۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

حوزہ/ مورخہ ۹دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج آڈیٹوریم(JNMC) میں ایک بین الاقوامی سمینار بعنوان "راہ  و طرز زندگی، ادیان عالم  کی نظر میں " علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر (AIC) اور ہیومینٹیز ایڈوانس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ (HASI) کے باہمی تعاون سے منعقد ہوا۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مورخہ ۹دسمبر ۲۰۲۳کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج آڈیٹوریم(JNMC) میں ایک بین الاقوامی سمینار بعنوان "راہ و طرز زندگی، ادیان عالم کی نظر میں " علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر (AIC) اور ہیومینٹیز ایڈوانس اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ (HASI) کے باہمی تعاون سے منعقد ہوا، جس میں سرزمین ہندوستان اور ایران کی مذہبی، علمی اور ادبی مایۂ ناز شخصیات سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے اسکالرز، اساتذہ اور اسٹوڈنٹس، ثقافتی دانشوروں اور سماجی عہدہ داروں نے بھی شرکت کی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ”راہ و طرزِ زندگی،ادیان عالم کی نظر میں“ کے موضوع پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

سمینار کے مقررین نے "راہ و طرز زندگی " کے عنوان پر اپنے زریں خیالات کا اظہار کیا اور تاکید کی اس دور میں طرز زندگی سے واقفیت گزشتہ ادوار سے زیادہ اہم ہے، اس لئے کہ انسان کی سعادت اور شقاوت، عزت اور ذلت، صحت و بیماری، کامیابی اور ناکامی کا دارو مدار طرز زندگی پر منحصر ہے اور اس بین الاقوامی سمینار میں طرزِ زندگی پر لکھی گئی کئی اردو اور انگریزی کتابوں کا رسم اجراء اور اس میں پیش کئے گئے مقالات کا اردو اور انگریزی مجموعہ بھی شایع کیا گیا۔

سمینار میں یونیورسٹی کے اسکالرز، اساتذہ کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء نے بھی شرکت کی۔

مختلف ادیان و مذاہب کے رہنماؤں نے راہ و طرزِ زندگی کے بارے میں ادیان کے نقطہ ہائے نظر کے موضوع پر علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر(AIC) اور ہیومنیٹیز ایڈوانسڈ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی (HASI) کے زیر اہتمام منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں انفرادی، خانگی اور سماجی زندگی میں قدروں کے تحفظ، اخوت و ہم آہنگی، یکجہتی ، باہمی میل جول، اتحاد و اتقاق، الگ الگ مذاہب کے پیروکاروں میں افہام و تفہیم ، مکالمے اور ڈائیلاگ کی ضرورت پر زور دیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ”راہ و طرزِ زندگی،ادیان عالم کی نظر میں“ کے موضوع پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے جے این ایم سی آڈیٹوریم میں سیمینار کے افتتاحی اجلاس سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے ایرانی مفکر اور ایرانی پارلیمنٹ کے سابق چیئرمین ڈاکٹر حداد عادل نے کہا کہ مغربی افکار اور طرز زندگی نے مشرقی دنیا میں کنبہ کے تصور کو منفی طور سے متاثر کیا ہے جس سے انفرادی اور سماجی سطح پر قدروں کا زوال ہوا ہے۔ اسلامی اور قدیم ہندوستانی افکار میں مماثلت کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خدا کا تصور انسانی زندگی میں ہر سطح پر رہنمائی کرتا ہے، اس سے انسان جواب دہ بنتا ہے اور وہ سماج کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل اور کائنات کے دیگر اشیاءکے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ڈاکٹرحداد عادل نے لائف اسٹائل کو لٹریری اسٹائل سے تشبیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ طرز زندگی کا اندازہ انسان کے کردار، گفتار، تعامل اور کائنات کے مظاہر کے ساتھ اس کے برتاو ¿ سے ہوتا ہے اور جس طرح سے انسان کی لائف اسٹائل ہوتی ہے ویسے ہی معاشرے کی بھی لائف اسٹائل ہوتی ہے، جس کی تشکیل و ترتیب میں مذہب کا اہم کردار ہے۔

انہوں نے شہزادہ دارا شکوہ کی تصنیف مجمع البحرین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مغلیہ دور میں انسان و کائنات کے سلسلہ میں قدیم ہندوستانی افکار و نظریات کو سمجھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی یہ ایک عدیم المثال کوشش تھی۔

مہمان اعزازی، بوہرہ مذہبی رہنما قصے بھائی صاحب جمال الدین نے اپنے خطاب میں کہاکہ محبت سے انسانوں میں تعاون کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، محبت و خیرخواہی کا دائرہ صرف دینی بھائیوں کے لئے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لئے ہونا چاہئے۔ انھوں نے انسانوں کے ساتھ ساتھ ماحولیات و قدرتی وسائل کے تئیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔

مہمان اعزازی ہندوستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی مہدوی پور نے کہا کہ اسلام زندگی کے سبھی پہلوؤں میں معاشرے کی رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اعلیٰ اخلاقی کردار کا مظاہرہ کرنے پر خاص زور دیتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ امام زین العابدین نے والدین، ہمسایہ اور حیوانات سمیت 110 ایسے حقوق کی تاکید کی ہے، جو ہمیں ادا کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کو مرکزیت حاصل ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سیمینار مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اتحاد و یکجہتی اور افہام و تفہیم کو فروغ دے گا۔

افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے اے ایم یو کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ مختلف مذاہب کے رہنماؤں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا فال نیک ہے، کیونکہ انٹرفیتھ ڈائیلاگ آج کے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

پروفیسر منصور نے سیمینار کے انعقاد کے لئے پروفیسر علی محمد نقوی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ بات چیت اور ڈائیلاگ سے ہی تنازعات و خلفشار کا حل نکل سکتا ہے اور ان پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس سے قبل علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹرکے بانی ڈائرکٹرپروفیسر علی محمد نقوی نے خطبہء استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طرز زندگی کے سلسلہ میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کے خیالات حاضرین کے لئے مشعل راہ ہوں گے اور یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ انسانی معاشرہ میں مذہب کس طرح ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔

عیسائی رہنما فادر ڈاکٹر ایم ڈی تھامس نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خدا میں یقین کا نام روحانیت ہے اور انسان کو اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں سے بھی گہرا تعلق رکھنا چاہئے ۔اس سے سماج میں امن و بھائی چارہ کو فروغ ملے گا۔

جین مذہبی رہنما شری وویک مُنی نے اپنے خطاب میں کہا کہ جیو اور دینے دو زندگی کا فلسفہ ہونا چاہئے، بات چیت اور سنواد کے ذریعہ ہی اختلافات کا حل نکل سکتا ہے۔

انہوں نے مہاویر جین کی تعلیمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ رحم کا جذبہ اور پریم انسانوں کو جوڑتا ہے، آج پوری دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے جس سے ہمارے اپنے مذہب کی بدنامی ہو۔

اسکان کے نائب صدر ڈاکٹر برجیندر نندن داس نے اپنے خطاب میں کہا کہ آتما کو صحت مند غذا دینا چاہئے، انسان اپنے جسم کو صحت مند رکھنا چاہتا ہے جو کافی نہیں ، گیتا کی تعلیمات آتما کو تندرست رکھنے پر زور دیتی ہیں ۔ آج کے دور میں زیادہ تر لوگ آتما اور شریر کے فرق کو نہیں جانتے ، جس کی وجہ سے جہالت اور نادانی کا بول بالا ہے۔ انہوں نے سنسکرتی اور سنسکاروں کے تحفظ پر زور دیا۔

سیمینار کی دوسری نشست کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر محمد گلریز نے کی اور اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سیموئل پی ہٹنگٹن کے تہذیبوں کے تصادم کے نظریہ نے دنیا کو گمراہ کیا۔ تہذیبوں کے درمیان ڈائیلاگ اور مذاکرہ کا تصور انسانیت کی ضرورت تھی اور آج بھی اس کی ضرورت و افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے موجودہ وقت میں روس، یوکرائن جنگ اور فلسطین و اسرائیل کے ٹکراؤ اور ظلم و بربریت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ڈائیلاگ اور افہام و تفہیم کی کوششوں کو عوام تک پہنچانا چاہیئے، تاکہ لوگ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ٹکراو ¿ اور جنگ سے پرہیز کیا جائے۔اُنہوں نے اس سلسلہ میں مذہبی رہنماؤں کی گفت و شنید اور افہام و تفہیم کو اہم قرار دیا۔

قومی کمیشن برائے درج فہرست اقوام کے سابق چیئرمین لاما چوسفیل زوٹپا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سبھی دھرموں کے لوگوں میں شانتی اور بھائی چارہ ہونا چاہئے۔انہوں نے بدھ مت کی بنیادی تعلیمات کا ذکر کیا اور ایک دوسرے کی مدد پر زور دیا۔

کویت سے آئے حاجی مصطفی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مشرقی اقدار معاشرے کے لئے قیمتی ہیں اور مغربی اثرات اور نام نہاد ترقی کے نام پر اپنے معاشرے کو بگڑنے سے بچانا ہوگا۔

مزید تصاویر دیکھیں: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ”راہ و طرزِ زندگی،ادیان عالم کی نظر میں“ کے موضوع پر بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

سیمینار کے بعد کی نشست میں الزہراء یونیورسٹی، ایران کی ڈاکٹر طیبہ مہروزادہ سمیت دیگر کئی اسکالرز نے خطاب کیا۔

سمینار کے بعد مختلف یونیورسٹیز کے اساتذہ اور اسکالرز نے اپنے تحقیقی مقالات پیش کئے جس کا سلسلہ اگلے دن بھی جاری رہا تقریباً ۳۰ سے زاید اسکالرز نے " راہ وطرز زندگی" کے عنوان پر بہترین علمی اور ادبی تحقیق پیش کی اور اس موضوع کی اہمیت اور ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے، علی گڑھ انٹرفیتھ سنٹر(AIC) اور ہیومنیٹیز ایڈوانسڈ اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی (HASI) عنقریب ان سارے مقالات کا مجموعہ منظر عام پر لاے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .