۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
حدیث ثقلین

حوزہ/ "عترتی" سے مراد وہ پانچ عظیم ہستیاں ہیں جنکی شان میں چادر تطہیر نازل ہوئی ہے۔

مترجم : غلام محمد شاکری

حوزہ نیوز ایجنسی | امامیہ فقہا جیسے شیخ صدوق، شیخ مفید اور شیخ طوسی، رضوان اللہ تعالی عنہم ، دینی مسائل کے بہت سے حصوں میں احادیث عترت اور اہل بیت رسول ( ع ) سے استدلال کرتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ احادیث ثقلین پر اعتماد کرتے ہیں جب کہ بعض محدثین مذکورہ حدیث کے متن میں " عترتی" کے بجائے " سنتی " روایت کرتے ہیں۔
امامیہ شیعہ اپنے اصولوں اور عقائد میں دلائل و شواہد کی پیروی کرتے ہیں۔ وہ عترت کے اقوال و احادیث کو اگر وہ صحیح روایت کی گئی ہوں، اصول اور فروع دونوں میں حجت مانتے ہیں اس فرق کے ساتھ کہ فروع اور عملی مسائل میں وہ صحیح خبر کو مطلقاً بطور دلیل قبول کرتے ہیں، اگرچہ خبر واحد کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں۔ البتہ اصولوں اور عقائد سے متعلق مسائل میں چونکہ ہدف یقین ہے اور خبر واحد مفید یقین نہیں ہوتی،لہذا صرف خبر قطعی جو مفید علم و یقین ہیں کو حجت تسلیم کرتے ہیں۔ انہیں اقوال عترت کی حجیت کی سند میں سے ایک حدیث ثقلین ہے جسے محدثین نے قبول کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ” «اِنّی تارِک فِیکُمُ الثَّقَلَیْن کِتابَ اللهِ وَ عِتْرَتی ما اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِما لَنْ تَضِلُّوا بعدی.
میں تمہارے درمیاں دو گران بہا چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک اللہ کی کتاب دوسری میری عترت ہے جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے، گمراہ نہیں ہوگے"
لیکن چونکہ بعض احادیث میں ’’عترتی‘‘ کے بجائے ’’سنتی‘‘ بھی ملتا ہے، اس لیے یہ سوال یہاں پر پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں روایتوں میں سے کون سی روایت صحیح ہے۔۔۔۔۔؟
اور نتیجتاً کلامی مسائل کے دائرے میں عترت کی احادیث سے استدلال پر اعتراض کیا گیا ہے۔

اس معاملے میں شیعہ علماء کی طرف سے متعدد مقالے لکھے گئے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اور ثابت شدہ حدیث وہی حدیث ہے جو لفظ " اہل بیتی" سے نقل ہو، ایک روایت جس میں "اہل بیتی" کے بجائے "سنتی" کا لفظ داخل کیا گیا ہے۔ جو کہ سند کی اعتبار سے غلط ہے۔

اب ہم دونوں نصوص کی سند کے بارے میں بات کرتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ حدیث "اهل بیتی" کی سند " سنتی" کی سند کے برعکس مکمل طور پر صحیح ہے، اور سنتی کی سند باطل ہے۔

" اہل بیتی" کی سند:

اس عبارت کو دو بڑے محدثین نے نقل کیا ہے:

ایک مسلم نے اپنی صحیح میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان "خم" نامی تالاب کے کنارے خطبہ دیا۔ اس میں آپ نے خدا کی حمد و ثنا کی اور لوگوں کو نصیحت کی، پھر فرمایا:
فَإِنَّما أنَا بَشَرٌ يوشِكُ أن يَأتِيَ رَسولُ رَبّي فَاجيبَ، وأنَا تارِكٌ فيكُم ثَقَلَينِ: أوَّلُهُما كتابُ اللّهِ فيهِ الهُدى والنّورُ، فَخُذوا بِكتابِ اللّهِ واستَمسِكوا بِهِ. فَحَثَّ عَلى كِتابِ اللّهِ ورَغَّبَ فيهِ، ثُمَّ قالَ: وأهلُ بَيتي، اذَكِّرُكُمُ اللّهَ في أهلِ بَيتي، اذَكِّرُكُمُ اللّهَ في أهلِ بَيتي
"اے لوگو، میں ایک انسان سے زیادہ نہیں ہوں، اور خدا کے فرشتہ کی آمد قریب ہے، میں ان کی پکار پر لبیک کہوں گا، اور میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب ہے۔ جس میں ہدایت اور نور ہے، خدا کی کتاب کو لے لو اور اس سے متمسک رہو اور اسی کہ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن پر عمل کرنے کی تاکید کی، پھر فرمایا: میرے اہل بیت کو دوست رکھو۔ آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔
اس عبارت کو مسلم نے اپنی صحیح (صحیح مسلم، ج: 3، ص: 4--18، چاپ: عبد الباقی) اور دارمی نے اپنی سنن (دارمی، سنن، ج: 2، ص: 431--432) میں لایا ہے اور دونوں کا سلسلہ سورج کی طرح واضح ہے اور اس کے سلسلہ میں ذرہ برابر بھی نقص نہیں ہے۔
2 ترمذی نے بھی اس عبارت کو لفظ " عترتی اہل البیتی" کے ساتھ نقل کیا ہے اور حدیث کا متن یوں ہے:
: «إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ‏ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي، أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنْ الْآخَرِ؛ كِتَابُ‏ اللَّهِ‏ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنْ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَ لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ، فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا »
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ ر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کو تھامے رہو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے، ایک دوسرے سے بڑی ہے: کتاب خدا جو آسمان سے زمین تک متصل رحمت کی رسی ہے، اور میری عترت اور اہل بیت؛ اور یہ دونوں کبھی الگ نہیں ہوتے جب تک کہ وہ حوض پر مجھ تک نہ پہچے۔ دیکھو تم میری امانت کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔
یہ دونوں نصوص، جو لفظ "اہل بیت" پر تاکید کرتی ہیں،اور ان دونوں کی سند کامل ہے، اور بحث کی ضرورت نہیں۔ اور اس کے نقل کرنے والے صحیح و سنن کے مؤلف ہیں جن کی خاص اعتبار ہے۔

"سنتی" کی سند

وہ روایت جس میں "اہل البیتی" کے بجائے "سنتی" کا لفظ آیا ہے، وہ ایک من گھڑت حدیث ہے، جسے سلسلہ سند کی کمزوری کے ساتھ ساتھ بنو امیہ سے وابستہ ایجنٹوں نے بنایا اور پھیلایا۔

سند کی تحقیق:

پہلی سند روایت حاکم نیشابوری : حاکم نے مستدرک میں مذکورہ عبارت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس کا جائزہ لے تے ہیں:

1 (عباس) ابن ابی اویس، عن:
2 ابی اویس، عن:
3 ثور بن زید الدیلمی عن:
4 عکرمہ عن:
5 ابن عباس
پیغمبر اکرم نے فرمایا:
’’اے لوگو، جو کچھ میں نے تمہارے درمیان میں چھوڑا ہے، اگر تم اس پر قائم رہو تو گمراہ نہ ہو، کیونکہ یہ کتاب خدا اور سنت رسولؐ ہے۔‘‘
یا ایُّهَا النّاسُ اِنّی قَدْ ترَکْتُ فِیکُمْ، اِنِ اعْتَصَمْتُم بِهِ فَلَنْ تَضِلُّوا ابَداً کتاب الله وَ سنّة نَبِیّه».( حاکم، المستدرک، ج: 1، ص: 93.)
اے لوگو میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں۔
جب تک ان دونوں سے تمسک رکھیں گے، کبھی گمراہ نہیں ہوں گے: خدا کی کتاب اور سنت رسول (ص)
اس حدیث کی سند کا عیب ایک باپ اور بیٹے کی وجہ سے ہے جو سند کے شروع میں اییں ہیں۔ یعنی:
1 اسماعیل بن ابی اویس،
2 ابو اویس۔
یہ دونوں باپ اور بیٹے کی نہ صرف تصدیق نہیں کی گئی بلکہ ان پر جھوٹ اور جعلسازی کا الزام ہے۔ اب ہم علماء رجال کی عبارتیں نقل کرتے ہیں:
حافظ مزی نے اسماعیل اور ان کے والد کے بارے میں اپنی کتاب "تہذیب الکمال" میں علم رجال کے محققین سے درج ذیل باتیں نقل کی ہیں:
یحییٰ بن معین (جو کہ علم رجال کے بڑے علماء میں سے ہیں) کہتے ہیں: ابو اویس اور اس کا بیٹا ضعیف ہیں، اور یحییٰ بن معین سے بھی روایت ہے کہ انہوں نے کہا: یہ دونوں لوگ حدیث چراتے ہیں، اور ابن معین نے بچے کے بارے میں یہ بھی کہا ہے کہ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
بیٹے کے بارے میں نسائی نے کہا کہ وہ ضعیف ہے اور ثقہ نہیں ہے، ابو القاسم لالکائی نے کہا کہ نسائی نے اس کے خلاف بہت باتیں کیں حتیٰ یہاں تک کہا ہے کہ اس کی حدیث کو چهوڑ دینا چاہیے ۔
ابن عدی (رجال کے علماء میں سے ایک) کہتے ہیں: ابن ابی اویس اپنے چچا مالک سے عجیب و غریب احادیث روایت کرتے ہیں جنہیں کوئی قبول نہیں کرتا۔(حافظ مزی، تهذیب الکمال، ج : ص : 127)
حافظ سید احمد بن الصدیق اپنی کتاب فتح الملک العلی میں سلمہ بن شبیب سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اسماعیل بن ابی اویس کو یہ کہتے ہوئے سنا: جب اہل مدینہ کسی مسئلہ میں دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں تو میں ایک حدیث کو جعل کرتا ہوں۔ ( حافظ سید احمد، فتح الملک العلی، ص : 15)
لہٰذا، بیٹے (اسماعیل بن ابی اویس) پر حدیث کی جعلسازی کا الزام لگایا، اور ابن معین نے اس کی طرف جھوٹ منسوب کیا۔ اس کے علاوہ ان کی حدیث صحیح مسلم اور ترمذی اور دیگر مستند کتابوں میں مذکور نہیں ہے۔
والد کے بارے میں ابو حاتم رازی کی کتاب "جرح و تعدیل" میں اتنا ہی کافی ہے کہ: ان کی حدیث لکھی گئی ہے لیکن اس پر اعتماد نہیں کی گئی، اور اس کی حدیث پختہ اور محکم نہیں ہے۔( ابو حاتم رازی، الجرح و التعدیل، ج : 5، ص : 92)
نیز ابو حاتم نے ابن معین سے روایت کیا کہ ابو اویس، قابل اعتماد شخص نہیں ہے
جن روایتوں کی سند میں یہ دونوں لوگ ہو وہ کبھی درست نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ یہ صحیح اور ثابت روایت کے خلاف ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ حدیث کو نقل کرنے والا یعنی حاکم نیشابوری نے حدیث کی ضعف کا اعتراف کیا اس لیے اس کی سند پر نظر ثانی نہیں کی۔ تاہم وہ اس کے مندرجات کے صحیح ہونے کے لیے ایک گواہ لے کر آئے وہ بهی سند کے اعتبار سے ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے۔ اس وجہ سے حدیث کو تقویت ملنے کے بجائے اس کی کمزوری میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کی جھوٹی گواہی یہ ہے:

اور دوسری دستاویز "وسنتی"

حاکم نیشابوری، ابو ہریرہ سے مرفوع ( مرفوع وہ حدیث ہے جس کی نسبت معصوم کی طرف نہ ہو ) صورت میں نقل کرتے ہیں:
«انّی قَدْ تَرَکْتُ فِیکُمْ شَیْئَین لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُما: کِتابَ اللهِ وَ سُنّتی وَلَنْ یَفْتَرِقا حَتّی یَرِدا عَلَیَّ الْحَوْض» ( حاکم، مستدرک، ج: 1، ص: 93)
’’میں تمہارے ساتھ دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں تاکہ تم ان کے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ، کتاب خدا اور میری سنت، اور یہ دونوں جدا نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ حوض تک نہ آجائے‘‘ (حاکم، مستدرک، ج : 1، ص : 93)
حکیم نے اس حدیث کو درجہ زیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
1 الذہبی، عن:
2 صالح بن موسیٰ طلحی، عن:
3 عبد العزیز بن رافع، عن:
4 ابی صالح، عن:
5 ابی ہریرہ۔
یہ حدیث بھی پچھلی حدیث کی طرح جعلی ہے اور رجال میں اس حدیث کی سند کے مردود ہونے کی وجہ صالح بن موسیٰ طلحی کو سمجهتے ہیں۔ یہاں ہم ان کے بارے میں علم رجال کے ماہریں کے الفاظ نقل کرتے ہیں:
یحییٰ بن معین کہتے ہیں: صالح بن موسیٰ ثقہ نہیں ہیں، ابو حاتم رازی کہتے ہیں: ان کی حدیث ضعیف اور منافی ہے، وہ معتبر لوگوں سے بہت سی منافی احادیث روایت کرتے ہیں، نسائی: اس کی حدیث ساقط اور متروک ہے۔( حافظ مزی، تهذیب التهذیب، ج : 13، ص : 96
ابن حجر "تہذیب التہذیب" میں لکھتے ہیں: ابن حبان کہتے ہیں: صالح بن موسیٰ اہل ثقہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو ان کے قول سے مشابہت نہیں رکھتیں، آخر میں کہتے ہیں: اس کی حدیث حجت نہیں ہے۔ وابو نعیم کہتے ہیں: اس کی حدیث ساقط ہے اور وہ مسلسل منفی حدیث بیان کرتا ہے۔( ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج : 4، ص : 355)
پھر ابن حجر تقریب ( ابن حجر، تقریب، ترجمہ نمبر 2891) میں کہتے ہیں: اس کی حدیث ساقط اور متروک ہے، اور ذہبی کاشف ( زہبی، الکاشف، ترجمہ نمبر 2412) میں کہتے ہیں: اس کی حدیث ضعیف ہے۔
"میزان الاعتدال" (زہبی، میزان الاعتدال، ج : 2، ص 302) میں ذہبی نے مزکورہ حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا کہ یہ ان کی منفی حدیثوں میں سے ہے۔

حدیث "وسنتی" کی تیسری سند

ابن عبد البر نے اس عبارت کو کتاب "تمہید" ( التمهید، ج : 24، ص: 331) میں درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے:
1 عبدالرحمن بن یحییٰ، عن:
2 احمد بن سعید، عن:
3 محمد بن ابراہیم الدبیلی، عن:
4 علی بن زید الفریزی، عن:
5 الحنینی، عن:
6 کثیر بن عبداللہ بن عمرو بن عوف، عن:
7 ابیہ، جدہ سے:
ان راویوں میں سے کثیر بن عبداللہ کے بارے میں بحث ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں: وہ جھوٹ کے ستونوں میں سے ہے (ابن حجر، تهذیب التهذیب، ج : 8، ص : 377 )۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وہ جھوٹوں میں سے ہے، (ایضا) ابن حبان کہتے ہیں: عبداللہ بن کثیر اپنے والد و دادا سے حدیث کی کتاب روایت کرتے ہیں، جس کی بنیاد جعل پر ہے، اس کتاب کو نقل کرنا اور اس سے روایت کرنا حرام ہے سوائے حیرت اور تنقید کے۔(ابن حیان، المجروحین، ج : 2، ص : 221)
نسائی اور دارقطنی کہتے ہیں: اس کی حدیث ساقط ہے، امام احمد کہتے ہیں: وہ حدیث کا انکار کرتا ہے اور قابل اعتبار نہیں ہے، اور ابن معین نے بھی اسی بات کو ذکر کیا ہے۔
ابن حجر کی کتاب "التقریب" میں یہ بات حیران کن ہے کہ انہوں نے اپنے ترجمے میں صرف "ضعیف" کا لفظ استعمال کیا اور ان پر جھوٹ بولنے کا الزام لگانے والوں کو انتہا پسند کہا۔ جبکہ علم رجال کے بزرگوں نے اس پر جھوٹ اور جعلسازی کا الزام لگایا ہے، یہاں تک کہ ذہبی کہتے ہیں: اس کی بات فریب اور بے جان ہے۔

4 سند کے بغیر نقل

مالک نے اسے "الموطا" میں بغیر سند اور مرسل کے طور پر نقل کیا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایسی حدیث کی کوئی قیمت نہیں ہے۔(مالک، الموطا، ص : 889، ح : 3 )
اس تحقیق سے واضح طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ "وسنتی" حدیث جھوٹے راویوں اور اموی دربار سے جڑے لوگوں نے بنائی ہے، جنہوں نے اسے صحیح "وعترتی" حدیث کے خلاف گھڑ لیا۔ لذا علما و مشائیخ پر ضروری ہے کہ وہ اس حدیث کو چھوڑ دیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے اور لوگوں کو صحیح حدیث سے روشناس کرایا۔
وہ حدیث بیان کریں جو مسلم نے اپنی "صحیح" میں اہل البیتی کی صورت میں نقل کی ہے، اور ترمذی نے اسے لفظ عترتی و اہل البیتی سے روایت کیا ہے۔

عترت سے کوں لوگ مراد ہے

لفظ "اہل بیت" میں پیغمبر کی اولاد شامل ہے، جیسے کہ حضرت فاطمہ، حسن اور حسین علیہما السلام، کیونکہ مسلم صحیح (مسلم، ج : 4، ص : 1883 نمبر : 2424) اور ترمذی نے اپنی سنن (ترمزی، ج : 5، ج : 663) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے۔
" آیت تطہر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ام سلمہ کے گهر نازل ہوئی《 اِنَّما یُرِیدُ الله لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اهْل الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرکُمْ تَطْهِیراً
》پهر پیغمبر اکرم نے حضرت فاطمیہ (س) اور حسن و حسیں ( علیهما سلام ) بلایا اور کساء کے نیچے قرار دیا اور ان کے بعد حضرت علی کو چارد کے نیچے قرار دیا اور فرمایا 《 الَّلهُمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بَيْتي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيراً 》ام سلمہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے نہیں ہوں؟
آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر ٹھہرو، (چادر کے نیچے نہ جاؤ) اور تم سیدھے راستے پر ہو (حسن بن علی السقاف، سحیح صفه صلات النبی، ص : 289- 294)۔
اگر اپ کی بیویاں، اہل بیت کے میں شامل ہوتی تو ام سلمہ کو چادر میں داخل ہونے سے یہ کہہ کر " «أَنْتِ عَلي مَكانِكِ وَأَنْتِ عَلي خَيْر »
" منع نہیں کرتا لذا یقین سے کہہ سکتے ہیں عترت سے مراد وہی پانچ ہستیاں ہیں جو چادر کے نیچے جمع ہوئیں اور ان کی شان میں آیت تطہر اتری (منشور جاوید، ج: 5، ص: 294 )

تبصرہ ارسال

You are replying to: .