۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا سید حیدر مہدی زید پوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نور مائکرو فلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید حیدر مہدی رضوی سنہ 1317 ھ میں قصبہ زیدپور ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوۓ ،آپ کے والد ماجد مولانا سید برکات احمد نجم ، پائے کے شاعر اہلبیت ؑ تھے جن کو قصائد اور نوحے لکھنے میں مہارت حاصل تھی۔

آپ نےابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اسکے بعد زید پور کی نامی گرامی ہستی مولانا حکیم سید امداد حسن سے عربی، صرف ، نحو ، معانی ، بیان ،لغت و بلاغت کے حصول کے ساتھ علم فقہ میں لمعہ کی تعلیم مکمل کی،چونکہ آپ کا رجحان علم معقولات کی طرف زیادہ تھا لہٰذا اس عہد کے ماہرمعقولات مولانا سید محمد رضا شمس آبادی فلسفی و خطیب کے سامنے زانو ۓ ادب تہ کئے پھر اپنی مسلسل کوشش اور مطالعے سے معقولات میں منطق و فلسفہ الٰہیات پر عبور حاصل کیا، نیز علم کلام و مناظرہ پر دسترس حاصل کرکے اپنے استاذ عظیم کی فرمائش سےمنبرحسینی پر جلوہ افروز ہوۓ اور چند ہی برس میں میدان خطابت میں مولانا سید محمد دہلوی ، مولانا حافط کفایت حسین شکارپوری ، نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن نونہروی کے ہم پلہ قرار پاۓ ، مولانا سید حیدر مہدی کی خطابت اور ذاکری کا رنگ انتہائی عالمانہ اور فلسفیانہ ہوتا تھا ۔

تقسیم ملک کے وقت جب علماء و خطباء نے ہجرت کی اس وقت مومنین شکارپور نے حافظ کفایت حسین سے سوال کیا آپ کے بعد ہمیں ہندوستان میں آپ جیسا خطیب کہاں نصیب ہوگا تو مولانا حافظ کفایت حسین نے ان سے فرمایا کہ کیا مولانا سید حیدر مہدی زیدپوری مجھ سے کم ہیں؟ جو رنگ خطابت میں میرا ہے وہی رنگ مشیت خداوندی سے انکو نصیب ہوا ہے -

آپ ہندوستان کے مختلف شہروں اور قریوں میں ایام عزا میں مجالس خطاب فرماتے رہتے تھے جن میں : قصبہ سراۓ میر (اعظم گڑہ) آدم پور (بہرائچ)شکارپور (بلند شہر) امامبارگاہ سید سرفراز علی خان رئیس جانسٹھ ضلع مظفر نگر، قصبہ جلالی (علیگڑھ) میں کثرت سے جایا کرتے تھے۔ قصبہ جلالی میں اپنے پدر عالی قدر مولانا سید برکات احمد نجم کے بعد مسلسل پینتیس سال تک امامبارگاہ بیت العزا تعمیر کردہ الحاج علی مھدی مرحوم میں خطاب کیا ۔

نادرۃ الزمن آپ کےبڑے قدر دان تھے سچ ہے کہ "قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری"ان سے ایسے روابط قائم ہوئےکہ جب بھی مولانا حیدر مہدی لکھنؤ تشریف لے جاتے ، نادرۃ الزمن کے بیت الشرف میں قیام فرماتے تھے ،آپ کی جب کبھی نادرۃ الزمن کے شاگرد مولانا سیدحسینؒ آل سید ہادی اور مولانا سیدعلی آل سیدباقرؒسے ملاقات ہوتی تو بیشتر علمی مباحث درمیان میں رہتے تھے۔

آپکو تقریر سے کہیں زیادہ دلچسپی تحریر سے تھی، دن میں مسلسل کئی گھنٹے کتابوں کے گھیرے میں بیٹھے ہوۓ لکھا کرتے تھے۔ آپ کے آثار میں: معراج النبی ، بعثت الرسول، ہجرت المرسل ، غدیر خم، غزوات نبی، خندق ، خیبر ، جمل ، نہروان و صفین کی تفصیلات و تشریحات تاریخی واقعات کے تسلسل سے زیب قرطاس ہیں۔

اصول دین کے موضوعات خصوصاً توحید، معاد اور صفات باری تعالیٰ پر کلامی پیراۓ کے سینکڑوں غیر مطبوعہ مضامین آپ کے آثارمیں موجود ہیں ، مسودات کا کثیر ذخیرہ دو عدد لوہے کی پیٹیوں میں اپنی بےکسی کا مرثیہ خوان ہے ۔

آخرکار یہ علم و عمل کا ماہتاب "یکم ذیقعدہ 1393 ھ ۔ق مطابق 27 نومبر 1973ء کو غروب ہوگیا ۔ اور اگلے روز آپکی نمازہ جنازہ نادرۃ الزمن مولانا ابن حسن نونہروی نے پڑھائی اور تلقین مولانا شبیہ الحسن نونہروی نے پڑھی اور حسب وصیت امامبارگاہ آغا معصوم وحکیم سید ریاض احمد کی شہ نشین میں سپرد خاک کردیا گیا۔

چالسویں کی مجلس میں نادرۃ الزمن مولانا سید ابن حسن نونہروی نے تاریخ ساز اور یادگاری بیان سے مولانا سید حیدر مہدی رضوی کی روح پر فتوح کو خراج عقیدت پیش کیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص27، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2022ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .