد تھے، ویکیپیڈیا کے مطابق آپ کی توضیح المسائل "توشۂ آخرت " کے نام سےدیکھی گئی جس کو استاد مولانا سید رسول احمد  رضوی صاحب گوپالپوری نے مرتب کیا تھا۔

راحت حسین صاحب لکھنؤ  میں مدرسۃ الواعظین کی مدیریت کے فرائض کی  انجام دہی کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین اور تصنیف و تالیف میں  بھی مشغول رہے ـ 

آپ نے آنے والی نسلوں کے لئے بہت سی اہم کتابیں تالیف کیں۔  جن میں سے : تفسیر انوارالقرآن، الانتصار ، غنا اور اسلام، نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم، سبیل الہدی (علم اور علماء کی فضیلت میں)، مختصر القواعد (علم نحو)، رفع الالتباس عن سند زیارۃ الناحیۃ، قاطع اللجاج فی میراث الازواج اور مرشد امت کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ جب کہ آیت اللہ مرعشی نجفی صاحب نے اپنی کتاب "المسلسلات فی الاجازات، جلد2 صفحہ 60 سے صفحہ 62 تک" تقریباً 63 کتابوں کے نام شمار کئے ہیں۔ 

اللہ نے موصوف کو چار فرزند عطا کئے جن  میں سے تین بیٹوں کو اپنے وقت کے بڑے علماء میں شمار کیا گیا، ان  کے اسمائے گرامی اس طرح ہیں: آیۃ اللہ سید محمد صاحب ، آیۃ اللہ سید علی صاحب (صاحب تفسیر رموز التنزیل و الفرقہ الناجیہ)، حجۃ الاسلام و المسلمین سید محسن صاحب (پرنسپل مدرسۃ الواعظین) اور چوتھے فرزند ڈاکٹر نوراللہ صاحب تھے۔ 
 
علامہ اپنی صلاحیت کی وجہ سے عراق میں موجود ہندوستان و پاکستان سے آئے ہوئے طلاب کے درمیان ممتاز شخصیت کے حامل رہے۔ 
راحت حسین صاحب منطق،  کلام ، فلسفہ،  ادب،  ہیئت،  تفسیر ، حدیث ، طب ، درایت،  رجال ، فقہ  اور  اصول میں پوری طرح مہارت رکھتے تھے۔ 

علامہ راحت حسین صاحب عمر کے آخری حصہ میں اپنے وطن "گوپالپور" واپس آ گئے  اور سنہ 1376 ہجری میں اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئےنیز گوپالپور میں موجود اپنے آبائی قبرستان میں سپرد لحد کئے گئے۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ (تذکرہ علمائے شیعیان ہند)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص75،  دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی- 2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .