لکھے تو کیا دلِ رنجیدہ و ستم دیدہ
بھرے ہیں آنکھ میں آنسو، ہیں ہاتھ لرزیدہ
جگر کباب ہے، سینہ فگار ہے اپنا
قلم بھی رَن میں پڑا خون میں ہے غلطیدہ
لکھا ہوا ہے ازل سے یہ لوحِ مقتل پر
کہ روشنی کے قبیلے شہید ہو جائیں
ترے فراق میں امیدِ شیعیانِ علیؑ!
عجب نہیں کہ یہ آنکھیں سپِید ہو جائیں
ترے وجود میں تھا موجزن حُسینؑ کا خون
سو تجھ کو بیعتِ ظالم کہاں گوارا ہوئی
سو رزمگاہ میں تیرے لہو کے چھینٹوں سے
یزیدیت کی قبا پھر سے پارہ پارہ ہوئی
یزیدیت کے خلاف اور یہودیت کے خلاف
بھروسہ کرتا تھا ایراں کا بت شکن تجھ پر
ترا جہادِ مسلسل گواہی دیتا رہا
جچے گا صرف شہادت کا پیرہن تجھ پر
تمام عالمِ اسلام ہے کنیزِ یہود
اور اس میں صرف ہیں دوچار ہی جری تجھ سے
مثالِ مالکِ اشتر علم بدست رہا
سو خوش رہے گا ہر اک عہد کا علی تجھ سے
تمام عالمِ اسلام ہے کنیزِ یہود
سنا کسی نے نہیں استغاثۂ اقصیٰ
منافقوں نے کیے اس کے بام و در مسمار
منافقوں نے ہی تجھ سا نڈر شہید کیا
سیاہیِ شبِ ظلمت میں آفتاب کئی
غبارِ جادہ ٔ گَردُوں کے نذر ہوتے ہیں
منافقوں میں ہو محصور جب بھی لشکرِ حق
تو سُورما کسی شب خوں کی نذر ہوتے ہیں
ہمیں یقیں ہے کہ ٹوٹے گا یہ حصار اک دن
طلوع ہو گی فلسطیں میں صبحِ آزادی
جب اُس کے صحن میں گونجے گی حرّیت کی اذاں
تجھے بھی مسجدِ اقصیٰ ضرور روئے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر اہل بیت جناب عباس ثاقبؔ