۳۰ شهریور ۱۴۰۳ |۱۶ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 20, 2024
علامہ غلام حسین حیدرآبادی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | صدرالعلماء علامہ سید غلام حسنین نے سن1276ہجری بمطابق سن 1860عیسوی میں سرزمین حیدرآباد پر اپنی خوشبوپھیلائی، موصوف کے والد "میراشرف حسین" خاندان کے معزز اور باوقار افراد میں شمار ہوتے تھے۔

علامہ نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی پھر حیدرآباد میں مقیم علمائے کرام سے کسب فیض کیا۔ آپ نے مولانا محمد علی خراسانی، مولانا سیدعلی شوشتری، مولانا صادق علی، مولانا میر کاظم علی اور مولانا غلام نبی جیسے جیّد اساتذہ کی خدمت میں رہ کر منطق، فلسفہ، فقہ، اصول اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔

حیدرآباد سے فراغت کے بعد نجف اشرف کا رخ کیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواکر آیت اللہ شیخ محمد حسین مازندرانی، آیت اللہ شیخ زین العابدین مازندرانی، آیت اللہ سید ابوالقاسم طباطبائی اور آیت اللہ شیخ محمد حسین کاظمینی سے اجازے حاصل کرکے ہندوستان کی سرزمین پر نزول اجلال فرمایا۔

نجف سے ہندوستان آنے کے بعد موصوف نے اپنے اجتہاد کا اعلان کیاجس کے نتیجہ میں بعض امراء و رؤسا نے رجوع کیا اور آپ کی تقدیر کا ستارہ جگمگا اٹھا۔

علامہ معقولات و منقولات میں اپنی مثال آپ تھے۔ موصوف کے شاگردوں میں مولانا غلام علی حاجی ناجی گجراتی کا نامِ نامی اسمِ گرامی ستاروں کے درمیان چاند کی مانند چمکتا ہے۔

موصوف نے کچھ عرصہ حیدرآباد میں سرکاری ملازمت بھی کی اس وقت آپ کی تنخواہ سو روپیہ تھی۔ سرکاری ملازمت کے علاوہ موصوف نے مہوّا (کاٹھیاوار - گجرات) میں خوجہ جماعت سے منسلک ہوکر خدمات بھی انجام دیں۔

صدرالعلماء اپنے زمانہ کے مایہ ناز خطیب تھے، عربی اور فارسی میں اس درجہ ماہر تھے کہ دونوں زبانوں میں بلاتکلّف گفتگو کرلیا کرتے تھے۔ موصوف جوناگڑھ میں بھی استاد کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

اپنے زمانہ کے علماء میں باصلاحیت شخصیت کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔ اکثر دقیق مسائل پر بحث و گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ فلسفہ میں اتنے زیادہ ماہر تھے کہ عقائد میں نکتہ آفرینیاں کرتے تھے۔ علمائے لکھنؤ سے بہت عمیق روابط تھے، یہی سبب ہے کہ موصوف کی کتاب "شمس الہدایہ" پر تاج العلماء آیت اللہ علی محمد، مولاناعبداللہ اور مولانا محمد حسین وغیرہ جیسے جیّد علمائے کرام کی تقریظات موجود ہیں۔

صدرالعلماءغلام حسین علم و عمل میں وحید، مناظرہ میں فردِ فرید اور عقائد میں نہایت شدید تھے یہی سبب ہے کہ آپ نے میدان مناظرہ میں کبھی شکست کا منھ نہیں دیکھا، اپنے ہوں یا بیگانے، جس کے سامنے بیٹھ گئے اس کو قائل کرنے کے بعد ہی اپنی جگہ سے حرکت کی۔

علامہ نے افریقہ کے شہر "زنجبار" میں خوجہ جماعت کے ہمراہ دینی خدمات انجا م دیں، زنجبار میں قیام کے دوران ہی کتاب شمس الہدایہ تحریر فرمائی۔

مذکورہ کتاب کے علاوہ بھی موصوف کی کافی تالیفات ہیں جن میں سے: اثبات النبوۃ، تفسیر آیہ قربیٰ، تفسیر آیہ مباہلہ، تفسیر آیہ تطہیر، تفسیر وَ مَنْ عِنْدَہُ عِلْمُ اْلکِتَابْ، کتاب التوحید، ردّ الشّیخیۃ، ردّ التناسخ، الامامۃ والولایۃ، الآیات الالٰہیہ، مراتب الروح و النفس، شرح اصول فقہ اور شرح قصیدہ خلیلیہ وغیرہ جیسی عظیم کتابیں آپ کی عربی و فارسی صلاحیتوں کا منھ بولتا شاہکار ہیں۔

آخرکار یہ علم وعمل کا درخشاں آفتاب بتاریخ 8 ربیع الاوّل سن 1352ہجری بمطابق2جولائی سن 1923عیسوی میں سرزمینِ حیدرآباد پر غروب ہوگیا، آسمانِ علم و فقاہت پر تاریکیاں حاکم ہونے لگیں، بلبلِ ہزار داستاں چہچہاتے ہوئے یک بیک ایسا خاموش ہوا کہ عزیزوں کی نالہ و فریاد پر بھی زبان نہیں کھولتا۔

رضائے الٰہی کے سامنے سرجھکائے ہوئے چاہنے والوں کی آہ و فغاں کے ہمراہ جنازہ اٹھایا گیا؛ علماء، افاضل، طلاب و مومنین کی موجودگی میں نماز جنازہ ادا کی گئی اور دائرۂ میرمومن میں سپردِ لحد کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص129، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .