۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
ڈاکٹر حیدر حسینی 

حوزہ/ نوجوان نسل ملک و قوم کے لیے مستقبل ہی نہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی قوم و قبیلہ کا سرمایہ و اثاثہ نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں۔ جب کسی قوم نے ترقی کے زینے عبور کیے ہیں تو مرکزی کردار نوجوان ہی رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علی گڑھ/ بیت الصلوات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ نظامت شیعہ دنیات کی جانب سے عشرۂ مجالس کا انعقاد کیا گیا۔ مجلس کو خطاب پروفیسر ڈاکٹر حیدر حسینی، شعبۂ میڈیسن، جواہر لعل نہرو میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، اے ایم یو، علی گڑھ نے کیا۔ ڈاکٹر حسینی نے سرنامۂ گفتگو سورۃ العلق کی پہلی آیت اقراء بٍسمٍ رَبٍکَ الَزٍی خَلَقَ کو قرار دیا جس کا ترجمہ ہے "اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا۔" ڈاکٹر حسینی کا خطاب اکثر و بیشتر نوجوانوں سے ہوتا ہے چونکہ یہ قوم و ملت کے مستقبل ہیں۔

نوجوان نسل ملک و قوم کے لیے مستقبل ہی نہیں بلکہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی قوم و قبیلہ کا سرمایہ و اثاثہ نوجوان ہی ہوا کرتے ہیں۔ جب کسی قوم نے ترقی کے زینے عبور کیے ہیں تو مرکزی کردار نوجوان ہی رہا ہے۔ تاریخ کے اوراق اس بات کو بھی بیان کرتے نظر آتے ہیں، بیشمار اس کی مثالیں تاریخ کے اوراق پر قرطاس کی جا چکی ہیں۔ موجودہ دور و حالات میں قوم کے جوان کامیاب ہوں۔ اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اگر مجھکو منبر رسول ﷺ سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے تو پیغام عمل دیا جائے اور اس کا حق ادا کیا جا سکے۔چونکہ میں شعبۂ میڈیسن میں استاد ہوں لہٰزا میرا فرض بنتا ہے کہ نوجوانوں تک پیغام پہنچایا جائے۔

آپ ذہن نشین کریں کہ پیغام دو طرح کے ہوتے ہیں۔ روحانی اور عملی پیغام۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ میں نے جب انسان کو خلق کیا تو دونوں ہاتھوں سے خلق کیا۔ آپ کے ذہن میں خیال آیا ہوگا کہ اللہ پاک کو کوئی عضو تو ہے ہی نہیں تو پھر یہ دو ہاتھوں کا کیا مطلب؟ در حقیقت دو ہاتھوں سے مراد ہے مادیت اور روح۔ ان دو شئے سے انسان کی خلقت ہوئی۔ خالق کو جب انسان کو کوئی پیغام پہنچانا ہوتا ہے تب یہ دو شکل میں پہنچاتا ہے۔ یہ دو شکل روحانی اور عملی شکل ہوتی ہیں۔

اس نظریے کو مربوط کرنے کے لیے ڈاکٹر حسینی نے سورۃ الشمس کی آیت مبارکہ نمبر سات اور آٹھ کی تشریح کرتے ہوئے نوجوانوں کے ذہن عالیہ کو متوجہ کیا اور کہا کہ و نفس و ماسوا ھا۔ فَاَلھَمَھَا فُجُورَھَاوَتَقوٰھَا۔ پروردگار نے قرآن کریم میں جگہ جگہ قسم کھایا۔ انسان کو پیغام دے رہا ہے تو اس مقام پر ہر نفس کی قسم کھا رہا ہے۔ ہر شخص اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ قسم ہمیشہ قیمتی شئے کی کھائی جاتی ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے جابجا قسم کھائی ہے وہاں پر عظمت و اہمیت اور تاکید پر تنبیہ کرنا، نیز لطیف ربط کی طرف بھی اشارہ مقصود ہوتا ہے۔ روح قیمتی شئے ہے۔ آدم علیہ السلام میں روح پھونک دی گئی، اُن میں زندگی پیدا ہوئ، پہلے مٹی کا ڈھیر تھا۔ اللہ نے اُن میں اپنی روح پھونک دی وہ لائق سجدہ بن گئے۔ خدا وند متعال نے روح کی قسم اور روح کے بنانے والے کی قسم کھائی۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ میں نے تمہیں دونوں راستہ دکھا دیا۔ اس طرح سے تمھارے دماغ میں میکنزم ڈال دیا وہ یے 'شعور' یعنی نفسٍ لوامہ جو نیک راہ پر لے جائے گا۔ نفسٍ امارہ جو بڑائی کی طرف آمادہ کرتا ہے۔ اس طرح نیکی اور بدی کی راہ دکھا دی۔ یہ عام انسان کے لیے نمونہ عمل ہے چاہے وہ نیک عمل کرے یا بڑائی کی۔ ڈاکٹر حسینی کے خطاب سے نوجوانوں میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ اور جذبہ دکھائی دیا۔

مجلس میں کثیر تعداد میں شرکاء تھے جن میں پروفیسر سید لطیف حسین شاہ کاظمی، پروفیسر محسن، پروفیسر سید علی کاظم، اسلم مہدی، ضیاء امام، پروفیسر اختر حسن، ڈاکٹر سید حسن رضوی، ڈاکٹر اصغر عباس اور ڈاکٹر شجاعت حسین قابل ذکر ہیں۔


تبصرہ ارسال

You are replying to: .