حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ میر محمد مومن سنہ960 ھ میں سر زمین " استرآباد - ایران " پر پیدا ہوۓ،آپ کے والد کا نام" سید علی شرف الدین حسینی سماکی" تھا ،میر مومن ان افراد میں سے ہیں جن کے نام تاریخ کی پیشانی پر سنہرے حروف سے لکھے ہوۓ ہیں،آپ کی تعلیم و تربیت اعلی ٰ معیار پر ہوئی ان کا خاندان اخلاق ،سیرت ،کردار، علم اورفن میں مشہور تھا،آپ کے ماموں ایک متقی اور پرہیزگار انسان تھے ،لہذا آپ نے ان کی خدمت میں رہ کر اخلاق اور تزکیہ نفس حاصل کیا، اور دوسرے اساتذہ مثلاً نور الدین موسوی شبستری ، ، نورالدین سید علی شوشتری، شمس الدین، اور سید محمد سے فلکیات ،نجوم ،ھیئت، تفسیر ،فقہ،کلام اور حدیث کا علم حاصل کیا۔
میر مومن کے زمانے میں شاہ طھماسب نامی بادشاہ تھا جسکی وفات کے بعد اسکا بڑا بیٹا "سلطان حیدر میرزا" اپنے والد کا جانشین بنا محل کے وہ افراد اور نگہبان جو سلطان حیدر میرزا کے بھائی شاہ اسماعیل کے طرفدار تھے انکو سلطان حیدر میرزا کی جانشینی نا گوار گزری لہذا ابھی صرف ایک ہی دن گذرا تھا کہ ان لوگوں نے سلطان حیدر میرزا کو قتل کر دیا اور اسکی جگہ پر شاہ طہماسب کے دوسرے بیٹے شاہ اسماعیل کو تخت پر بٹھا دیا لہذا شاہ اسماعیل کی تخت نشینی اور ملک کے سیاسی حالات کی بنا پر ، علامہ میر محمد مومن سنہ 986 ھ میں قزوین کے راستے عراق و عرب حج و زیارت کے لۓ چل دۓ اور زیارت سے فراغت کے بعد ہندوستان کا رخ کیا۔
سنہ 989 ھ کے اوائل محرم میں دکن آۓ اس وقت محمد قلی قطب شاہ نظام شاہی کی مدد اور عادل شاہی سے جنگ کر رہا تھا،آپ شہر میں آۓ تو عقیدت¬مند حضرات نے آپ کا خیر مقدم کیا اور علامہ نے دروس کا سلسلہ شروع کر دیا ، جب ان کی خوش اخلاقی، ذہانت، حاضر جوابی اور حکمت ودانش کا چرچہ ہوا تو ان سے بادشاہ نےبھی ملاقات کی اور انکی شخصیت سے متاثر ہوا لیکن اپنے زہد وتقدس کی بنا پر حکومت کے معاملات سے دور رہے ،چار پانچ سال میں عوام و حکومت بہت زیادہ معتقد ہوگئی،بادشاہ کی جانب سے بڑھتی ہوئی عقیدتمندی کا نتیجہ یہ ہو ا کہ محمد قلی قطب شاہ ان سے مشورہ لینے لگا اور سنہ993 ھ سے پہلے وہ ملک کی ایک اہم ترین شخصیت بن گۓ لیکن و ہ وزیر نہیں بناۓ گۓ بلکہ محمد قلی نے انکے لۓ ایک مستقل وبااختیار منصب نکالا اور انہیں پیشواۓ سلطنت ،پیشواۓ اعظم یا وکیل السلطنت کا لقب دیا غرض منصب شاہی کے بعد سب سے بڑا منصب "پیشواۓ اعظم "قرار پایا گویا پیشوا کو حاکم شرع مانا گیا ۔
پیشواۓ اعظم نے حکومت میں داخل ہوتے ہی اسلامی عقائد و احکام کی ترویج شروع کی، تہذیب و تمدن میں اسلامی ایام کو اہمیت دی ،عید میلاد النبی ،عید غدیر اور ایام عزا کا اہتمام کیا ،امام باڑوں کی تعمیرکرائی اور سنہ 1001 ھ میں پہلی مرتبہ علم مبارک نصب کیا جو اب تک جلوس کے ساتھ اٹھتا ہے، آپ نے حیدرآباد میں اسلامی تعلیمات کو رائج کیا تو ہندو بھی اسمیں دلچسپی لینے لگے گویا اس طرح میر محمد مؤمن نے سنی شیعہ او ر ہندو مسلمان کے درمیان اتحاد پیداکیا۔
آپ نے عوام کی فلاح و بہبود کیلۓ "حیدرآباد" میں بہت راہ ہموار کی کئی گاوں خریدے، مسجدیں اور تالاب بنواۓ ،آپ کی تجویز پر" چار مینار" نامی ایک دروازہ بنایا گیا جسکی بالائی منزل پر مسجد، مدرسہ ، خانقاہ اور بہت بڑا حوض تھا یہ دروازہ تعزیہ یا "امام رضا (ع)" کے روضہ کے قدیم دروازہ کی نقل تھا ، یعنی موصوف نے سب سے پہلے بلند اور مرکزی مقام پر مسجد کی تاسیس کرکے تعمیرات کا آغاز کیا ،اس دور اندیشی کا فائدہ یہ ہوا کہ زوال حکومت کے بعد تمام عمارتوں پر زوال آیا مگر چار مینار اب تک قائم ہے اور قطب شاہی حکومت کی اسلام دوستی کا اعلان کر رہا ہے اس کے علاوہ آپ نے ایک بڑا رقبہ خرید کر قبرستان کے لۓ وقف کر دیا جسمیں آپ نے خاک کربلا مخلوط کی تھی جو" دائرہ میر مومن" کے نام سے اب تک باقی ہے اور یہ انکی باقی رہنے والی ایک اہم یادگار ہے۔
میر محمد مومن ایک ایسی جامع شخصیت کے حامل تھے کہ انکی دینی حیثیت اور سیاسی سوجھ بوجھ پر اب تک کوئی انگشت نمائی نہیں کی جاسکی ،شروع سے آخر تک تواضع ،شفقت اور پرہیزگاری کا نمونہ رہے ،نہ علم پر مغرور تھے نہ منصب شاہی پر متکبر،رعایا کی فلاح و بہبود ،اہل حاجت کی دستگیری ،مسافروں کی پذیرائی ،ایران توران کے علماء و فضلاء اور اہل جوہر پر بارش کرم ،ملازمت کا انتظام ، انکی ترقی کی خواہش اور عزت افزائی کا خیال رکھنا ،حرمین و عتبات عالیات ،حجاز و عراق و ایران کے روضوں اور وہاں کےا کابر علماء کی لۓ سالانہ امداد اور وظائف کا اہتمام کرتے رہے ،علم وفضل دولت اور ریاست -+ کے ساتھ ساتھ¬اہم ترین بات یہ تھی کہ آپ صاحب کشف وکرامات بھی تھے۔
آپ کو پیشواۓ اعظم عالم با عمل، صاحب ریاضیت و روحانیت تھے علم رمل میں مہارت تھی :عظیم الشان جلوہ خانہ کا حیرت انگیز دروازہ جسے" کمان سحر باطل "کہا جاتاہے وہ بھی پیشوا کی رہنمائی کا نتیجہ تھا ،اس دروازہ کے سامنے پتھر کا ایک ستون تھا جس پر ایسی دعائیں اور نقش تھے جن کے اثر سے ہر شخص کے غلط منصوبے اور اذیت رسانی کے ارادے باطل ہو جاتے تھے اور بادشاہ ہر آسیب سے محفوظ رہتاتھا ،یہ ستون اس قدر مفید ہوا کہ لوگ اس سے مس ہوکر صحت یاب ہونے لگے ،ایک مدت بعد شہر کے طبیبوں نے رات کے وقت اس پتھر کو اکھاڑ کر کنویں میں ڈال دیا ۔ (مطلع الانوار ص 606 و 609)
علامہ میر مومن کے اکلوتے فرزند" میرمجد الدین" نے 39 سال کی عمر میں رحلت کی ، علامہ نے انکی تعلیم و تربیت عالمانہ طور پر کی تھی ،اس وقت وہ بوڑھے بھی تھے اور حکومت کے منصب کی وجہ سے مصروفیت بھی بہت زیادہ تھی ،لیکن اپنی اولاد کو مثالی بنانے میں کسی قسم کی کوتاہی کو جرم سمجھتے تھے۔
اتنی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ان کی تصنیفات میں سے : دیباچہ کثیر المیامین ،کتاب المناقب، فارسی کلام ، اختیارات کتب شاہی ،کتاب رجعت ، رسالہ مقداریہ ( جس میں فقھی ،طبی اور مسافتوں کی اصطلاحوں کی تفصیل وغیرہ تحریر ہے اس کتاب سے علامہ کی وسعت نظر اور فقہی بصیرت ثابت ہوتی ہے ،کتاب کے اصل نسخے پر سلطان قطب شاہ کی مہر ہے اور یہ نسخہ نواب سالار جنگ کے کے کتاب خانہ میں موجود ہے ) موصوف کو درس وتدریس سے بھی بیحد لگاؤ تھا ،اسی لۓ تدریس آپ کی اہم مصروفیت رہی، اس عہد کے اکثر علماءو افاضل ان سے پڑھتے یا علمی مسائل میں ان سے رجوع کرتے تھے ، علامہ زیادہ تر عبادت اور وظائف میں مصروف رہتے تھے۔
آخر کار یہ علم و ہنر کا چمکتا ہو ا آفتاب اپنے جواں فرزند مجد الدین کےانتقال کے داغ کی تاب نہ لا تے ہوۓ بیٹے کے چہلم کے موقع پر 2 جمادی الاولیٰ سنہ 1034ھ بروز دو شنبہ سرزمین حیدر آباد پر غروب ہو گیا ,نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ آپ ہی کے وقف شدہ قبرستان" دائرہ میر مومن حیدرآباد "میں اپنے فرزند کے مقبرے میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص11، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔
ویڈیو دیکھیں: